Ashraf-ul-Hawashi - Al-Maaida : 71
وَ حَسِبُوْۤا اَلَّا تَكُوْنَ فِتْنَةٌ فَعَمُوْا وَ صَمُّوْا ثُمَّ تَابَ اللّٰهُ عَلَیْهِمْ ثُمَّ عَمُوْا وَ صَمُّوْا كَثِیْرٌ مِّنْهُمْ١ؕ وَ اللّٰهُ بَصِیْرٌۢ بِمَا یَعْمَلُوْنَ
وَ : اور حَسِبُوْٓا : انہوں نے گمان کیا اَلَّا تَكُوْنَ : کہ نہ ہوگی فِتْنَةٌ : کوئی خرابی فَعَمُوْا : سو وہ اندھے ہوئے وَ : اور صَمُّوْا : بہرے ہوگئے ثُمَّ : تو تَابَ : توبہ قبول کی اللّٰهُ : اللہ عَلَيْهِمْ : ان کی ثُمَّ : پھر عَمُوْا : اندھے ہوگئے وَصَمُّوْا : اور بہرے ہوگئے كَثِيْرٌ : اکثر مِّنْهُمْ : ان سے وَاللّٰهُ : اور اللہ بَصِيْرٌ : دیکھ رہا ہے بِمَا : جو يَعْمَلُوْنَ : وہ کرتے ہیں
اور سمجھے کہ کوئی بلا نہیں آئے گی22 تو اندھے اور بہرے ہوگئے13 پھر اللہ تعالیٰ نے ان کا قصور معاف کردیا1 4 پھر بہتیران میں کے اندھے اور بہرے ہوگئے اور اللہ تعالیٰ ان کاموں کو دیکھ رہا ہے16
12 لفظ فتنتہ کے اصل معنی آزمائش کے ہیں مطلب یہ کہ ہم کیسے ہی گناہ کرلیں خواہ انبیا تک قتل کریں چونکہ ہم اللہ کے بیٹے اور چہتیے ہیں اس لیے ہم پر دنیا میں کسی قسم کی ادربار و نحوست یا غلبہ دشمن کوئی بلا نازل نہیں ہوگی (کبیر ) 13 مگر ان پر بلا نازل ہوئی چناچہ جب وہ پہلی مرتبہ حضرت شعیب ( علیہ السلام) کے زما نہ میں حق سے بہرے اور اندھے ہوئے تو اللہ تعالیٰ نے ان پر بابل کے کافر اور ظالم بادشاہ بخت نصر کو مسلط کردیا جس نے ان کی مسجد اقصی ٰ کو جلا ڈالا ان کے اموال لوٹے اور ان کی اکثریت کو لونڈی غلام بنا کر بناکر بابل لے گیا ( دیکھئے بن بنی اسرائیل آیت 4 ۔ 8)14 یعنی اللہ تعالیٰ نے ان کو بخت نصر کی غلامی سے نجات دی اور انہوں نے اپنی حالت سدھاری اور کچھ عرصہ کے لیے ٹھیک رہا15 یعنی پھر دوبارہ جیسی سرکشی پر اتر آئے یہاں تک کہ انہوں نے حضرت زکریا ( علیہ السلام) اور حضرت یحییٰ ( علیہ السلام) جیسے جلیل القدر انبیا کو قتل کر ڈالا اور حضرت عیسیٰ ( علیہ السلام) سے انتہائی توہین آمیز سلوک کیا بلکہ انہیں قتل کرنے کے درپے ہوئے بعض نے گمراہی کے پہلے دور کو حضرت زکریا ( علیہ السلام) حضرت یحییٰ ( علیہ السلام) کے زمانہ کے ساتھ اور یہاں کثیر منھم فرمانے سے اشارہ ہے کہ ان میں سے بعض حق پرست مسلمان ہوگئے تھے جیسے حضرت عبداللہ بن سلام اور ان کے رفقا اور ہوسکتا ہے کہ لتفسدن فی الارض مرتین ان دو دو روں کی طرف اشارہ ہو (کبیر)16 اس سے تہدید مقصود ہے (کبیر )
Top