Anwar-ul-Bayan - Al-Fath : 10
اِنَّ الَّذِیْنَ یُبَایِعُوْنَكَ اِنَّمَا یُبَایِعُوْنَ اللّٰهَ١ؕ یَدُ اللّٰهِ فَوْقَ اَیْدِیْهِمْ١ۚ فَمَنْ نَّكَثَ فَاِنَّمَا یَنْكُثُ عَلٰى نَفْسِهٖ١ۚ وَ مَنْ اَوْفٰى بِمَا عٰهَدَ عَلَیْهُ اللّٰهَ فَسَیُؤْتِیْهِ اَجْرًا عَظِیْمًا۠   ۧ
اِنَّ الَّذِيْنَ : بیشک جو لوگ يُبَايِعُوْنَكَ : آپ سے بیعت کررہے ہیں اِنَّمَا : اس کے سوا نہیں کہ يُبَايِعُوْنَ اللّٰهَ ۭ : وہ اللہ سے بیعت کررہے ہیں يَدُ اللّٰهِ : اللہ کا ہاتھ فَوْقَ : اوپر اَيْدِيْهِمْ ۚ : ان کے ہاتھوں کے فَمَنْ : پھر جس نے نَّكَثَ : توڑ دیا عہد فَاِنَّمَا : تو اس کے سوا نہیں يَنْكُثُ : اس نے توڑدیا عَلٰي نَفْسِهٖ ۚ : اپنی ذات پر وَمَنْ اَوْفٰى : اور جس نے پورا کیا بِمَا عٰهَدَ : جو اس نے عہد کیا عَلَيْهُ اللّٰهَ : اللہ پر، سے فَسَيُؤْتِيْهِ : تو وہ عنقریب اسے دیگا اَجْرًا عَظِيْمًا : اجر عظیم
بلاشبہ جو لوگ آپ سے بیعت کرتے ہیں وہ اللہ ہی سے بیعت کرتے ہیں، اللہ کا ہاتھ ان کے ہاتھوں پر ہے، سو جو شخص عہد توڑ دے گا اس کا توڑنا اسی کی جان پر ہوگا، اور جو شخص اس عہد کو پورا کر دے جو اس نے اللہ سے کیا ہے سو وہ اسے بڑا اجر عطاء فرمائے گا۔
رسول اللہ ﷺ سے بیعت کرنا اللہ ہی سے بیعت کرنا ہے جس وقت مقام حدیبیہ میں رسول اللہ ﷺ کا قیام تھا اور حضرات صحابہ ؓ آپ کے ساتھ تھے اس وقت مکہ والوں کے آڑے آجانے کی وجہ سے حضرت عثمان ؓ کی وفات کی خبر سے کچھ ایسی فضاء بن گئی تھی کہ جیسے جنگ کی ضرورت پڑ سکتی ہے اس موقع پر رسول اللہ ﷺ نے ایک درخت کے نیچے بیٹھ کر حضرات صحابہ ؓ سے بیعت لی جس میں یہ تھا کہ جم کر جہاد کریں گے پشت پھیر کر نہ بھاگیں گے بیعت کرنے والوں کے بارے میں ارشاد فرمایا کہ آپ سے جو بیعت کر رہے ہیں انکی یہ بیعت اللہ تعالیٰ ہی سے ہے آپ اللہ کے رسول ہیں اللہ کے دین کی طرف دعوت دیتے ہیں اور دعوت قبول کرنے والوں کو خود بھی اللہ کے دین پر چلاتے ہیں جو آپ کی فرمانبرداری کرتا ہے وہ اللہ کی فرمانبرداری کرتا ہے۔ اس بیعت میں اللہ تعالیٰ کی فرمانبرداری کا اقرار بھی آجاتا ہے اور رسول اللہ ﷺ کی فرمانبرداری کا بھی، قرآن مجید میں جگہ جگہ اللہ کی اطاعت کے ساتھ رسول اللہ ﷺ کی اطاعت کا بھی ذکر ہے سورة النساء میں واضح طور پر فرمایا ﴿ مَنْ يُّطِعِ الرَّسُوْلَ فَقَدْ اَطَاع اللّٰهَ ﴾ بیعت کے لیے ضروری ہے کہ ہاتھ میں ہاتھ دے کر ہی ہو زبانی اقرار عہد و پیمان بھی بیعت ہے لیکن چونکہ حدیبیہ کے موقع پر آپ نے ہاتھ میں ہاتھ لے کر بیعت فرمائی اور بیعت اسی طرح مروج تھی (اور اب بھی اسی طرح مروج ہے) اس لیے ارشاد فرمایا ﴿يَدُ اللّٰهِ فَوْقَ اَيْدِيْهِمْ ﴾ کہ اللہ کا ہاتھ ان کے ہاتھوں پر ہے۔ اللہ تعالیٰ شانہٗ اعضاء اور جوارح سے تو پاک ہے لیکن بیعت کی ذمہ داری کو واضح فرمانے کے لیے اور اس بات کو مؤكد کرنے کے لیے جو لوگ آپ ﷺ سے بیعت کرتے ہیں۔ وہ اللہ ہی سے بیعت کرتے ہیں اس لیے ﴿ يَدُ اللّٰهِ فَوْقَ اَيْدِيْهِمْ ﴾ فرمایا۔ چونکہ بیعت کرنے والے کی اندرونی حالت کو وہ شخص نہیں جانتا جس سے بیعت کی جا رہی ہو اس لیے بیعت کرنے والے کی ذمہ داری بتانے کے لیے فرمایا ﴿ فَمَنْ نَّكَثَ فَاِنَّمَا يَنْكُثُ عَلٰى نَفْسِهٖ﴾ (کہ جو شخص بیعت کو توڑ دے اس کے توڑنے کا وبال اسی پر پڑے گا) معاہدہ کرکے توڑ دینا تو ویسے بھی گناہ کبیرہ ہے پھر جبکہ معاہدہ کو بیعت کی صورت میں مضبوط اور موکد کردے تو اور زیادہ ذمہ داری بڑھ جاتی ہے جب اللہ کے رسول سے بیعت کرلی تو اس کو پورا کرنا ہی کرنا ہے۔ ﴿وَ مَنْ اَوْفٰى بِمَا عٰهَدَ عَلَيْهُ اللّٰهَ فَسَيُؤْتِيْهِ اَجْرًا عَظِيْمًا (رح) 0010﴾ (اور جو شخص اس عہد کو پورے کردے جو اس نے اللہ سے کیا ہے تو اللہ تعالیٰ اسے اجر عظیم عطا فرمائے گا) فائدہ : اصحاب طریقت کے یہاں جو سلسلہ جاری ہے یہ مبارک و متبرک ہے اگر کسی متبع سنت شیخ سے مرید ہوجائے تو برابر تعلق باقی رکھے لیکن اگر شیخ خلاف شریعت کسی کام کا حکم دے تو اس پر عمل کرنا گناہ ہے، اگر کسی فاسق یا بدعتی پیر سے بیعت ہوجائے تو اس بیعت کو توڑنا واجب ہے۔
Top