Tafseer-e-Madani - Az-Zukhruf : 44
وَ اِنَّهٗ لَذِكْرٌ لَّكَ وَ لِقَوْمِكَ١ۚ وَ سَوْفَ تُسْئَلُوْنَ
وَاِنَّهٗ : اور بیشک وہ لَذِكْرٌ : البتہ ذکر ہے لَّكَ : تیرے لیے وَلِقَوْمِكَ : اور تیری قوم کے لیے وَسَوْفَ تُسْئَلُوْنَ : اور عنقریب تم پوچھے جاؤ گے
بلاشبہ یہ قرآن ایک بڑا شرف ہے آپ ﷺ کے لئے بھی اور آپ ﷺ کی قوم کے لئے بھی اور عنقریب ہی تم سب سے اس کے بارے میں پوچھا جائے گا3
56 قرآن حکیم ایک عظیم الشان ذکر وشرف : سو ارشاد فرمایا گیا اور ادوات تاکید کے ساتھ فرمایا گیا کہ بلاشبہ یہ قرآن ایک عظیم الشان شرف ہے۔ ایسا عظیم الشان شرف کہ اس جیسا دوسرا کوئی شرف نہ کبھی انسانیت کو اس سے پہلے کبھی نصیب ہوا اور نہ کبھی آئندہ نصیب ہوگا۔ ایسا شرف جو کہ دارین کی فوز و فلاح اور سعادت و کامرانی کا کفیل وضامن ہے۔ ایسا شرف جو کہ پوری نوع انسانیت کے لئے کامل دستور اور مکمل ضابطہ حیات ہے۔ سو فرمایا گیا کہ یہ ایک عظیم الشان شرف ہے آپ ﷺ کیلئے اے پیغمبر ! کہ آپ ﷺ پر یہ عظیم الشان اور بےمثال کلام بذریعہ وحی نازل فرمایا گیا۔ اور اس کے ذریعے آپکو نبوت و رسالت بلکہ نبیوں کی امامت و پیشوائی کے عظیم الشان اور بیمثال شرف سے نوازا گیا اور آپ ﷺ کی قوم یعنی قریش اور پوری عرب قوم کیلئے بھی یہ ایک عظیم الشان شرف ہے جس سے انکو اور ان کی زبان کو دائمی عزت و شرف سے نوازا گیا۔ یہ لفظ ذکر کا ایک معنیٰ و مفہوم ہے۔ جبکہ اسکا دوسرا معنیٰ و مفہوم یہ ہے کہ یہ لفظ تذکیر کے معنیٰ میں ہے۔ حضرات مفسرین کرام نے ان دونوں کو ذکر وبیان فرمایا ہے۔ اور کسی نے ان دونوں میں سے ایک مفہوم کو اختیار کیا ہے اور کسی نے دوسرے کو۔ (ابن کثیر، روح، قرطبی، مراغی اور صفوۃ وغیرہ) ۔ لیکن افضل اور بہتر یہ ہے کہ اس لفظ کو ان دونوں ہی مفہوموں کیلئے عام رکھا جائے کہ قرآن پاک کے اندر یہ دونوں ہی وصف اور دونوں ہی شانیں موجود ہیں۔ 57 پیغمبر اور قوم دونوں کی ذمہ داری کا حوالہ : سو ارشاد فرمایا گیا کہ " بلاشبہ یہ عظیم الشان شرف ہے آپ ﷺ کیلئے بھی اور آپ ﷺ کی قوم کیلئے بھی " کہ حق کا یہ آخری اور ابدی پیغام اس خاتم الکتب کی شکل میں آپ پر اور آپ کی قوم کی لغت و زبان میں نازل ہوا۔ جس کی بنا پر دنیا کی دوسری تمام قومیں ان کی زبان و لغت سیکھنے اور اس کی طرف رجوع کرنے پر مجبور ہوگئیں۔ اور اس کتاب حکیم کی برکت سے ان کی زبان و لغت نہ صرف یہ کہ زندئہ جاوید ہوگئی بلکہ مرجع خلائق بھی بن گئی۔ اسی آیت کریمہ کی نظیر سورة انبیاء کی یہ آیت کریمہ ہے ۔ { وَلَقَدْ اَنْزَلْنَا اِلَیْکُمْ کِتَابًا فِیْہِ ذِکْرُکُمْ افلا تعقلون } ۔ (الانبیائ : 10) ۔ اور جیسا کہ اوپر والے حاشیے میں گزرا یہ کتاب حکیم ایک عظیم الشان شرف بھی ہے اور حق اور حقیقت کے عرض وبیان کیلئے ایک عظیم الشان تذکیر و یاددہانی بھی۔ سو اس ارشاد سے قرآن حکیم سے متعلق پیغمبر اور قوم دونوں کی ذمہ داری کا حوالہ بھی دے دیا گیا کہ پیغمبر کے ذمے اس پیغام حق کی تبلیغ ہے۔ یعنی اس کو بلا کم وکاست جوں کا توں آگے پہنچا دینا اور قوم کی ذمہ داری اس کو صدق دل سے اپنانا اور قبول کرنا اور زندگی کو اس کے سانچے میں ڈھالنا ہے۔ اور یہی راستہ ہے سعادت دارین سے سرفرازی کا۔ 58 پرسش آخرت کی تذکیر و یاددہانی : سو ارشاد فرمایا گیا کہ " تم سب سے اس ذکر عظیم کے بارے میں عنقریب پوچھ ہوگی "۔ کہ تم لوگوں نے اس کی کیا قدر پہچانی اور کیا حق ادا کیا۔ اور ظاہر ہے کہ جب نعمت اتنی بڑی ہے تو اس کی پوچھ بھی اتنی ہی بڑی اور اسی قدر سخت ہوگی ۔ اللہ ہمیں اس کا حق پہنچاننے اور ادا کرنے کی توفیق بخشے ۔ آمین۔ حقوق قرآن کے بارے میں راقم آثم نے اپنی کتاب " معجزات خاتم الانبیائ " کے شروع میں کافی کچھ ذکر کیا ہے جو آج سے کوئی بیس سال قبل چھپ گئی تھی ۔ والحمد للہ ۔ نیز اپنی دوسری کتاب جو کہ " نعمت قرآن اور اس کے تقاضے " کے نام و عنوان سے تحریر کی گئی ہے اور ابھی حال ہی میں زیور طبع سے آراستہ ہو کر منصہ شہود پر آئی ہے اس میں بھی حقوق قرآن کو کافی تفصیل سے بیان کردیا ہے ۔ والحمد للہ رب العالمین ۔ بہرکیف اس ذکر عظیم کے بارے میں پیغمبر سے بھی پوچھ ہوگی اس کی تبلیغ کے بارے میں۔ اور امت سے پوچھ ہوگی کہ انہوں نے اسکا کیا حق ادا کیا۔ جیسا کہ سورة اعراف میں اس بارے ارشاد فرمایا گیا ۔ { فَلَنَسْاَلَنَّ الَّذِیْنَ اُرْسِلَ اِلَیْہِمْ وَلَنَسْاَلَنَّ الْمُرْسَلِیْنَ فَلَنَقُصَّنَّ عَلَیْہِمْ بِعِلْمٍ وَّمَا کُنَّا غَائِبِیْنَ } ۔ (الاعراف : 6-7) ۔ یعنی " ہم نے ضرور پوچھنا ہے ان لوگوں سے جن کی طرف رسول بھیجے گئے اور ہم نے ضرور پوچھنا ہے رسولوں سے بھی۔ پھر انکو ہم خود ہی بتادیں گے ان کی پوری سرگزشت علم کی بنا پر۔ اور ہم کہیں غائب اور۔ بیخبر نہیں تھے ۔ " سو رسولوں سے پوچھ ان کی تبلیغ کے بارے میں ہوگی اور ان کی قوموں سے اس کی قبولیت و استجابت کے بارے میں۔ سو اس ارشاد ربانی میں ایک طرف تو رسول کریم اور آپ کے صحابہ کرام کے لیے تسکین وتسلیہ کا سامان ہے اور دوسری طرف اس میں مخالفین و منکرین کے لیے تہدید و وعید بھی ہے کہ معاملہ یہیں ختم ہوجانے والا نہیں بلکہ آگے ایک ایسا ہولناک دن آنے والا ہے جس میں یہ سارا مقدمہ خداوند قدوس کی عدالت میں پیش ہوگا جہاں اس بارے آخری اور عملی فیصلہ ہوگا۔ سو اس موقع پر معلوم ہوجائے گا کہ کون جیتا اور کون ہارا۔ اور کس نے کیا پایا اور کیا کھویا ۔ وباللہ التوفیق لما یحب ویرید وعلی ما یحب ویرید ۔ سبحانہ وتعالیٰ -
Top