Tafseer-e-Jalalain - Al-Maaida : 11
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اذْكُرُوْا نِعْمَتَ اللّٰهِ عَلَیْكُمْ اِذْ هَمَّ قَوْمٌ اَنْ یَّبْسُطُوْۤا اِلَیْكُمْ اَیْدِیَهُمْ فَكَفَّ اَیْدِیَهُمْ عَنْكُمْ١ۚ وَ اتَّقُوا اللّٰهَ١ؕ وَ عَلَى اللّٰهِ فَلْیَتَوَكَّلِ الْمُؤْمِنُوْنَ۠   ۧ
يٰٓاَيُّھَا : اے الَّذِيْنَ اٰمَنُوا : جو لوگ ایمان لائے (ایمان والے) اذْكُرُوْا : تم یاد کرو نِعْمَتَ : نعمت اللّٰهِ : اللہ عَلَيْكُمْ : اپنے اوپر اِذْهَمَّ : جب ارادہ کیا قَوْمٌ : ایک گروہ اَنْ : کہ يَّبْسُطُوْٓا : بڑھائیں اِلَيْكُمْ : تمہاری طرف اَيْدِيَهُمْ : اپنے ہاتھ فَكَفَّ : پس روک دئیے اَيْدِيَهُمْ : ان کے ہاتھ عَنْكُمْ : تم سے وَاتَّقُوا : اور ڈرو اللّٰهَ : اللہ وَعَلَي : اور پر اللّٰهِ : اللہ فَلْيَتَوَكَّلِ : چاہیے بھروسہ کریں الْمُؤْمِنُوْنَ : ایمان والے
اے ایمان والو ! خدا نے جو تم پر احسان کیا ہے اس کو یاد کرو جب ایک جماعت نے ارادہ کیا کہ تم پر دست درازی کریں تو اس نے ان کے ہاتھ روک دیئے اور خدا سے ڈرتے رہو اور مومنوں کو خدا ہی پر بھروسا رکھنا چاہئے۔
یٰاَیھا الذین آمنوا اذکروا نعمت اللہ علیکم اذھم قوم، (الآیہ) اس آیت کے شان نزول میں مفسرین نے متعدد واقعات بیان کئے ہیں مثلاً کعب بن اشرف اور اس کے ساتھیوں نے نبی کریم ﷺ اور آپ کے اصحاب کے خلاف سازش کرکے آپ کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی اللہ تعالیٰ نے بروقت آپ کو بذریعہ وحی سازش کی اطلاع فرما دی آپ ﷺ فوراً وہاں سے اٹھ کر چلے آئے، بعض نے کہا ہے کہ ایک مسلمان کے ہاتھوں غلط فہمی سے دو عامری شخصوں کا قتل ہوگیا تھا ان کی دیت کی ادائیگی میں حسب معاہدہ بنو نضیر سے تعاون لینا تھا اسی سلسلہ میں آپ ان کے یہاں تشریف لے گئے تھے، اور ایک دیوار سے ٹیک لگا کر بیٹھ گئے تھے، یہود نے سازش کرکے اوپر سے ایک پتھر گرا کر آپ کو شہید کرنے کی کوشش کی تھی اللہ تعالیٰ نے بذریعہ وحی اس سازش کی اطالع دیدی، ایک تیسرا واقعہ نزول آیت کے بارے میں غوث بن حارث کا نقل کیا ہے، جس کو عبد الرزاق نے حضرت جابر ؓ کی روایت سے اپنی تفسیر میں اس آیت کا شان نزول قرار دیا ہے، اس کی سند معتبر ہے۔ غوث بن حارث کا واقعہ : امام بخاری نے حضرت جابر ؓ سے روایت کی ہے کہ غزوہ ذات الرقاع کے لیے جاتے وقت درختوں کے سایہ میں لوگ ٹھہرگئے حضرت جابر کہتے ہیں کہ میری آنکھ لگ گئیں اور دیگر ساتھی بھی سوگئے، آنحضرت بھی اپنی تلوار ایک درخت پر لٹکاکر استراحت فرمانے لگے، غوث بن حارث نے چپکے سے آکر آپ کی تلوار درخت سے اتارلی اور تلوار سونت کو آپ سے کہنے لگا اب تم کو مجھ سے کون بچائے گا ؟ آپ نے فرمایا اللہ، ابن اسحٰق کی ورایت میں اتنا مزید ہے کہ حضرت جبرائیل نے آکر غوث کے سینہ پر ایک تھپکی ماری جس پر تلوار اس کے ہاتھ سے چھوٹ کر گرپڑی آنحضرت ﷺ نے وہ تلوار اٹھالی اور غوث بن حارث سے پوچھا اب تجھ کو کون بچاسکتا ہے اس نے کہا کوئی نہیں آپ نے اس کو معاف کردیا، واقدی نے اس واقعہ میں اتنا اور اضافہ کیا ہے کہ غوث اس واقعہ کو دیکھ کر مسلمان ہوگیا اور اس کے واسطہ سے بہت سے لوگوں کو ہدایت نصیب ہوئی، اس واقعہ میں اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول پر یہ احسان فرمایا کہ آپ کو ایک دشمن کے حملے سے بچالیا پھر اس احسان میں امت کو شریک فرمایا گویہ آیت اس تنبیہ کے ساتھ نازل فرمائی کہ امت کی ہدایت کے لئے رسول کا آنا ایک بڑا احسان ہے۔ (احسن تفاسیر )
Top