Maarif-ul-Quran - Az-Zukhruf : 44
وَ اِنَّهٗ لَذِكْرٌ لَّكَ وَ لِقَوْمِكَ١ۚ وَ سَوْفَ تُسْئَلُوْنَ
وَاِنَّهٗ : اور بیشک وہ لَذِكْرٌ : البتہ ذکر ہے لَّكَ : تیرے لیے وَلِقَوْمِكَ : اور تیری قوم کے لیے وَسَوْفَ تُسْئَلُوْنَ : اور عنقریب تم پوچھے جاؤ گے
اور یہ مذکور رہے گا تیرا اور تیری قوم کا اور آگے تم سے پوچھ ہوگی
نیک شہرت بھی دین میں پسندیدہ ہے
(آیت) وَاِنَّهٗ لَذِكْرٌ لَّكَ وَلِقَوْمِكَ (اور یہ قرآن آپ کے لئے اور آپ کی قوم کے لئے بڑے شرف کی چیز ہے) ”ذکر“ سے یہاں مراد نیک ناموری ہے۔ اور مطلب یہ ہے کہ قرآن کریم آپ کے اور آپ کی قوم کے لئے شرف عظیم اور نیک شہرت کا باعث ہے۔ امام رازی فرماتے ہیں کہ اس آیت سے یہ معلوم ہوا کہ نیک شہرت ایک قابل رغبت چیز ہے، اسی لئے اللہ تعالیٰ نے یہاں اس کو ایک احسان کے طور پر ذکر فرمایا ہے اور اسی لئے حضرت ابراہیم ؑ نے یہ دعا فرمائی تھی کہ (آیت) واجعل لی لسان صدق فی الآخرین (تفسیر کبیر) لیکن یہ یاد رکھنا چاہئے کہ نیک شہرت اس وقت مستحسن ہے جب وہ مقصد زندگی بنائے بغیر انسان کے اعمال صالحہ سے خود بخود حاصل ہوجائے اور اگر انسان نیکیاں صرف اسی مقصد سے کرے کہ اس سے دنیا میں نام ہوگا تو یہ ریا ہے جس سے نیکیوں کا سارا فائدہ جاتا رہتا ہے اور الٹا گناہ لازم ہوجاتا ہے۔ اس آیت میں ”آپ کی قوم“ سے مراد بعض مفسرین نے صرف قبیلہ قریش کو قرار دیا ہے اور اس سے قریش کی فضیلت ثابت کی ہے لیکن علامہ قرطبی فرماتے ہیں کہ صحیح یہ ہے کہ اس سے مراد آپ کی پوری امت ہے خواہ کسی رنگ و نسل سے تعلق رکھتی ہو۔ قرآن کریم ان سب کے لئے عظمت و شرف اور نیک ناموری کا باعث ہے۔ (قرطبی)
Top