Anwar-ul-Bayan - Aal-i-Imraan : 11
فَبَعَثَ اللّٰهُ غُرَابًا یَّبْحَثُ فِی الْاَرْضِ لِیُرِیَهٗ كَیْفَ یُوَارِیْ سَوْءَةَ اَخِیْهِ١ؕ قَالَ یٰوَیْلَتٰۤى اَعَجَزْتُ اَنْ اَكُوْنَ مِثْلَ هٰذَا الْغُرَابِ فَاُوَارِیَ سَوْءَةَ اَخِیْ١ۚ فَاَصْبَحَ مِنَ النّٰدِمِیْنَ٤ۚۛۙ
فَبَعَثَ : پھر بھیجا اللّٰهُ : اللہ غُرَابًا : ایک کوا يَّبْحَثُ : کریدتا تھا فِي الْاَرْضِ : زمین میں لِيُرِيَهٗ : تاکہ اسے دکھائے كَيْفَ : کیسے يُوَارِيْ : وہ چھپائے سَوْءَةَ : لاش اَخِيْهِ : اپنا بھائی قَالَ : اس نے کہا يٰوَيْلَتٰٓى : ہائے افسوس مجھ پر اَعَجَزْتُ : مجھ سے نہ ہوسکا اَنْ اَكُوْنَ : کہ میں ہوجاؤں مِثْلَ : جیسا هٰذَا : اس۔ یہ الْغُرَابِ : کوا فَاُوَارِيَ : پھر چھپاؤں سَوْءَةَ : لاش اَخِيْ : اپنا بھائی فَاَصْبَحَ : پس وہ ہوگیا مِنَ : سے النّٰدِمِيْنَ : نادم ہونے والے
پھر اللہ نے ایک کوا بھیجا وہ زمین کو کرید رہا تھا تاکہ وہ اسے دکھا دے کہ وہ اپنے بھائی کی لاش کو کیسے چھپائے۔ کہنے لگا افسوس میری حالت پر ! کیا میں اس سے عاجز ہوگیا کہ اس کوے کی طرح ہوجاؤں سو اپنے بھائی کی لاش کو چھپا دوں۔ پھر وہ پچھتانے والوں میں سے ہوگیا۔ ''
قابیل کو پریشانی کہ مقتول بھائی کی لاش کا کیا کرے ؟ قتل تو کردیا لیکن اس سے پہلے کوئی میت دیکھی نہ تھی کوئی مرجائے تو کیا کیا جائے اس کے بارے میں کچھ علم نہ تھا اب قابیل حیران تھا کہ بھائی کی اس لاش کو کیا کرے اسی حیرانی اور پریشانی میں تھا کہ اللہ تعالیٰ نے دو کوے بھیجے دونوں آپس میں لڑے اور ایک نے دوسرے کو مار دیا پھر اسی مارنے والے کوے نے زمین کو کریدا اور مردہ کوے کی لاش کو دفن کردیا (فَبَعَثَ اللّٰہُ غُرَابًا یَّبْحَثُ فِی الْاَرْضِ لِیُرِیَہٗ کَیْفَ یُوَارِیْ سَوْءَ ۃَ اَخِیْہِ ) (سو اللہ نے بھیج دیا ایک کوا جو کرید رہا تھا زمین کو تاکہ وہ اسے دکھائے کہ کیسے چھپائے اپنے بھائی کی لاش کو) جب قابیل نے یہ منظر دیکھ لیا تو زمین کھود کر اپنے بھائی کی لاش کو دفن کردیا اور یہ بھی کہا (یٰوَیْلَتٰٓی اََعَجَزْتُ اَنْ اَکُوْنَ مِثْلَ ھٰذَا الْغُرَابِ فَاُوَارِیَ سَوْءَ ۃَ اَخِیْ فَاَصْبَحَ مِنَ النّٰدِمِیْنَ ) (ہائے افسوس ! میری حالت پر ! کیا میں اس سے بھی عاجز ہوگیا کہ اس کوے کی طرح ہوجاؤں پھر اپنے بھائی کی لاش کو چھپا دوں۔ ) خسران یعنی نقصان عظیم کا تو مستحق ہوا ہی تھا ! اپنی ناسمجھی پر نادم بھی ہوا کہ میں کوے جیسا بھی نہ ہوسکا جو اپنے بھائی کی لاش کو اپنی سمجھ سے کہیں ٹھکانہ لگا دیتا۔ فوائد متعلقہ واقعہ ہابیل و قابیل (1) واقعہ مذکورہ سے معلوم ہوا کہ حضرت آدم (علیہ السلام) نے اپنی اولاد میں شروع ہی سے توحید پھیلائی تھی اور جو احکام ان کے لئے مشروع کئے گئے تھے ان احکام پر عمل کرتے تھے اور اپنی اولاد کو بھی ان کے مطابق چلائے تھے اسی لئے تو یہ سوال پیدا ہوا کہ فلاں بطن کے لئے حرام ہے، پھر جب اختلاف ہوا تو دونوں لڑکوں نے بارگاہ خدا واندی میں قربانی پیش کی اور قربانی کے ذریعہ اختلاف کا فیصلہ کرنا چاہا کہ اللہ تعالیٰ جس کی قربانی قبول کرے گا وہ صحیح راہ پر ہوگا۔ انسان اپنے عہد اول سے توحید کا عقیدہ رکھنے کا پابند ہے اور اس پر لازم ہے کہ اللہ تعالیٰ کے احکام پر عمل کرے جو اسے اس کے نبی کے ذریعہ پہنچے ہوں، حضرت آدم (علیہ السلام) سب سے پہلے انسان بھی تھے اور سب سے پہلے نبی بھی و قد جاء تصریح ذالک فی الحدیث کما فی المشکوٰۃ۔ (ص 511 وص 512) (2) جب دونوں بھائیوں نے اللہ کی بارگاہ میں نیاز پیش کی (ہابیل نے ایک مینڈھا پیش کیا اور قابیل نے کچھ بالیں پیش کیں) تو اللہ تعالیٰ نے ہابیل کی نیاز کو قبول فرما لیا، آسمان سے آگ آئی اور اس کو جلا دیا، قابیل نے جو کچھ پیش کیا تھا وہ یوں ہی رکھارہ گیا اس پر اسے غصہ آیا اول تو پہلے ہی سے ناراض تھا۔ اب مزید نفسانیت میں ابھار آیا۔ اس ابھار کا باعث یہ بھی ہے کہ لوگوں کو جب یہ معلوم ہوگا کہ اس کی نیاز قبول نہیں ہوئی تو ان کی نظروں میں خفیف ہوں گا، قابیل ہابیل سے کہنے لگا کہ میں تجھے قتل کردوں گا اس میں ہابیل کا کوئی قصور نہ تھا، جس لڑکی کے بارے میں جھگڑا ہو رہا تھا اس کے بارے میں ہابیل کی بات قانون خداوندی کے مطابق تھی اور جب نیاز قبول نہ ہوئی تو اس میں بھی ہابیل کا کوئی قصور نہ تھا، قابیل کو حسد ہوا کہنے لگا کہ میں تجھے قتل کردوں گا اس پر ہابیل نے اچھے انداز میں اس کو سمجھایا اور یہ کہہ دیا کہ (اِنَّمَا یَتَقَبَّلُ اللّٰہُ مِنَ الْمُتَّقِیْنَ ) (کہ اللہ تعالیٰ متقین ہی سے قبول فرماتا ہے) مطلب یہ تھا کہ اگر تو متقی ہوتا تو تیری نیاز قبول ہوتی، اول تو پہلے ہی حکم شرعی کی خلاف ورزی پر اصرار ہے اور اب مجھے قتل کرنے کا ارادہ کر رہا ہے ان سب باتوں کو چھوڑ کر تقویٰ اختیار کرنا چاہیے تاکہ اللہ تعالیٰ کے یہاں اعمال قبول ہوں۔ تقویٰ کے عموم میں کفر شرک سے بچنا اور ہر طرح کے گناہوں سے بچنا سب آجاتا ہے اور کافر کا تو کوئی عمل قبول ہی نہیں ہے، کسی عمل کا اللہ کی بارگاہ میں قبول ہوجانا بہت بڑی نعمت ہے، عمل تو بہت کئے جاتے ہیں لیکن ثواب اسی عمل پر ملے گا جو اللہ کے یہاں قبول ہوجائے حضرت ابوالدردا ؓ نے فرمایا۔ لان استیقن ان اللہ تقبل لی صلوٰۃ وا حدۃ احب الیَّ من الد نیا و مافیھا، ان اللّہ یقول انما۔ یتقبل اللّٰہ من المتقین۔ (ابن کثیر) (اگر مجھے یہی یقین ہوجائے کہ میری ایک نماز مقبول ہوگئی تو ہی میرے لئے ساری دنیا اور اس میں جو کچھ ہے اس سب سے بہتر ہوگا) تو گویا ایک اچھے پیرائے میں ہابیل نے قابیل کو سمجھا دیا کہ تقویٰ اختیار کر چونکہ اس میں حسد کی آمیزش بھی تھی وہ بھی گناہ ہے اس لئے تقویٰ اختیار کرنے کی نصیحت میں حسد سے باز رہنے اور بچنے کی تنبیہ ہوگئی، حاسد یہ دیکھتا ہے کہ فلاں شخص کو ایسی ایسی نعمت مل گئی ہے تو خواہ مخواہ صاحب نعمت سے جلتا ہے حالانکہ صاحب نعمت کا اس میں کچھ بھی قصور نہیں ہوتا اس میں تو اللہ تعالیٰ سے ناراضگی ہے کہ فلاں کو کیوں دیا مجھے کیوں نہیں دیا، ہابیل نے جو قابیل کو نصیحت کی اس میں اس طرف بھی اشارہ ہے کہ صاحب نعمت کی نعمت کے زوال کی فکر میں پڑنے کی بجائے حاسد کو تقویٰ اختیار کرنا چاہیے۔ در حقیقت تقویٰ بہت بڑی چیز ہے رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے اوصیک بتقوی اللہ فانہ ازین لا مرک کُلّہ (کہ میں تجھے اللہ سے ڈرنے کی وصیت کرتا ہوں کیونکہ یہ تیرے ہر کام کو زینت دینے والا ہے) ۔ (مشکوٰۃ المصابیح ص 415) (3) مفسرین لکھتے ہیں کہ ہابیل سب سے پہلا مقتول بھی تھا اور سب سے پہلا میت بھی تھا اس سے پہلے کسی انسان کی موت نہ ہوئی تھی لہٰذا قتل کرنے کے بعد قابیل کو پریشانی تھی کہ نعش کو کیا کرے لہٰذا بوری وغیرہ میں بند کر کے نعش کو کمر پر اٹھائے ہوئے پھرتا رہا۔ اول تو بوجھ اٹھا کر لئے پھرنے کی مصیبت ! دوسرے اس کے اردگرد مردہ خور جانوروں کی بھیڑ کہ یہ اسے پھینکے تو کھائیں دونوں وبال جان بنی ہوئی تھیں، جب ایک کوے نے دوسرے کوے کو قتل کر کے اور دفن کر کے دکھایا تو اپنے بھائی کی لاش کو دفن کیا، لاش کو ختم کرنے کے اور بھی طریقے تھے مثلاً آگ میں جلا دیا جائے یا سمندر میں پھینک دیا جائے لیکن اللہ تعالیٰ کی طرف سے زمین میں دفن کرنے کا طریقہ بتایا گیا جو ایک طبعی اور فطری طریقہ ہے انسان مٹی سے پیدا ہوا ہے مٹی ہی میں مل جاتا ہے۔ گلے سڑے جو کچھ ہو مٹی کے اندر ہو اس کے بعد سے عموماً تمام انسان نعشوں کو دفن ہی کرتے ہیں سوائے ہندوستان کے مشرکوں کے وہ جلاتے ہیں اور سوائے پارسیوں کے کہ وہ اپنی نعشوں کو گدھوں کو کھلا دیتے ہیں انسان کا اکرام اسی میں ہے کہ موت کے بعد اسے دفن کردیا جائے، اور حضرات انبیاء کرام ( علیہ السلام) کا یہی طریقہ ہے۔
Top