Urwatul-Wusqaa - Az-Zukhruf : 44
وَ اِنَّهٗ لَذِكْرٌ لَّكَ وَ لِقَوْمِكَ١ۚ وَ سَوْفَ تُسْئَلُوْنَ
وَاِنَّهٗ : اور بیشک وہ لَذِكْرٌ : البتہ ذکر ہے لَّكَ : تیرے لیے وَلِقَوْمِكَ : اور تیری قوم کے لیے وَسَوْفَ تُسْئَلُوْنَ : اور عنقریب تم پوچھے جاؤ گے
اور بلاشبہ یہ (قرآن) آپ ﷺ کے لیے اور آپ ﷺ کی امت کے لیے باعث نصیحت ہے اور عنقریب تم سے پوچھا جائے گا
یہ کتاب آپ ﷺ کے لیے اور آپ ﷺ کی قوم کے لیے ایک بہت بڑا شرف ہے 44 ؎ یہ کتاب یعنی قرآن کریم آپ ﷺ کے لیے اور آپ ﷺ کی قوم کے لیے عزت و شرف کا باعث ہے جو لوگ اس نعمت عظمیٰ کو ٹھکرا رہے ہیں وہ خود اپنے لیے محرومیاں اور ناکامیاں اکٹھی کر رہے ہیں۔ ایک کتاب کا کسی بندے پر نازل کیا جانا کوئی معمولی بات نہیں ہے اور پھر جس قوم سے اس بندے کا تعلق ہے یہ چیز لاشبہ اس کے لیے بھی قابل فخر ہے لیکن ان باتوں کو اکثر لوگ نظر انداز کردیتے ہیں اور کر رہے ہیں خوش نصیب ہیں وہ جو حقیقت کو حقیقت تسلیمکر گئے اور نبی اعظم و آخر ﷺ پر ایمان لے آئے اور وہ عظمت و شرف کے اس مقام کو حاصل کر گئے اور جن لوگوں نے اس کی ناقدری کی بلاریب ہم ان سے اس ناقدری کرنے پر سوال کریں گے ان کو یہ بات کان کھول کر سن لینی چاہئے کہ آنے والے کل کو وہ یہ اعتراض نہ کریں کہ ہم نے اس بات کو اچھی طرح سمجھا ہی نہ تھا۔ اس فرضِ منصبی کو آپ ﷺ نے کس طرح پورا کا اس کی پوری دنیا گواہ ہے لیکن جو معاملہ آپ ﷺ کی قوم کے ذمہ لگایا گیا تھا اس کو قوم نے کس طرح پورا کیا اور کر رہی ہے اس کی داستان کسی سے پوشیدہ نہیں ہے حالانکہ یہ بات ان کو پہلے بتائی جا چکی ہے کہ ہم نے اس کے متعلق آپ لوگوں سے بھی سوال کرنا ہے۔ وائے حسرتا ! آج ہم مسلمانوں کی حالت یہ ہے جو امت محمدیہ کہلانے والے ہیں کہ وہیں سب سے زیادہ اندھیرا ہے جہاں جہاں یہ آباد ہیں۔ معاشی بدحالی ، اخلاقی انحطاط کے جس مقام پر آج ہم ہیں شاید ہی کوء یدوسری قوم ہو لیکن افسوس کہ ہم نے اس قرآن کریم کو زندوں کی بجائے مُردوں کی بخشش کیل یے مختص کردیا ہے اور اس کے ذریعہ مذہبی ٹھیکہ داروں کی وساطت سے ہم اپنے مرے ہوؤں کو بخشوا رہے ہیں اور جب ہم مرجائیں گے تو ہماری اولادیں ہماری بخشش کی فکر کریں گی اور آج کے ملاؤں کا پیٹ ہم بھر رہے ہیں اور آنے والے ملاؤں کے پیٹ بھرنے کے لیے ہماری اولادیں کمائیں گی۔ ستیاناس اس ملائیت کا جس نے قرآن کریم جیسی کتاب کو زندوں کے ہاتھوں سے چھین کر اپنے پیٹ کی خاطر مردوں کے لیے مخصوص کردیا اور گلچھرے اڑانے کے لیے مختلف تہوار بھی مقرر کردیئے تاکہ ملاں فکر معاش سے مکمل طور پر آزاد ہوجائے اور اس کے لیے من وسلویٰ ہر وقت اترتا ہی رہے گا بلاشبہ آج کل جتنا پنجہ یہودیت کا مضبوط ہے اتنا ملائیت کا بھی اور اسلام کا جتنا بڑا دشمن وہ ہے اتنا بڑا دشمن ملاں بھی لیکن بدقسمتی سے مسلمان قوم دونوں ہی غافل ہوچکی ہے جس کے نتیجے میں نہ ہماری دنیا رہی ہے اور نہ ہی دین۔ اس کی مزید وضاحت مطلوب ہو تو عزوۃ الوثقی جلد سوم میں سورة الاعراف کی آیت 7 , 6 کا مطالعہ کریں۔
Top