Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Tafseer Ibn-e-Kaseer - Al-Fath : 10
اِنَّ الَّذِیْنَ یُبَایِعُوْنَكَ اِنَّمَا یُبَایِعُوْنَ اللّٰهَ١ؕ یَدُ اللّٰهِ فَوْقَ اَیْدِیْهِمْ١ۚ فَمَنْ نَّكَثَ فَاِنَّمَا یَنْكُثُ عَلٰى نَفْسِهٖ١ۚ وَ مَنْ اَوْفٰى بِمَا عٰهَدَ عَلَیْهُ اللّٰهَ فَسَیُؤْتِیْهِ اَجْرًا عَظِیْمًا۠ ۧ
اِنَّ الَّذِيْنَ
: بیشک جو لوگ
يُبَايِعُوْنَكَ
: آپ سے بیعت کررہے ہیں
اِنَّمَا
: اس کے سوا نہیں کہ
يُبَايِعُوْنَ اللّٰهَ ۭ
: وہ اللہ سے بیعت کررہے ہیں
يَدُ اللّٰهِ
: اللہ کا ہاتھ
فَوْقَ
: اوپر
اَيْدِيْهِمْ ۚ
: ان کے ہاتھوں کے
فَمَنْ
: پھر جس نے
نَّكَثَ
: توڑ دیا عہد
فَاِنَّمَا
: تو اس کے سوا نہیں
يَنْكُثُ
: اس نے توڑدیا
عَلٰي نَفْسِهٖ ۚ
: اپنی ذات پر
وَمَنْ اَوْفٰى
: اور جس نے پورا کیا
بِمَا عٰهَدَ
: جو اس نے عہد کیا
عَلَيْهُ اللّٰهَ
: اللہ پر، سے
فَسَيُؤْتِيْهِ
: تو وہ عنقریب اسے دیگا
اَجْرًا عَظِيْمًا
: اجر عظیم
جو لوگ تم سے بیعت کرتے ہیں وہ خدا سے بیعت کرتے ہیں۔ خدا کا ہاتھ ان کے ہاتھوں پر ہے۔ پھر جو عہد کو توڑے تو عہد توڑنے کا نقصان اسی کو ہے۔ اور جو اس بات کو جس کا اس نے خدا سے عہد کیا ہے پورا کرے تو وہ اسے عنقریب اجر عظیم دے گا
آنکھوں دیکھا گواہ رسول اللہ ﷺ اللہ تعالیٰ اپنے نبی کو فرماتا ہے ہم نے تمہیں مخلوق پر شاہد بنا کر، مومنوں کو خوشخبریاں سنانے والا کافروں کو ڈرانے والا بنا کر بھیجا ہے اس آیت کی پوری تفسیر سورة احزاب میں گذر چکی ہے۔ تاکہ اے لوگو اللہ پر اور اس کے نبی پر ایمان لاؤ اور اس کی عظمت و احترام کرو بزرگی اور پاکیزگی کو تسلیم کرو اور اس لئے کہ تم اللہ تعالیٰ کی صبح شام تسبیح کرو۔ پھر اللہ تعالیٰ اپنے نبی کی تعظیم و تکریم بیان فرماتا ہے کہ جو لوگ تجھ سے بیعت کرتے ہیں وہ دراصل خود اللہ تعالیٰ سے ہی بیعت کرتے ہیں جیسے ارشاد ہے آیت (مَنْ يُّطِعِ الرَّسُوْلَ فَقَدْ اَطَاع اللّٰهَ ۚ وَمَنْ تَوَلّٰى فَمَآ اَرْسَلْنٰكَ عَلَيْهِمْ حَفِيْظًا 80ۭ) 4۔ النسآء :80) یعنی جس نے رسول ﷺ کی اطاعت کی اس نے اللہ کا کہا مانا اللہ کا ہاتھ ان کے ہاتھوں پر ہے یعنی وہ ان کے ساتھ ہے ان کی باتیں سنتا ہے ان کا مکان دیکھتا ہے ان کے ظاہر باطن کو جانتا ہے پس دراصل رسول ﷺ کے واسطے سے ان سے بیعت لینے والا اللہ تعالیٰ ہی ہے، جیسے فرمایا آیت (اِنَّ اللّٰهَ اشْتَرٰي مِنَ الْمُؤْمِنِيْنَ اَنْفُسَھُمْ وَاَمْوَالَھُمْ بِاَنَّ لَھُمُ الْجَنَّةَ01101) 9۔ التوبہ :111) ، یعنی اللہ تعالیٰ نے ایمان والوں سے ان کی جانیں اور ان کے مال خرید لئے ہیں اور ان کے بدلے میں جنت انہیں دے دی ہے وہ راہ اللہ میں جہاد کرتے ہیں مرتے ہیں اور مارتے ہیں اللہ کا یہ سچا وعدہ تورات و انجیل میں بھی موجود ہے اور اس قرآن میں بھی سمجھ لو کہ اللہ سے زیادہ سچے وعدے والا کون ہوگا ؟ پس تمہیں اس خرید فروخت پر خوش ہوجانا چاہیے دراصل سچی کامیابی یہی ہے ابن ابی حاتم میں ہے رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں جس نے راہ اللہ میں تلوار اٹھا لی اس نے اللہ سے بیعت کرلی اور حدیث میں ہے حجر اسود کے بارے میں حضور ﷺ نے فرمایا اسے اللہ تعالیٰ قیامت کے دن کھڑا کرے گا اس کی دو آنکھیں ہوں گی جن سے دیکھے گا اور زبان ہوگی جس سے بولے گا اور جس نے اسے حق کے ساتھ بوسہ دیا ہے اس کی گواہی دے گا اسے بوسہ دینے والا دراصل اللہ تعالیٰ سے بیعت کرنے والا ہے پھر آپ نے اسی آیت کی تلاوت کی پھر فرماتا ہے جو بیعت کے بعد عہد شکنی کرے اس کا وبال خود اسی پر ہوگا اللہ کا وہ کچھ نہ بگاڑے گا اور جو اپنی بیعت کو نبھا جائے وہ بڑا ثواب پائے گا یہاں جس بیعت کا ذکر ہے وہ بیعت الرضوان ہے جو ایک ببول کے درخت تلے حدیبیہ کے میدان میں ہوئی تھی اس دن بیعت کرنے والے صحابہ کی تعداد تیرہ سو چودہ سو یا پندرہ سو تھی ٹھیک یہ ہے کہ چودہ سو تھی اس واقعہ کی حدیثیں ملاحظہ ہوں۔ بخاری شریف میں ہے ہم اس دن چودہ سو تھے بخاری ومسلم کی حدیث میں ہے آپ نے اس پانی میں ہاتھ رکھا پس آپ کی انگلیوں کے درمیان سے اس پانی کی سوتیں ابلنے لگیں۔ یہ حدیث مختصر ہے اس حدیث سے جس میں ہے کہ صحابہ سخت پیاسے ہوئے پانی تھا نہیں حضور ﷺ نے انہیں اپنے ترکش میں سے ایک تیر نکال کردیا انہوں نے جا کر حدیبیہ کے کنویں میں اسے گاڑ دیا اب تو پانی جوش کے ساتھ ابلنے لگا یہاں تک کہ سب کو کافی ہوگیا حضرت جابر سے پوچھا گیا کہ اس روز تم کتنے تھے ؟ فرمایا چودہ سو لیکن اگر ایک لاکھ بھی ہوتے تو پانی اس قدر تھا کہ سب کو کافی ہوجاتا، بخاری کی روایت میں ہے کہ " پندرہ سو تھے " حضرت جابر سے ایک روایت میں پندرہ سو بھی مروی ہے، امام بیہقی فرماتے ہیں فی الواقع تھے تو پندرہ سو اور یہی حضرت جابر کا قول تھا پھر آپ کو کچھ وہم سا ہوگیا اور چودہ سو فرمانے لگے ابن عباس سے مروی ہے کہ سوا پندرہ سو تھے۔ لیکن آپ سے مشہور روایت چودہ سو کی ہے اکثر راویوں اور اکثر سیرت نویس بزرگوں کا یہی قول ہے کہ چودہ سو تھے ایک روایت میں ہے اصحاب شجرہ چودہ سو تھے اور اس دن آٹھواں حصہ مہاجرین کا مسلمان ہوا۔ سیرت محمد بن اسحاق میں ہے کہ حدیبیہ والے سال رسول مقبول ﷺ اپنے ساتھ سات سو صحابہ کو لے کر زیارت بیت اللہ کے ارادے سے مدینہ سے چلے قربانی کے ستر اونٹ بھی آپ کے ہمراہ تھے ہر دس اشخاص کی طرف سے ایک اونٹ ہاں حضرت جابر سے روایت ہے کہ آپ کے ساتھی اس دن چودہ سو تھے ابن اسحاق اسی طرح کہتے ہیں اور یہ ان کے اوہام میں شمار ہے، بخاری و مسلم جو محفوظ ہے وہ یہ کہ ایک ہزار کئی سو تھے جیسے ابھی آرہا ہے انشاء اللہ تعالیٰ۔ اس بیعت کا سبب سیرت محمد بن اسحاق میں ہے کہ پھر رسول اللہ ﷺ نے حضرت عمر کو بلوایا کہ آپ کو مکہ بھیج کر قریش کے سرداروں سے کہلوائیں کہ حضور ﷺ لڑائی بھڑائی کے ارادے سے نہیں آئے بلکہ آپ بیت اللہ شریف کے عمرے کے لئے آئے ہیں لیکن حضرت عمر نے فرمایا یارسول اللہ ﷺ میرے خیال سے تو اس کام کے لئے آپ حضرت عثمان کو بھیجیں کیونکہ مکہ میں میرے خاندان میں سے کوئی نہیں یعنی بنوعدی بن کعب کا قبیلہ نہیں جو میری حمایت کرے آپ جانتے ہیں کہ قریش سے میں نے کتنی کچھ اور کیا کچھ دشمنی کی ہے اور وہ مجھ سے وہ کس قدر خار کھائے ہوئے ہیں مجھے تو وہ زندہ ہی نہیں چھوڑیں گے چناچہ حضور ﷺ نے اس رائے کو پسند فرما کر جناب عثمان ذوالنورین کو ابو سفیان اور سرداران قریش کے پاس بھیجا آپ جا ہی رہے تھے کہ راستے میں یا مکہ میں داخل ہوتے ہی ابان بن سعید بن عاص مل گیا اور اس نے آپ کو اپنے آگے سواری پر بٹھا لیا اپنی امان میں انہیں اپنے ساتھ مکہ میں لے گیا آپ قریش کے بڑوں کے پاس گئے اور حضور ﷺ کا پیغام پہنچایا انہوں نے کہا کہ اگر آپ بیت اللہ شریف کا طواف کرنا چاہیں تو کرلیجئے آپ نے جواب دیا کہ یہ ناممکن ہے کہ رسول اللہ ﷺ سے پہلے میں طواف کرلوں، اب ان لوگوں نے جناب ذوالنورین کو روک لیا ادھر لشکر اسلام میں یہ خبر مشہور ہوگئی کہ حضرت عثمان کو شہید کر ڈالا گیا، اس وحشت اثر خبر نے مسلمانوں کو اور خود رسول ﷺ کو بڑا صدمہ پہنچایا اور آپ نے فرمایا کہ اب تو ہم بغیر فیصلہ کئے یہاں سے نہیں ہٹیں گے، چناچہ آپ ﷺ نے صحابہ کو بلوایا اور ان سے بیعت لی ایک درخت تلے یہ بیعت الرضوان ہوئی۔ لوگ کہتے ہیں یہ بیعت موت پر لی تھی یعنی لڑتے لڑتے مرجائیں گے لیکن حضرت جابر کا بیان ہے کہ موت پر بیعت نہیں لی تھی بلکہ اس اقرار پر کہ ہم لڑائی سے بھاگیں گے نہیں جتنے مسلمان صحابہ اس میدان میں تھے سب نے آپ سے بہ رضامندی بیعت کی سوائے جد بن قیس کے جو قبیلہ بنو سلمہ کا ایک شخص تھا یہ اپنی اونٹنی کی آڑ میں چھپ گیا پھر حضور ﷺ اور صحابہ کو معلوم ہوگیا کہ حضرت عثمان کی شہادت کی افواہ غلط تھی اس کے بعد قریش نے سہیل بن عمرو، حویطب بن عبدالعزیٰ اور مکرز بن حفص کو آپ کے پاس بھیجا یہ لوگ ابھی یہیں تھے کہ بعض مسلمانوں اور بعض مشرکوں میں کچھ تیز کلامی شروع ہوگئی نوبت یہاں تک پہنچی کہ سنگ باری اور تیر باری بھی ہوئی اور دونوں طرف کے لوگ آمنے سامنے ہوگئے ادھر ان لوگوں نے حضرت عثمان وغیرہ کو روک لیا ادھر یہ لوگ رک گئے اور رسول اللہ ﷺ کے منادی نے ندا کردی کہ روح القدس اللہ کے رسول ﷺ کے پاس آئے اور بیعت کا حکم دے گئے آؤ اللہ کا نام لے کر بیعت کر جاؤ اب کیا تھا مسلمان بےتابانہ دوڑے ہوئے حاضر ہوئے آپ اس وقت درخت تلے تھے سب نے بیعت کی اس بات پر کہ وہ ہرگز ہرگز کسی صورت میں میدان سے منہ موڑنے کا نام نہ لیں گے اس سے مشرکین کانپ اٹھے اور جتنے مسلمان ان کے پاس تھے سب کو چھوڑ دیا اور صلح کی درخواست کرنے لگے۔ بیہقی میں ہے کہ بیعت کے وقت اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا الہٰی عثمان تیرے اور تیرے رسول ﷺ کے کام کو گئے ہوئے ہیں پس آپ نے خود اپنا ایک ہاتھ اپنے دوسرے ہاتھ پر رکھا گویا حضرت عثمان کی طرف سے بیعت کی۔ پس حضرت عثمان کے لئے رسول اللہ ﷺ کا ہاتھ ان کے اپنے ہاتھ سے بہت افضل تھا۔ اس بیعت میں سب سے پہل کرنے والے حضرت ابو سنان اسدی ؓ تھے۔ انہوں نے سب سے آگے بڑھ کر فرمایا حضور ﷺ ہاتھ پھیلائیے تاکہ میں بیعت کرلوں آپ نے فرمایا کس بات پر بیعت کرتے ہو ؟ جواب دیا جو آپ کے دل میں ہو اس پر آپ کے والد کا نام وہب تھا صحیح بخاری میں شریف میں حضرت نافع سے مروی ہے کہ لوگ کہتے ہیں حضرت عمر کے لڑکے حضرت عبداللہ نے اپنے والد سے پہلے اسلام قبول کیا دراصل واقعہ یوں نہیں۔ بات یہ ہے کہ حدیبیہ والے سال حضرت عمر نے اپنے صاحبزادے حضرت عبداللہ کو ایک انصاری کے پاس بھیجا کہ جا کر اپنے گھوڑے لے آؤ اس وقت رسول اللہ ﷺ لوگوں سے بیعت لے رہے تھے حضرت عمر کو اس کا علم نہ تھا یہ اپنے طور پوشیدگی سے لڑائی کی تیاریاں کر رہے تھے۔ حضرت عبداللہ نے دیکھا کہ حضور ﷺ کے ہاتھ پر بیعت ہو رہی ہے تو یہ بیعت سے مشرف ہوئے پھر گھوڑا لینے گئے اور گھوڑا لا کر حضرت عمر کے پاس آئے اور کہا حضور ﷺ بیعت لے رہے ہیں اب جناب فاروق آئے اور حضور ﷺ کے ہاتھ پر بیعت کی اس بنا پر لوگ کہتے ہیں کہ بیٹے کا اسلام باپ سے پہلے کا ہے۔ بخاری کی دوسری روایت میں ہے لوگ الگ الگ درختوں تلے آرام کر رہے تھے کہ حضرت عمر نے دیکھا کہ ہر ایک کی نگاہیں حضور ﷺ پر ہیں اور لوگ آپ کو گھیرے ہوئے ہیں حضرت عبداللہ سے فرمایا جاؤ ذرا دیکھو تو کیا ہو رہا ہے ؟ یہ آئے دیکھا کہ بیعت ہو رہی ہے تو بیعت کرلی پھر جا کر حضرت عمر کو خبر کی چناچہ آپ بھی فوراً آئے اور بیعت سے مشرف ہوئے۔ حضرت جابر کا بیان ہے کہ جب ہم نے بیعت کی ہے اس وقت حضرت عمر فاروق آپ کا ہاتھ تھامے ہوئے تھے اور آپ ایک ببول کے درخت تلے تھے۔ حضرت معقل بن یسار کا بیان ہے کہ اس موقعہ پر درخت کی ایک جھکی ہوئی شاخ کو آپ کے سر سے اوپر کو اٹھا کر میں تھامے ہوئے تھا ہم نے آپ سے موت پر بیعت نہیں کی بلکہ نہ بھاگنے پر۔ حضرت سلمہ بن اکوع فرماتے ہیں ہم نے مرنے پر بیعت کی تھی آپ فرماتے ہیں ایک مرتبہ بیعت کر کے میں ہٹ کر ایک طرف کو کھڑا ہوگیا تو آپ نے مجھ سے فرمایا سلمہ تم بیعت نہیں کرتے ؟ میں نے کہا حضور ﷺ میں نے تو بیعت کرلی آپ نے فرمایا خیر آؤ بیعت کرو چناچہ میں نے قریب جا کر پھر بیعت کی۔ حدیبیہ کا وہ کنواں جس کا ذکر اوپر گذرا صرف اتنے پانی کا تھا کہ پچاس بکریاں بھی آسودہ نہ ہو سکیں آپ فرماتے ہیں کہ دوبارہ بیعت کرلینے کے بعد آپ نے جو دیکھا تو معلوم ہوا کہ میں بےسپر ہوں تو آپ نے مجھے ایک ڈھال عنایت فرمائی پھر لوگوں سے بیعت لینی شروع کردی پھر آخری مرتبہ میری طرف دیکھ کر فرمایا سلمہ تم بیعت نہیں کرتے ؟ میں نے کہا یا رسول اللہ ﷺ پہلی مرتبہ جن لوگوں نے بیعت کی میں نے ان کے ساتھ ہی بیعت کی تھی پھر بیچ میں دوبارہ بیعت کرچکا ہوں آپ نے فرمایا اچھا پھر سہی چناچہ اس آخری جماعت کے ساتھ بھی میں نے بیعت کی آپ نے پھر میری طرف دیکھ کر فرمایا سلمہ تمہیں ہم نے جو ڈھال دی تھی وہ کیا ہوئی ؟ میں نے کہا یا رسول اللہ ﷺ حضرت عامر سے میری ملاقات ہوئی تو میں نے دیکھا کہ ان کے پاس دشمن کا وار روکنے والی کوئی چیز نہیں میں نے وہ ڈھال انہیں دے دی تو آپ ہنسے اور فرمایا تم بھی اس شخص کی طرح ہو جس نے اللہ سے دعا کی کہ اے الہٰی میرے پاس کسی ایسے کو بھیج دے جو مجھے میری جان سے زیادہ عزیز ہو۔ پھر اہل مکہ سے صلح کی تحریک کی آمدورفت ہوئی اور صلح ہوگئی میں حضرت طلحہ بن عبید اللہ کا خادم تھا ان کے گھوڑے کی اور ان کی خدمت کیا کرتا تھا وہ مجھے کھانے کو دے دیتے تھے میں تو اپنا گھر بار بال بچے مال دولت سب راہ اللہ میں چھوڑ کر ہجرت کر کے چلا آیا تھا، جب صلح ہوچکی ادھر کے لوگ ادھر ادھر کے ادھر آنے لگے تو میں ایک درخت تلے جا کر کانٹے وغیرہ ہٹا کر اس کی جڑ سے لگ کر سو گیا اچانک مشرکین مکہ میں سے چار شخص وہیں آئے اور حضور ﷺ کی شان میں کچھ گستاخانہ کلمات سے آپس میں باتیں کرنے لگے مجھے بڑا برا معلوم ہوا میں وہاں سے اٹھ کر دوسرے درخت تلے چلا گیا، اب لوگوں نے اپنے ہتھیار اتارے درخت پر لٹکا کر وہاں لیٹ گئے تھوڑی دیر گذری ہوگی جو میں نے سنا کہ وادی کے نیچے کے حصہ سے کوئی منادی ندا کر رہا ہے کہ اے مہاجر بھائیو حضرت دہیم قتل کر دئیے گئے میں نے جھٹ سے تلوار تان لی اور اسی درخت تلے گیا جہاں چاروں سوئے ہوئے تھے جاتے ہی پہلے تو ان کے ہتھیار قبضے میں کئے اور اپنے ایک ہاتھ میں انہیں دبا کر دوسرے ہاتھ سے تلوار تول کر ان سے کہا سنو اس اللہ کی قسم جس نے حضرت محمد ﷺ کو عزت دی ہے تم میں سے جس نے بھی سر اٹھا یا میں اس کا سر قلم کر دونگا جب وہ اسے مان چکے میں نے کہا اٹھو اور میرے آگے آگے چلو چناچہ ان چاروں کو لے کر میں رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا ادھر میرے چچا حضرت عامر بھی مکرز نامی عبلات کے ایک مشرک کو گرفتار کر کے لائے اور بھی اسی طرح کے ستر مشرکین حضور ﷺ کی خدمت میں حاضر کئے گئے تھے آپ نے ان کی طرف دیکھا اور فرمایا انہیں چھوڑ دو برائی کی ابتداء بھی انہی کے سر رہے اور پھر اس کی تکرار کے ذمہ دار بھی یہی رہیں چناچہ ان سب کو رہا کردیا گیا اسی کا بیان آیت (وَهُوَ الَّذِيْ كَفَّ اَيْدِيَهُمْ عَنْكُمْ وَاَيْدِيَكُمْ عَنْهُمْ بِبَطْنِ مَكَّةَ مِنْۢ بَعْدِ اَنْ اَظْفَرَكُمْ عَلَيْهِمْ ۭ وَكَان اللّٰهُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ بَصِيْرًا 24) 48۔ الفتح :24) ، میں ہے۔ حضرت سعید بن مسیب کے والد بھی اس موقعہ پر حضور ﷺ کے ساتھ تھے آپ کا بیان ہے کہ اگلے سال جب ہم حج کو گئے تو اس درخت کی جگہ ہم پر پوشیدہ رہی ہم معلوم نہ کرسکے کہ کس جگہ حضور ﷺ کے ہاتھ پر ہم نے بیعت کی تھی اب اگر تم پر یہ پوشیدگی کھل گئی ہو تو تم جانو ایک روایت میں حضرت جابر سے مروی ہے کہ اس وقت حضور ﷺ نے فرمایا آج زمین پر جتنے ہیں ان سب پر افضل تم لوگ ہو۔ آپ فرماتے ہیں اگر میری آنکھیں ہوتیں تو میں تمہیں اس درخت کی جگہ دکھا دیتا، حضرت سفیان فرماتے ہیں اس جگہ کی تعین میں بڑا اختلاف ہے حضور ﷺ کا فرمان ہے کہ جن لوگوں نے اس بیعت میں شرکت کی ہے ان میں سے کوئی جہنم میں نہیں جائے گا (بخاری ومسلم) اور روایت میں ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا جن لوگوں نے اس درخت تلے میرے ہاتھ پر بیعت کی ہے سب جنت میں جائیں گے مگر سرخ اونٹ والا ہم جلدی دوڑے دیکھا تو ایک شخص اپنے کھوئے ہوئے اونٹ کی تلاش میں تھا ہم نے کہا چل بیعت کر اس نے جواب دیا کہ بیعت سے زیادہ نفع تو اس میں ہے کہ میں اپنا گم شدہ اونٹ پا لوں۔ مسند احمد میں ہے آپ نے فرمایا کون ہے جو ثنیۃ المرار پر چڑھ جائے اس سے وہ دور ہوجائے گا جو بنی اسرائیل سے دور ہوا پس سب سے پہلے قبیلہ خزرج کے ایک صحابی اس پر چڑھ گئے پھر تو اور لوگ بھی پہنچ گئے پھر آپ نے فرمایا تم سب بخشے جاؤ گے مگر سرخ اونٹ والا ہم اس کے پاس آئے اور اس سے کہا تیرے لئے رسول اللہ ﷺ سے استغفار طلب کریں تو اس نے جواب دیا کہ اللہ کی قسم مجھے میرا اونٹ مل جائے تو میں زیادہ خوش ہوں گا بہ نسبت اس کے کہ تمہارے صاحب میرے لئے استغفار کریں یہ شخص اپنا گم شدہ اونٹ ڈھونڈ رہا تھا حضرت حفصہ نے جب حضور ﷺ کی زبانی یہ سنا کہ اس بیعت والے دوزخ میں داخل نہیں ہوں گے تو کہا ہاں ہوں گے آپ نے انہیں روک دیا تو مائی صاحبہ نے آیت (وَاِنْ مِّنْكُمْ اِلَّا وَارِدُهَا ۚ كَانَ عَلٰي رَبِّكَ حَتْمًا مَّقْضِيًّا 71ۚ) 19۔ مریم :71) پڑھی یعنی تم میں سے ہر شخص کو اس پر وارد ہونا ہے، حضور ﷺ نے فرمایا اس کے بعد ہی فرمان باری ہے آیت (ثُمَّ نُـنَجِّي الَّذِيْنَ اتَّقَوْا وَّنَذَرُ الظّٰلِمِيْنَ فِيْهَا جِثِيًّا 72) 19۔ مریم :72) یعنی پھر ہم تقویٰ والوں کو نجات دیں گے اور ظالموں کو گھٹنوں کے بل اس میں گرا دیں گے (مسلم) حضرت حاطب بن ابو بلتعہ کے غلام حضرت حاطب کی شکایت لے کر حضور ﷺ کے پاس آئے اور کہنے لگے یا رسول اللہ ﷺ حاطب ضرور جہنم میں جائیں گے آپ نے فرمایا تو جھوٹا ہے وہ جہنمی نہیں وہ بدر میں اور حدیبیہ میں موجود رہا ان بزرگوں کی ثنا بیان ہو رہی ہے کہ یہ اللہ سے بیعت کر رہے ہیں ان کے ہاتھوں پر اللہ کا ہاتھ ہے اس بیعت کو توڑنے والا اپنا ہی نقصان کرنے والا ہے اور اسے پورا کرنے والا بڑے اجر کا مستحق ہے جیسے فرمایا آیت (لَقَدْ رَضِيَ اللّٰهُ عَنِ الْمُؤْمِنِيْنَ اِذْ يُبَايِعُوْنَكَ تَحْتَ الشَّجَرَةِ فَعَلِمَ مَا فِيْ قُلُوْبِهِمْ فَاَنْزَلَ السَّكِيْنَةَ عَلَيْهِمْ وَاَثَابَهُمْ فَتْحًا قَرِيْبًا 18ۙ) 48۔ الفتح :18) ، یعنی اللہ تعالیٰ ایمان والوں سے راضی ہوگیا جبکہ انہوں نے درخت تلے تجھ سے بیعت کی ان کے دلی ارادوں کو اس نے جان لیا پھر ان پر دلجمعی نازل فرمائی اور قریب کی فتح سے انہیں سرفراز فرمایا۔
Top