Tafheem-ul-Quran - Al-Fath : 10
اِنَّ الَّذِیْنَ یُبَایِعُوْنَكَ اِنَّمَا یُبَایِعُوْنَ اللّٰهَ١ؕ یَدُ اللّٰهِ فَوْقَ اَیْدِیْهِمْ١ۚ فَمَنْ نَّكَثَ فَاِنَّمَا یَنْكُثُ عَلٰى نَفْسِهٖ١ۚ وَ مَنْ اَوْفٰى بِمَا عٰهَدَ عَلَیْهُ اللّٰهَ فَسَیُؤْتِیْهِ اَجْرًا عَظِیْمًا۠   ۧ
اِنَّ الَّذِيْنَ : بیشک جو لوگ يُبَايِعُوْنَكَ : آپ سے بیعت کررہے ہیں اِنَّمَا : اس کے سوا نہیں کہ يُبَايِعُوْنَ اللّٰهَ ۭ : وہ اللہ سے بیعت کررہے ہیں يَدُ اللّٰهِ : اللہ کا ہاتھ فَوْقَ : اوپر اَيْدِيْهِمْ ۚ : ان کے ہاتھوں کے فَمَنْ : پھر جس نے نَّكَثَ : توڑ دیا عہد فَاِنَّمَا : تو اس کے سوا نہیں يَنْكُثُ : اس نے توڑدیا عَلٰي نَفْسِهٖ ۚ : اپنی ذات پر وَمَنْ اَوْفٰى : اور جس نے پورا کیا بِمَا عٰهَدَ : جو اس نے عہد کیا عَلَيْهُ اللّٰهَ : اللہ پر، سے فَسَيُؤْتِيْهِ : تو وہ عنقریب اسے دیگا اَجْرًا عَظِيْمًا : اجر عظیم
اے نبیؐ ، جو لوگ تم سے بیعت کر رہے تھے17  وہ دراصل اللہ سے بیعت کر رہے تھے۔ ان کے ہاتھ پر اللہ کا ہاتھ تھا۔18 اب جو اس عہد کو توڑے گا اس کی عہد  شکنی کا وبال اس کی اپنی ہی ذات پر ہو گا ، اور جو اس عہد کو وفا کرے گا جو اس نے اللہ سے کیا ہے،19 اللہ عنقریب اس کوبڑا  اجر عطا فرمائے گا
سورة الْفَتْح 17 اشارہ ہے اس بیعت کی طرف جو مکہ معظمہ میں حضرت عثمان ؓ کے شہید ہوجانے کی خبر سن کر رسول اللہ ﷺ نے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم سے حدیبیہ کے مقام پر لی تھی۔ بعض روایات کی رو سے یہ بیعت علی الموت تھی، اور بعض روایات کے مطابق بیعت اس بات پر لی گئی تھی کہ ہم میدان جنگ سے پیٹھ نہ پھیریں گے۔ پہلی بات حضرت سلمہ بن اکوع سے مروی ہے، اور دوسرے حضرات ابن عمر، جابر بن عبداللہ اور معقل بن یسار ؓ سے۔ مآل دونوں کا ایک ہی ہے۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم نے رسول پاک ﷺ کے ہاتھ پر بیعت اس بات کی کی تھی کہ حضرت عثمان غنی ؓ کی شہادت کا معاملہ اگر صحیح ثابت ہوا تو وہ سب یہیں اور اسی وقت قریش سے نمٹ لیں گے خواہ نتیجہ میں وہ سب کٹ ہی کیوں نہ مریں۔ اس موقع پر چونکہ یہ امر ابھی یقینی نہیں تھا کہ حضرت عثمان غنی ؓ واقعی شہید ہوچکے ہیں یا زندہ ہیں، اس لیے رسول اللہ ﷺ نے ان کی طرف سے خود اپنا ایک ہاتھ دوسرے ہاتھ پر رکھ کر بیعت میں شریک فرمایا۔ حضور ﷺ کا ان کی طرف سے خود بیعت کرنا لازما یہ معنی رکھتا ہے کہ حضور ﷺ کو ان پر پوری طرح یہ اعتماد تھا کہ اگر وہ موجود ہوتے تو یقینا بیعت کرتے۔ سورة الْفَتْح 18 یعنی جس ہاتھ پر لوگ اس وقت بیعت کر رہے تھے وہ شخص رسول کا ہاتھ نہیں بلکہ اللہ کے نمائندے کا ہاتھ تھا اور یہ بیعت رسول کے واسطہ سے درحقیقت اللہ تعالیٰ کے ساتھ ہو رہی تھی۔ سورة الْفَتْح 19 اس مقام پر ایک لطیف نکتہ نگاہ میں رہنا چاہیے۔ عربی زبان کے عام قاعدے کی رو سے یہاں عٰھَدَ عَلَیْہِ اللہ پڑھا جانا چاہیے تھا، لیکن اس عام قاعدے سے ہٹ کر اس جگہ عَلَیْہُ اللہ پڑھا جاتا ہے۔ علامہ آلوسی نے اس غیر معمولی اعراب کے دو وجوہ بیان کیے ہیں۔ ایک یہ کہ اس خاص موقع پر اس ذات کی بزرگی اور جلالت شان کا اظہار مقصود ہے جو کہ ساتھ یہ عہد استوار کیا جا رہا تھا اس لیے یہاں عَلَیْہِ کے بجائے عَلَیْہُ ہی زیادہ مناسب ہے۔ دوسرے یہ کہ عَلَیْہِ میں " ہ " دراصل ھُوَ کی قائم مقام ہے اور اس کا اصلی اعراب پیش ہی تھا نہ کہ زیر۔ لہٰذا یہاں اس کے اصلی اعراب کو باقی رکھنا وفائے عہد کے مضمون سے زیادہ مناسبت رکھتا ہے۔
Top