Tafseer-e-Madani - Al-Fath : 10
اِنَّ الَّذِیْنَ یُبَایِعُوْنَكَ اِنَّمَا یُبَایِعُوْنَ اللّٰهَ١ؕ یَدُ اللّٰهِ فَوْقَ اَیْدِیْهِمْ١ۚ فَمَنْ نَّكَثَ فَاِنَّمَا یَنْكُثُ عَلٰى نَفْسِهٖ١ۚ وَ مَنْ اَوْفٰى بِمَا عٰهَدَ عَلَیْهُ اللّٰهَ فَسَیُؤْتِیْهِ اَجْرًا عَظِیْمًا۠   ۧ
اِنَّ الَّذِيْنَ : بیشک جو لوگ يُبَايِعُوْنَكَ : آپ سے بیعت کررہے ہیں اِنَّمَا : اس کے سوا نہیں کہ يُبَايِعُوْنَ اللّٰهَ ۭ : وہ اللہ سے بیعت کررہے ہیں يَدُ اللّٰهِ : اللہ کا ہاتھ فَوْقَ : اوپر اَيْدِيْهِمْ ۚ : ان کے ہاتھوں کے فَمَنْ : پھر جس نے نَّكَثَ : توڑ دیا عہد فَاِنَّمَا : تو اس کے سوا نہیں يَنْكُثُ : اس نے توڑدیا عَلٰي نَفْسِهٖ ۚ : اپنی ذات پر وَمَنْ اَوْفٰى : اور جس نے پورا کیا بِمَا عٰهَدَ : جو اس نے عہد کیا عَلَيْهُ اللّٰهَ : اللہ پر، سے فَسَيُؤْتِيْهِ : تو وہ عنقریب اسے دیگا اَجْرًا عَظِيْمًا : اجر عظیم
بیشک جو لوگ بیعت کر رہے تھے آپ کے ہاتھ پر (اے پیغمبر ! ) تو وہ درحقیقت بیعت کر رہے تھے اللہ سے اللہ کا ہاتھ ان کے ہاتھوں کے اوپر تھا سو جس نے (اس کے بعد) توڑ لیا اپنے عہد کو تو اس کا وبال خود اس کی اپنی ہی جان پر ہوگا اور جو کوئی پورا کرے گا اپنے اس عہد کو جو اس نے اللہ سے باندھا ہے تو عنقریب ہی اللہ اس کو نوازے گا ایک بہت بڑے اجر سے
[ 20] رسول اللہ ﷺ کے دست مبارک پر بیعت کی عظمت شان کا ذکر وبیان : سو اس سے اللہ کے رسول کے ہاتھ پر بیعت کی عظمت شان بھی واضح ہوجاتی ہے۔ اور اس سے ملنے والے عظیم الشان درسہائے عبرت و بصیرت بھی سامنے آجاتے ہیں سو اس ارشاد سے رسول کے ہاتھ پر بیعت کرنے کی عظمت شان اس طرح واضح ہوجاتی ہے کہ رسول کے ہاتھ پر بیعت کرنا دراصل اللہ سے بیعت کرنا ہے۔ کیونکہ آپ ﷺ اللہ کے نمائندے اور اس کے رسول ہیں، [ صفوۃ وغیرہ ] ۔ اسی لئے رسول کی اطاعت اللہ کی اطاعت ہوتی ہے۔ جیسا کہ دوسرے مقام پر صاف اور صریح طور پر ارشاد فرمایا گیا { من یطع الرسول فقد اطاع اللّٰہ ج ومن تولی فما ارسلنک علیہم حفیظا } [ النسائ : 80 پ 5] یعنی " جس نے رسول کی فرمانبرداری کی تو اس نے یقینا اللہ کی فرمانبرداری کی " یہ بیعت آنحضرت ﷺ نے اس وقت کی تھی جب یہ افواہ پھیل گئی تھی کہ حضرت عثمان بن عفان ؓ کو قریش نے شہید کردیا ہے تو آپ ﷺ نے صحابہ کرام سے خون عثمان کا بدلہ لینے کیلئے بیعت لی کہ ہم لوگ اسکا بدلہ لینے کیلئے آخر دم تک لڑیں گے چناچہ صحیحین وغیرہ میں حضرت سلمہ بن اکوع ؓ سے مروی ہے کہ ہم نے آنحضرت ﷺ کے ہاتھ پر یہ موت کی بیعت کی " بایعنا رسول اللّٰہ ﷺ علی الموت " رضوان اللہ علیہم اجمعین۔ مگر بعد میں معلوم ہوا کہ خبر چھوٹی تھی۔ حضرت عثمان غنی ؓ شہید نہیں ہوئے بلکہ اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم سے زندہ سلامت موجود ہیں۔ پس حضرت عثمان غنی ؓ کی شہادت کی اس افواہ اور آنحضرت ﷺ کے بیعت لینے کے اس قصے میں بھی بڑی حکمتیں اور عظیم الشان درس ہائے عبرت و بصیرت پوشیدہ ہیں۔ سو اس سے اہل بدعت کے علم غیب کلی، حاضر و ناظر، اور اختیار کلی جیسے شرکیہ عقائد کی جڑ کٹ جاتی ہے۔ کیونکہ پیغمبر ﷺ اگر عالم غیب ہوتے اور ہر جگہ موجود ہوتے تو حضرت عثمان غنی ؓ تو حدیبیہ سے اس قدر مضطرب اور پریشان نہ ہوتے۔ اور خون عثمان کا بدلہ لینے کے لئے اس طرح بیعت نہی لیتے کہ حضرت عثمان ؓ تو حدیبیہ سے چند ہی میل کے فاصلے پر مکہ مکرمہ میں بخیر و عافیت تشریف فرما تھے۔ اور جب نبیوں کے امام حضرت محمد رسول اللہ ﷺ بھی عالم غیب نہیں تو پھر اور کون ہوسکتا ہے جو کہ عالم غیب ہوسکے ؟ لہٰذا اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کو عالم غیب، ہر جگہ حاضر و ناظر اور مختار کل ماننا عقل کے بھی خلاف ہے اور نقل کے بھی۔ دوسری طرف بیعت رضوان کے اس واقعہ سے حضرات صحابہ کرام رضٰ اللہ تعالیٰ عنہم کے بےمثال جذبہء اطاعت و اتباع کا ایک عظیم الشان و بےمثال نمونہ اور مظہر بھی سامنے آتا ہے کہ بالکل نہتے اور احرام کی حالت میں ہونے اور اپنے گھروں سے سینکڑوں میل دور ہونے کے باوجود حضور ﷺ کے حکم و ارشاد پر بےچوں و چرا پورے صدق و صفا اور جذبہ فدا کاری کے ساتھ خوشی بخوشی آپ کے ہاتھ ہر موت کی بیعت کرتے ہیں۔ اسی لئے ان سب کو رضی اللہ عنھم ورضوا عنہ کی سند حضرت حق۔ جل مجدہ۔ کی طرف سے اس کی کتاب حکیم میں اور اس دنیا میں ہی مل گئی۔ اور اسی لئے اس بیعت کو بھی بیعت رضوان کہا جاتا ہے۔ سو اس سب کے باوجود جو کوئی ان قدسی صفت حضرات صحابہ سے بغض وعناد رکھے اس سے بڑھ کر ظالم اور بدبخت اور منحوس اور کون ہوسکتا ہے ؟ والعیاذ باللّٰہ العظیم۔ اللہ تعالیٰ ہمیشہ اور ہر اعتبار سے اپنی حفاظت و پناہ میں رکھے۔ آمین ثم آمین یا رب العالمین یا ارحم الراحمین، [ 21] رسول اللہ ﷺ کے ہاتھ پر بیعت کرنا دراصل اللہ کے ہاتھ پر بیعت کرنا ہے، سبحانہ و تعالیٰ : سو ارشاد فرمایا گیا کہ " جو لوگ آپ ﷺ کے ہاتھ پر بیعت کر رہے تھے وہ درحقیقت اللہ کے ہاتھ پر بیعت کرتے تھے۔ اللہ کا ہاتھ ان کے ہاتھوں کے اوپر تھا "۔ پس جنہوں نے اس موقع پر رسول کے ہاتھ پر بیعت کی انہوں نے گویا خدائے پاک کے ہاتھ پر بیعت کی۔ اور رسول کا ہاتھ گویا خدا کا ہاتھ تھا۔ سو یہ دراصل ماقبل کی تاکید ہے۔ [ محاسن التاویل ] ۔ ورنہ ظاہر ہے کہ اللہ پاک اس طرح کے ظاہری ہاتھوں وغیرہ سے پاک ہے جو ہمارے مشاہرے میں آتے ہیں، کہ یہ مخلوق کی شان ہے۔ جب کہ حضرت حق جل مجدہ جو کہ خالق اور مخلوق کے دائرہ سے وراء الوراء ہے وہ اس طرح کے ہاتھوں اور ایسے تصورات سے پاک اور اعلیٰ وبالا ہے۔ سبحانہ و تعالیٰ ۔ بہرکیف اس سے رسول کے ہاتھ پر کی جانے والی بیعت کی عظمت شان کا اظہار ہوتا ہے کہ آپ ﷺ کے ہاتھ پر کی جانے والی بیعت کو اس نص قرآنی کے ذریعے صاف وصریح طور پر اللہ تعالیٰ کی بیعت قرار دیا گیا ہے۔ اور یہ اسلئے کہ پیغمبر اللہ کا نمائندہ ہوتا ہے۔ اس کا ہر قول وقرار اللہ پاک ہی کی طرف سے ہوتا ہے۔ صلوات اللّٰہ وسلامہ علیہ۔ بہرکیف یہ بیعت رضوان کے شرف سے مشرف ہونے والے صحابہء کرام کی ایک عظیم الشان خصوصیت اور ان کا امتیاز ہے جو اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم سے ان کو نصیب ہوا کہ اس کی اس طرح تصریح فرمائی گئی کہ اللہ تعالیٰ کا ہاتھ ان کے ہاتھوں کے اوپر تھا۔ پس جو لوگ ان قدسی صفت حضرات صحابہء کرام ؓ سے بغض وعناد رکھتے ہیں۔ والعیاذ باللّٰہ العظیم۔ وہ دراصل اللہ تعالیٰ کی کتاب حکیم اور اس کی ان نصوص کریمہ سے بغض وعناد رکھتے ہیں جو کہ کفر ہے۔ سو ایسے لوگ اپنے بارے میں اور اپنے انجام کے بارے میں خود دیکھ اور سوچ لیں اور اس طرح وہ اندازہ کرلیں کہ وہ کس طرح آتش دوزخ کی طرف رواں دواں ہیں اور یہی ہے سب سے بڑا خسارہ۔ والعیاذ باللّٰہ العظیم۔ اللہ ہمیشہ اور ہر طرح سے اپنی حفاظت و پناہ میں رکھے۔ آمین ثم آمین یا رب العالمین یا ارحم الراحمین واکرم الاکرمین، [ 22] اللہ تعالیٰ کے عہد کو توڑنے کا وبال خود عہد توڑنے والے پر، والعیاذ باللّٰہ : سو ارشاد فرمایا گیا کہ " جو اللہ سے باندھے ہوئے عہد کو توڑے گا اس کا وبال خود اسی پر ہوگا "۔ والعیاذ باللّٰہ العظیم۔ یہاں پر عربی زبان کے مشہور قاعدے کے خلاف ضمیر مجررور میں " علیہ " کی جگہ جو " عَلَیْہِ " فرمایا گیا تو یہ اس لئے کہ تاکہ لفظ " اللّٰہ " جل جلالہ۔ کی تفخیم برقرار رہے۔ [ الوجیز، والجامع ] اس میں کچھ اور بھی اقوال ہیں۔ بہر کیف اس سے واضح فرمایا گیا کہ جو لوگ آپ ﷺ کے ہاتھ پر سمع وطاعت کی بیعت کرتے ہیں ان کو یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ وہ آپ ﷺ سے بیعت نہیں کرتے بلکہ وہ حقیقت میں اللہ سے بیعت کرتے ہیں۔ بیعت کے وقت ان کے ہاتھوں پر جو ہاتھ ہوتا ہے وہ حقیقت میں آپ ﷺ کا ہاتھ نہیں اللہ کا ہاتھ ہوتا ہے۔ سو اگر وہ اس بیعت اور عہد کے بعد اس سے گریز و فرار اختیار کریں گے تو وہ یاد رکھیں کہ اس کا وبال خود انہی پر پڑے گا۔ اس لئے کہ اس معاہدے اور بیعت میں فرق اللہ تعالیٰ ہے، سبحانہ وتعالیٰ ۔ اور یہاں پر یہ امر بھی واضح رہے کہ نحو کی کتابیں قرآن کے اسلوب اور اس کے اعراب کو پرکھنے کیلئے اصل مدار اور کسوٹی نہیں ہیں، بلکہ عربی زبان و کلام اور اس محاورہ وبیان کو پرکھنے کے لئے اصل کسوٹی اور مدارو معیار قرآن حکیم کی زبان اور اس کا اسلوب بیان ہے، جو کہ قریش کی ٹکسالی زبان کا سب سے اعلیٰ وارفع نمونہ ہے۔ اور جو ہر اعتبار اور ہر پہلو سے محفوظ ہے۔ اس لئے کوئی چیز اگر نحو کے مروجات کے خلاف ہوگی تو اس کی بنا پر قرآن کو مہتم نہیں کریں گے بلکہ اس کو نحو کے تتبع کے نقص پر محمول کریں گے۔ جیسا کہ نحو کے امام سیبویہ سے بھی مروی و منقول ہے۔ والحمدللّٰہ جل وعلا۔ [ 23] اپنے عہد کو پورا کرنے والوں کیلئے اجر عظیم کا وعدہ : سو ارشاد فرمایا گیا کہ " جس نے اللہ سے باندھے ہوئے اپنے عہد کو پورا کیا تو اللہ اس کو ایک بڑے اجر سے نوازے گا "۔ یعنی جنت اور اس کی سدا بہار نعمتوں کی شکل میں ملنے والے اجر سے۔ جس جیسا دوسرا کوئی اجر نہ ہوا ہے اور نہ کوئی ازخود ایسا سوچ بھی سکتا ہے۔ جہاں اہل جنت کو وہ کچھ ملے گا جو نہ کسی آنکھ نے دیکھا نہ کسی کان نے سنا اور نہ کسی دل پر اس کا گز رہی ہوا ہوگا اور جس کی نعمتیں سدا بہار اور ابدی ہوں گی۔ سو جنت کے اس اجر عظیم کے مقابلے میں دنیا کی ہر بڑی سے بڑی نعمت بھی ہیچ ہے۔ اصل حقیقی اور سب سے بڑا اجر وثواب جنت اور اس کی نعیم مقیم ہی ہیں۔ اللہ پاک نصیب فرمائے محض اپنے کرم سے نصیب فرمائے۔ آمین ثم آمین یا رب العالمین یا ارحم الراحمین واکرم الاکرمین۔ بہرکیف ارشاد فرمایا گیا کہ جس نے اپنے اس عہد کی زمہ داریوں کو پورا کیا اس کو وہ بہت بڑے اجر سے نوازے گا۔ واضح رہے کہ آیت کریمہ کی یہ تشریح و تفسیر جو اوپر عرض کی گئی ہے۔ اس بنیاد پر ہے کہ اس میں مذکور بیعت کا تعلق بیعت رضوان سے ہے۔ جیسا کہ معروف ہے۔ اور جیسا کہ عام اہل علم نے اختیار کیا ہے۔ جب کہ بعض اہل علم نے اس سے اختلاف کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس کا کوئی خاص تعلق بیعت رضوان سے نہیں۔ اس کا ذکر آگے اسی سورة کی آیت نمبر 18 میں آرہا ہے۔ بلکہ یہ اس بیعت سمع وطاعت کا ذکر ہے جو کہ ہر ایمان لانے والا اللہ کے رسول کے ہاتھ پر کرتا تھا۔ ﷺ ۔ مگر الفاظ چونکہ عام ہیں اور ان دونوں احتمالوں میں معنی و مطلب کے لحاظ سے کوئی خاص فرق بھی نہیں پڑتا اس لئے ہم نے اوپر کی تشریح اسی قول مشہور کے مطابق کردی۔ والعلم عنداللّٰہ سبحانہ وتعالیٰ ۔
Top