Mutaliya-e-Quran - Al-Fath : 10
اِنَّ الَّذِیْنَ یُبَایِعُوْنَكَ اِنَّمَا یُبَایِعُوْنَ اللّٰهَ١ؕ یَدُ اللّٰهِ فَوْقَ اَیْدِیْهِمْ١ۚ فَمَنْ نَّكَثَ فَاِنَّمَا یَنْكُثُ عَلٰى نَفْسِهٖ١ۚ وَ مَنْ اَوْفٰى بِمَا عٰهَدَ عَلَیْهُ اللّٰهَ فَسَیُؤْتِیْهِ اَجْرًا عَظِیْمًا۠   ۧ
اِنَّ الَّذِيْنَ : بیشک جو لوگ يُبَايِعُوْنَكَ : آپ سے بیعت کررہے ہیں اِنَّمَا : اس کے سوا نہیں کہ يُبَايِعُوْنَ اللّٰهَ ۭ : وہ اللہ سے بیعت کررہے ہیں يَدُ اللّٰهِ : اللہ کا ہاتھ فَوْقَ : اوپر اَيْدِيْهِمْ ۚ : ان کے ہاتھوں کے فَمَنْ : پھر جس نے نَّكَثَ : توڑ دیا عہد فَاِنَّمَا : تو اس کے سوا نہیں يَنْكُثُ : اس نے توڑدیا عَلٰي نَفْسِهٖ ۚ : اپنی ذات پر وَمَنْ اَوْفٰى : اور جس نے پورا کیا بِمَا عٰهَدَ : جو اس نے عہد کیا عَلَيْهُ اللّٰهَ : اللہ پر، سے فَسَيُؤْتِيْهِ : تو وہ عنقریب اسے دیگا اَجْرًا عَظِيْمًا : اجر عظیم
اے نبیؐ، جو لوگ تم سے بیعت کر رہے تھے وہ دراصل اللہ سے بیعت کر رہے تھے ان کے ہاتھ پر اللہ کا ہاتھ تھا اب جو اس عہد کو توڑے گا اُس کی عہد شکنی کا وبال اس کی اپنی ہی ذات پر ہوگا، اور جو اُس عہد کو وفا کرے گا جو اس نے اللہ سے کیا ہے، اللہ عنقریب اس کو بڑا اجر عطا فرمائے گا
اِنَّ الَّذِيْنَ يُبَايِعُوْنَكَ [ بیشک جو لوگ بیعت کرتے ہیں آپ سے ] اِنَّمَا [ (تو ) کچھ نہیں سوائے اس کے کہ ] يُبَايِعُوْنَ اللّٰهَ ۭ [ وہ لوگ بیعت کرتے ہیں اللہ سے ] يَدُ اللّٰهِ [ اللہ کا ہاتھ ] فَوْقَ اَيْدِيْهِمْ ۚ [ ان کے ہاتھوں کے اوپر (ہوتا ) ہے ] فَمَنْ نَّكَثَ [ پھر جس نے عہد شکنی کی ] فَاِنَّمَا يَنْكُثُ [ تو وہ تو بس عہد شکنی کرتا ہے ] عَلٰي نَفْسِهٖ ۚ [ اپنے آپ کے خلاف ] وَمَنْ اَوْفٰى [ اور جس نے پورا کیا ] بِمَا عٰهَدَ عَلَيْهُ [ اس کو اس نے معاہدہ کیا جس پر ] اللّٰهَ [ اللہ سے ] فَسَيُؤْتِيْهِ [ تو وہ (اللہ ) دے گا اس کو ] ااَجْرًا عَظِيْمًا [ ایک اجر عظیم ] ترکیب : (آیت ۔ 10) یہاں علیہ اللہ آیا ہے جبکہ عربی قاعدے کے مطابق اسے علیہ اللہ ہونا چاہیے تھا ، یہ قرآن مجید کی خصوصیت ہے کہ اس مقام پر اس کو علیہ کے بجائے علیہ پڑھا اور لکھا جاتا ہے ۔ متعدد مقامات پر اس نوعیت کی خصوصیات اس بات کا ثبوت ہیں کہ ہمارے بزرگوں کو قرآن مجید جیسا ملا تھا ۔ انہوں نے اسے بالکل اسی طرح ہم تک پہنچایا ہے ۔ اور قرآن مجید میں زبر زیر پیش تک کی کوئی تبدیلی نہیں ہوئی ، نوٹ۔ 1 آیت ۔ 10 ۔ کو عام طور پر بیعت رضوان سے متعلق سمجھا گیا ہے ۔ حالانکہ اس کو بیعت رضوان سے کوئی خاص تعلق نہیں ہے۔ بیعت رضوان کا ذکر آگے آرہا ہے ۔ یہاں سمع و طاعت کی اس عام بیعت کا ذکر ہے ہر ایمان لانے والا رسول اللہ ﷺ کے ہاتھ پر کرتا تھا ۔ یہاں اس کی عظمت اور اس کی ذمہ داریاں منافقین کو غیرت دلانے کے لیے بیان کی گئی ہیں کہ وہ رسول اللہ ﷺ کے ہاتھ پر بیعت تو کربیٹھے لیکن جب اس کے مطالبات پورے کرنے کا وقت آیا تو منہ چھپاتے پھرتے ہیں ۔ ان پر یہ حقیقت واضح فرمائی گئی ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے ہاتھ پر بیعت درحقیقت اللہ تعالیٰ سے معاہدہ ہے۔ اگر کوئی اس کی ذمہ داریوں سے گریز کرتا ہے تو وہ اللہ سے کیے ہوئے معاہدے کو توڑتا ہے جس کا انجام دنیا اور آخرت میں رسوائی ہے۔ (تدبر قرآن) نوٹ۔ 2: اسی آیت ۔ 10 میں علیہ اللہ کی ضمیر پر جو ضمہ (پیش) ہے اس کی بنا پر بعض مستشرقین نے قرآن کی نحو (گرامر ) پر اعتراض کیا ہے ان بیچاروں کو پتہ نہیں ہے کہ گرامر کی کتابیں قرآن کے اسلوب واعراب کو پرکھنے کے لیے کسوٹی نہیں ہیں بلکہ قرآن گرامر کی کتابوں کو جانچنے کی لیے کسوٹی ہے کیونکہ قرآن قریش کی ٹکسالی زبان کا سب سے اعلی نمونہ ہے اور ہر پہلو سے محفوظ ہے ۔ اس وجہ سے اس کی اگر کوئی گرامر کے خلاف نظر آئے گی تو اسے قرآن کے نقص پر نہیں بلکہ گرامر مرتب کرنے والوں کے نقص پر محمول کریں گے۔ فصیح عربی میں آہنگ وصوت کے تقاضوں کے تحت بھی الفاظ، حروف اور ضمیروں پر ایسے ایسے تصرفات ہوئے ہیں کے اگر کسی شخص کا علم صرف گرامر کی کتابوں ہی تک محدود ہو تو وہ ان کا احاطہ نہیں کرسکتا ۔ قرآن میں متعدد مثالیں ایسی موجود ہیں کہ ضمیر لفظ کے اندر بالکل مدغم ہو کے رہ گئی ہے ۔ اس کی وجہ آہنگ وصوت کے تقاضے کے سوا اور کوئی نہیں ہے ۔ مثلا الاعراف کی آیت ۔ 111 ۔ اَرْجِهْ وَاَخَاهُ اسی طرح سورة نور کی آیت ۔ 52 ۔ يَخْشَ اللّٰهَ وَيَتَّقْهِ قرآن کی آخری سورتوں میں بہت سی مثالیں ملیں گے کی صرف آہنگ وصوت کے تقاضے سے حروف ، الفاظ اور ضمیروں کی ہیت میں ایسی تبدیلیاں ہوگئی ہیں جن کی گرامر والے کوئی توجیہ نہیں کرپاتے۔ (تدبر قرآن ) اس نوٹ کو سمجھانے یا یوں کہہ لیں کہ ہضم کرانے کی غرض سے ہم آسان عربی گرامر کے پہلے باب ” تمہید “ سے ایک اقتباس نقل کررہے ہیں ۔ زبان پہلے وجود میں آجاتی ہے پھر بعد میں ضرورت پڑنے پر اس کے قواعد (گرامر) مرتب کیے جاتے ہیں ۔ ایسا کبھی نہیں ہوا کہ پہلے قواعد مرتب کرکے کوئی زبان وجود میں لائی گئی ہو۔ یہی وجہ ہے کہ آج دنیا میں ہزاروں زبانیں بولی جاتی ہیں ، لیکن قواعد معدودے چند کے ہی مرب کئے گئے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ کسی زبان کے قواعد اس زبان کے تمام الفاظ پر حاوی نہیں ہوتے بلکہ کچھ نہ کچھ الفاظ ضرور مستثنی ہوتے ہیں ۔ یہ مسئلہ ہر زبان کے ساتھ ہے۔ اس حوالہ سے اس تاریخی حقیقت کو ذہن نشین کرلیں کہ جب غیر عرب لوگ جوق درجوق اسلام میں داخل ہونے لگے تو قرآن وحدیث کو سمجھنے کے لیے نیز اس وقت کی سرکاری زبان ہونے کی وجہ سے ، ان لوگوں کو ضرورت پیش آئی کہ درسی طریقے سے یعنی قواعد (گرامر) کی مدد سے وہ عربی سیکھیں ۔ چناچہ اس وقت عربی گرامر مرتب کی گئی ہے ۔ اس سے پہلے اور خاص طور سے نزول قرآن کے وقت عربی گرامر کا کوئی وجود نہیں تھا ، البتہ قریش کی ٹکسالی زبان سے قریش کا بچہ بچہ واقف تھا ، اگر قرآن میں کوئی بات اس زبان کے اسلوب اور اس کے صوت و آہنگ کے خلاف ہوتی تو وہ لوگ لازما اس کو اچھالتے لیکن اس پہلو سے وہ قرآن کے کسی ایک مقام پر بھی انگلی نہ رکھ سکے، اب مغربی یونیورسٹیوں سے Ph.D کرنے والے ماہرین لسانیات میں سے کوئی اگر قرآن کے کسی مقام کو عربی گرامر کے خلاف قرار دے کر اسے قرآن کا نقص قرار دیتا ہے تو اس کی یہ بات یا تو بدنیتی پر مبنی ہے یا جہالت پر ۔ اس لیے مولانا اصلاحی نے کہا ہے کہ گرامر کی کتابیں قرآن کو پرکھنے کی کسوٹی نہیں ہیں بلکہ قرآن گرامر کی کتابوں کو چانچنے کے لیے کسوٹی ہے۔
Top