Anwar-ul-Bayan - Al-Maaida : 71
وَ حَسِبُوْۤا اَلَّا تَكُوْنَ فِتْنَةٌ فَعَمُوْا وَ صَمُّوْا ثُمَّ تَابَ اللّٰهُ عَلَیْهِمْ ثُمَّ عَمُوْا وَ صَمُّوْا كَثِیْرٌ مِّنْهُمْ١ؕ وَ اللّٰهُ بَصِیْرٌۢ بِمَا یَعْمَلُوْنَ
وَ : اور حَسِبُوْٓا : انہوں نے گمان کیا اَلَّا تَكُوْنَ : کہ نہ ہوگی فِتْنَةٌ : کوئی خرابی فَعَمُوْا : سو وہ اندھے ہوئے وَ : اور صَمُّوْا : بہرے ہوگئے ثُمَّ : تو تَابَ : توبہ قبول کی اللّٰهُ : اللہ عَلَيْهِمْ : ان کی ثُمَّ : پھر عَمُوْا : اندھے ہوگئے وَصَمُّوْا : اور بہرے ہوگئے كَثِيْرٌ : اکثر مِّنْهُمْ : ان سے وَاللّٰهُ : اور اللہ بَصِيْرٌ : دیکھ رہا ہے بِمَا : جو يَعْمَلُوْنَ : وہ کرتے ہیں
اور انہوں نے گمان کیا کہ کچھ بھی فتنہ نہ ہوگا پھر وہ اندھے اور بہرے ہوگئے پھر اللہ نے ان پر توجہ فرمائی پھر ان میں سے بہت سے لوگ اندھے اور بہرے ہوگئے اور اللہ ان کاموں کو دیکھتا ہے جن کو وہ کرتے ہیں۔
اس سرکشی میں چلتے رہے پھر اللہ پاک نے ان پر توجہ فرمائی بعض انبیاء کرام ( علیہ السلام) کو بھیجا لیکن وہ پھر بھی اندھے اور بہرے بنے رہے ان میں سے بہت سوں کا یہی حال رہا (وَ اللّٰہُ بَصِیْرٌ بِمَا یَعْمَلُوْنَ ) اور اللہ ان کے سب اعمال کو دیکھتا ہے۔ بنی اسرائیل کے مفاد اور اتار چڑھاؤ کا تذکرہ سورة بنی اسرائیل کے پہلے رکوع میں قدرے تفصیل سے فرمایا ہے اسکو ملاحظہ کرلیا جائے۔
Top