Madarik-ut-Tanzil - Maryam : 85
یَوْمَ نَحْشُرُ الْمُتَّقِیْنَ اِلَى الرَّحْمٰنِ وَفْدًاۙ
يَوْمَ : جس دن نَحْشُرُ : ہم جمع کرلیں گے الْمُتَّقِيْنَ : پرہیزگار (جمع) اِلَى الرَّحْمٰنِ : رحمن کی طرف وَفْدًا : مہمان بنا کر
جس روز ہم پرہیزگاروں کو خدا کے سامنے (بطور) مہمان جمع کریں گے
متقین کا اعزاز اور مجرمین کی ذلت : 85، 86: یَوْمَ نَحْشُرُ الْمُتَّقِیْنَ اِلَی الرَّحْمٰنِ وَفْدًا (اس دن کو یاد کرو جس روز ہم متقین کو رحمٰن کی بارگاہ میں مہمان بنا کر جمع کریں گے) اس حالت میں کہ وہ عمدہ قسم کی اونٹنیوں پر سوار ہونگے۔ جن کے کجاوے سونے کے اور ان کی مہاریں یاقوت و زبردج کی ہونگی۔ وَّ نَسُوْقُ الْمُجْرِمِیْنَ اِلٰی جَھَنَّمَ وِرْدًا ( اور مجرمین کو ہم دوزخ کی طرف پیاسا ہانکیں گے) مجرمین سے کافر مراد ہیں۔ سوق سے مراد ہے چوپائیوں کی طرح ہانک کرلے جانا کیونکہ وہ دنیا میں چوپائیوں سے بھی زیادہ گمراہ تھے اور وردًا کا معنی پیاسے کیونکہ جو آدمی گھاٹ پر وارد ہوتا ہے اس کو پیاس ہی گھاٹ پر لاتی ہے ورد کی حقیقت یہ ہے پانی کی طرف چلنا اس لئے جانے والوں کو وارد کہا جاتا ہے اور وفد جمع وافد کی ہے جیسے رکب جمع راکب کی ہے اور ورد جمع وارد کی ہے۔ نحو : یوم فعل مضمر کی وجہ سے منصوب ہے وہ یوم نحشر ہے اور نَسُوقُ کا مطلب یہ ہے کہ ان دونوں گروہوں کے ساتھ وہ سلوک کریں گے جس کو بیان نہیں کیا جاسکتا۔ دوسرا معنی اذکر یوم نحشرھم (تم اس دن کو یاد کرو جب ہم ان کو جمع کریں گے) یہاں متقین کا تذکرہ اس طرح کیا کہ ان کو اپنے اس رب کی بارگاہ میں اکٹھا کیا جائیگا۔ جو اپنی رحمت سے ان کو ڈھانپ لے گا۔ جس طرح کہ بادشاہ کے پاس خیر سگالی وفد آتے ہیں اور کافروں سے اس طرح سلوک کیا جائے گا کہ ان کو آگ کی طرف لے جایا جائے گا گویا کہ وہ پیاسے اونٹ ہیں جن کو بطور تذلیل کے پانی کی طرف چلایا جائے۔
Top