Anwar-ul-Bayan - Al-Hadid : 27
ثُمَّ قَفَّیْنَا عَلٰۤى اٰثَارِهِمْ بِرُسُلِنَا وَ قَفَّیْنَا بِعِیْسَى ابْنِ مَرْیَمَ وَ اٰتَیْنٰهُ الْاِنْجِیْلَ١ۙ۬ وَ جَعَلْنَا فِیْ قُلُوْبِ الَّذِیْنَ اتَّبَعُوْهُ رَاْفَةً وَّ رَحْمَةً١ؕ وَ رَهْبَانِیَّةَ اِ۟بْتَدَعُوْهَا مَا كَتَبْنٰهَا عَلَیْهِمْ اِلَّا ابْتِغَآءَ رِضْوَانِ اللّٰهِ فَمَا رَعَوْهَا حَقَّ رِعَایَتِهَا١ۚ فَاٰتَیْنَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مِنْهُمْ اَجْرَهُمْ١ۚ وَ كَثِیْرٌ مِّنْهُمْ فٰسِقُوْنَ
ثُمَّ : پھر قَفَّيْنَا : پے در پے بھیجے ہم نے عَلٰٓي اٰثَارِهِمْ : ان کے آثار پر بِرُسُلِنَا : اپنے رسول وَقَفَّيْنَا : اور پیچھے بھیجا ہم نے بِعِيْسَى ابْنِ مَرْيَمَ : عیسیٰ ابن مریم کو وَاٰتَيْنٰهُ : اور عطا کی ہم نے اس کو الْاِنْجِيْلَ : انجیل وَجَعَلْنَا : اور ڈال دیا ہم نے فِيْ قُلُوْبِ : دلوں میں الَّذِيْنَ اتَّبَعُوْهُ : ان لوگوں کے جنہوں نے پیروی کی اس کی رَاْفَةً : شفقت کو وَّرَحْمَةً ۭ : اور رحمت کو وَرَهْبَانِيَّةَۨ : اور رہبانیت ابْتَدَعُوْهَا : انہوں نے ایجاد کیا اس کو مَا كَتَبْنٰهَا : نہیں فرض کیا تھا ہم نے اس کو عَلَيْهِمْ : ان پر اِلَّا ابْتِغَآءَ : مگر تلاش کرنے کو رِضْوَانِ : رضا اللّٰهِ : اللہ کی فَمَا رَعَوْهَا : تو نہیں انہوں نے رعایت کی اس کی حَقَّ رِعَايَتِهَا ۚ : جیسے حق تھا اس کی رعایت کا۔ نگہبانی کا۔ پابندی کا فَاٰتَيْنَا الَّذِيْنَ : تو دیا ہم نے ان لوگوں کو اٰمَنُوْا : جو ایمان لائے مِنْهُمْ : ان میں سے اَجْرَهُمْ ۚ : ان کا اجر وَكَثِيْرٌ مِّنْهُمْ : اور بہت سے ان میں سے فٰسِقُوْنَ : فاسق ہیں
پھر ہم ان کے بعد دوسرے رسولوں کو یکے بعد دیگرے بھیجتے رہے اور ان کے بعد عیسیٰ ابن مریم کو بھیجا اور ہم نے ان کو انجیل دی اور جن لوگوں نے ان کا اتباع کیا تھا ہم نے ان کے دلوں میں شفقت اور ترحم پیدا کیا اور انہوں نے رہبانیت کو خود ایجاد کرلیا ہم نے ان پر اس کو واجب نہ کیا تھا لیکن انہوں نے حق تعالیٰ کی رضا کے واسطے اس کو اختیار کیا تھا، سو انہوں نے اس کی پوری رعایت نہ کی سو ان میں سے جو لوگ ایمان لائے ہم نے ان کو انکا اجر دیا اور ان میں زیادہ نافرمان ہیں
نصاریٰ کا رہبانیت اختیار کرنا پھر اسے چھوڑ دینا : ﴿ وَ رَهْبَانِيَّةَ ا۟بْتَدَعُوْهَا ﴾ (اور عیسیٰ (علیہ السلام) کا اتباع کرنے والوں نے رہبانیت کو جاری کردیا) ۔ علامہ بغوی ؓ نے معالم التنزیل میں حضرت ابن مسعود ؓ سے نقل کیا ہے کہ میں ایک دن رسول اللہ ﷺ کے پیچھے سواری پر بیٹھا تھا آپ نے فرمایا اے ابن ام عبد (یہ ابن مسعود ؓ کی کنیت ہے) تم جانتے ہو کہ بنی اسرائیل نے رہبانیت کہاں سے اختیار کی ؟ عرض کی اللہ اور اس کے رسول ہی زیادہ جاننے والے ہیں۔ آپ نے فرمایا کہ عیسیٰ (علیہ السلام) کے بعد ظالم بادشاہوں کا غلبہ ہوگیا، گناہوں میں لگ گئے جن پر اہل ایمان ناراض ہوئے، اہل ایمان نے نے ان سے تین بار جنگ کی اور ہر مرتبہ شکست کھائی جب ان میں سے تھوڑے سے رہ گئے تو کہنے لگے کہ اگر اسی طرح مقابلہ کرتے رہے تو یہ لوگ ہمیں فنا کردیں گے اور دین حق کی دعوت دینے والا کوئی نہ رہے گا، لہٰذا ہم زمین میں منتشر ہوجائیں یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ اس نبی کو بھیج دے جس کی آمد کا حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نے وعدہ فرمایا ہے لہٰذا وہ پہاڑوں کے غاروں میں منتشر ہوگئے اور رہبانیت اختیار کرلی پھر ان میں بعض دین حق پر جمے رہے بعض کافر ہوگئے اس کے بعد رسول اللہ ﷺ نے آیت کریمہ ﴿ وَ رَهْبَانِيَّةَ ا۟بْتَدَعُوْهَا مَا كَتَبْنٰهَا ﴾ تلاوت فرمائی۔ (معالم التنزیل صفحہ 301: ج 4) علامہ بغوی ؓ نے اس روایت کی کوئی سند ذکر نہیں کی اور کسی کتاب کا حوالہ بھی نہیں دیا۔ اس میں جو اشکال پیدا ہوتا ہے کہ جب ان کے لیے قتال جائز نہیں تھا تو جنگ کیوں کی ؟ اس کے جواب میں کہا جاسکتا ہے کہ ممکن ہے ان پر حملہ کیا گیا ہو جس کیو جہ سے انہوں نے مجبور ہوکر جوابی کارروائی کی ہو۔ (واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب) حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی شریعت میں جو احکام تھے ان سے آگے بڑھ کر نصاریٰ نے ایسی چیزیں نکال لی تھیں جن کا اللہ تعالیٰ کی طرف سے حکم نہیں دیا گیا تھا یہ چیزیں نفس کو مشقت میں ڈالنے والی تھیں، یہ لوگ نکاح نہیں کرتے تھے، کھانے پینے میں اور پہننے میں کمی کرتے تھے، تھوڑا بہت کھاتے تھے جس سے صرف زندہ رہ جائیں، پہاڑوں میں گرجے بنا لیتے تھے وہیں پر زندگیاں گزارتے تھے، ان کے اس عمل کو رہبانیت اور ان کو راہب کہا جاتا ہے۔ انہی راہبوں نے حضرت سلمان فارسی ؓ کو سیدنا محمد رسول اللہ ﷺ کی آمد کی خبر دی تھی اور انہی کی نشاندہی سے وہ مدینہ منورہ پہنچے تھے جس کا ذکر سورة الاعراف کی آیت ﴿يَجِدُوْنَهٗ مَكْتُوْبًا عِنْدَهُمْ فِي التَّوْرٰىةِ وَ الْاِنْجِيْلِ ﴾ کے ذیل میں گزر چکا ہے ان لوگوں نے عوام سے اور ملوک سے علیحدگی اختیار کرلی تھی کیونکہ اہل دنیا ان کو مجبور کرتے تھے کہ ہماری طرح رہو، یہ رہبانیت کا حکم اللہ تعالیٰ کی طرف سے نہیں دیا گیا تھا انہوں نے خود رہبانیت کو اختیار کرلیا تھا اور یہ سمجھا تھا کہ اس میں اللہ تعالیٰ کی رضامندی ہے : قال البغوی فی معالم التنزیل ورھبانیة ن ابتدعوھا من قبل انفسھم ما کتبنا علیھم الا ابتغاء رضوان اللہ یعنی ولکنھم ابتغوا رضوان اللہ بتلک الرھبانیة صفحہ 300: ج 4 وفی روح المعانی منصوب بفعل مضمر یفسرہ الظاھر ای وابتدعوا رھبانیۃ ابتدعوا فھو من باب الاشتغال۔ راہب لوگ اپنی رہبانیت پر چلتے رہے پھر ان میں بھی دنیا داری گھس گئی ان کے نفوس نے انگڑائی لی اور عوام الناس کی طرح یہ لوگ بھی دنیا داری پر اتر آئے ان لوگوں کو انتظار تھا کہ آخر الانبیاء سیدنا محمد مصطفیٰ احمد مجتبیٰ ﷺ کی بعثت ہوجائے تو ہم ان پر ایمان لائیں پھر جب آپ کی بعثت ہوگئی اور آپ کو پہچان بھی لیا تو ان پر ضد سوار ہوگئی کہ ہم اپنے ہی دین پر رہیں گے ان میں سے تھوڑے لوگ ایمان لائے جن کے بارے میں فرمایا ﴿ فَاٰتَيْنَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا مِنْهُمْ اَجْرَهُمْ 1ۚ﴾ (سو ان میں سے جو لوگ ایمان لے آئے ان کا اجر ہم نے ان کو دے دیا) ﴿ وَ كَثِيْرٌ مِّنْهُمْ فٰسِقُوْنَ 0027﴾ (اور ان میں بہت سے لوگ نافرمان ہیں) رسول اللہ ﷺ کی تشریف آوری سے پہلے یہ لوگ دین بھی بدل چکے تھے انجیل شریف بھی گم کرچکے تھے توحید کو چھوڑ کر تثلیث کا عقیدہ بنا لیا تھا۔ تین خدا ماننے لگے تھے اور حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے قتل کے بھی قائل ہوگئے تھے جبکہ اس سے پہلے یہ جانتے تھے کہ آپ کو اللہ تعالیٰ نے آسمان پر زندہ اٹھا لیا، جب آپ کے قتل کے قائل ہوئے تو یہ عقیدہ رکھ لیا کہ ان کا قتل ہمارے گناہوں کا کفارہ ہوگیا اس عقیدہ کی بنیاد پر ان کے پادری اتوار کے دن اپنے ماننے والوں کو چرچ میں بلا کر گناہوں کی معافی کرنے لگے، پرانے نصاریٰ کو رومن کیتھولک کہا جاتا ہے ان میں سے ایک فرقہ علیحدہ ہوا جسے پروٹسٹنٹ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ یہ لوگ منکرات، محرمات اور معاصی کے ارتکاب میں بہت زیادہ آگے بڑھ گئے جس کا انشاء اللہ تذکرہ ہم ابـھی کریں گے۔ موجودہ نصاریٰ کی بدحالی اور گناہگاری، دنیا کی حرص اور مخلوق خدا پر ان کے مظالم : نصاریٰ نے اپنے رسول سیدنا عیسیٰ (علیہ السلام) کا اتباع نہ کیا تو ان میں رحمت و شفقت نہ رہی اور نہ وہ سیدنا محمد رسول اللہ ﷺ پر ایمان لائے اب یہودیوں کی طرح وہ بھی اسلام کے سب سے بڑے دشمن ہیں کافر تو ہیں ہی کفر کے ساتھ ساتھ دوسرے گناہوں میں موجودہ دور کے تمام انسانوں سے بہت آگے ہیں بلکہ دنیا بھر کے لوگوں کو یہی لوگ گناہ والی زندگی سکھاتے ہیں، ننگے پہناوے، زناکاری، شراب خوری، جوا وغیرہ یہ سب نصاریٰ کے کرتوت ہیں چونکہ انہوں نے اپنا یہ عقیدہ بنا لیا ہے کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کا قتل (جس کے وہ جھوٹے مدعی ہیں) ہمارے گناہوں کا کفارہ بن گیا اس لیے ہر گناہ کرلیتے ہیں ان کے ملکوں میں نکاح ختم ہوتا جا رہا ہے، مردوں اور عورتوں میں دوستی کا رواج ہے، بےحیائی کے کام ہو رہے ہیں۔ بےباپ کے بچوں کی کثرت ہے اور بےنکاح کے مرد اور عورت کے ملاپ کو ان کے ملکوں کی پارلیمنٹ نے قانونی طور پر جائز کر رکھا ہے، بلکہ یورپ کے بعض ملکوں نے اپنے ہم جنسوں سے استلذاذ کو بھی جائز قرار دے دیا ہے۔ عجیب بات ہے کہ جو بات پارلیمنٹ پاس کر دے پوپ اس کے خلاف ذرا سا بھی لب نہیں ہلا سکتے، کیا حضرت مسیح (علیہ السلام) نے یہ فرمایا تھا کہ زنا کو عام کرلینا اور اسے قانونی جواز دے دینا یورپ اور امریکہ کے ممالک کے دیکھا دیکھی ایشیا اور افریقہ کے ممالک بھی انہیں کی راہ پر چلنے لگے ہیں پوری دنیا کو گناہگاری کی زندگی سکھانے کے ذمہ دار وہی لوگ ہیں جو حضرت مسیح (علیہ السلام) کے نام سے اپنی نسبت ظاہر کرتے ہیں حالانکہ حضرت مسیح (علیہ السلام) اس دین سے بری ہیں جو مسیحیت کے دعویداروں نے اپنا رکھا ہے۔ حضرت مسیح (علیہ السلام) نے توحید کی دعوت دی، پاک دامن رہنے کو فرمایا اور یہ بھی فرمایا کہ میرے بعد ایک نبی آئیں گے ان پر ایمان لانا، وہ نبی تشریف لے آئے یعنی محمد رسول اللہ ﷺ مسیحی ان پر ایمان نہیں لاتے۔ یہ حضرت مسیح (علیہ السلام) کے فرمان کی صریح خلاف ورزی کر رہے ہیں اور دنیا بھر میں مشنریوں کا جال پھیلا رکھا ہے اور مسلمانوں کو اپنے بنائے ہوئے دین کی طرف دعوت دیتے ہیں جبکہ حضرت مسیح (علیہ السلام) نے فرمایا تھا کہ میں اسرائیل کے گھرانے کی کھوئی ہوئی بھیڑوں کے سوا اور کسی کے پاس نہیں بھیجا گیا۔ (متی کی انجیل) بہت سی تحریفات و تغیرات کے باوجود اب بھی انجیل یوحنا میں آنحضرت ﷺ کے بارے میں بشارتیں موجود ہیں۔ باب نمبر 14 میں ہے کہ ” میں نے یہ باتیں تمہارے ساتھ رہ کر تم سے کہیں لیکن مددگار یعنی روح القدس جسے باپ میرے نام سے بھیجے گا وہی تمہیں سب باتیں سکھائے گا اور جو کچھ میں نے تم سے کہا وہ سب تمہیں یاد دلائے گا۔ “ پھر چند سطر کے بعد ان کے آسمان پر اٹھائے جانے کی پیشین گوئی ہے اس میں یہ الفاظ ہیں ” اور پھر تھوڑی دیر میں مجھے دیکھ لو گے اور یہ اس لیے کہ میں باپ کے پاس جاتا ہوں “ ﴿ بَلْ رَّفَعَهُ اللّٰهُ اِلَيْهِ ﴾ کی طرف اشارہ ہے جو قرآن مجید میں سورة نساء میں مذکور ہے۔ پھر چند سطر کے بعد دنیا میں تشریف لانے کا ذکر ہے اس کے الفاظ یہ ہیں : ” میں نے تم سے یہ باتیں اس لیے کہیں کہ تم مجھ میں اطمینان پاؤ، دنیا میں مصیبتیں اٹھاتے ہو لیکن خاطر جمع رکھو میں دنیا پر غالب آیا ہوں۔ “ اے نصر انیو ! حضرت مسیح (علیہ السلام) نے جو فرمایا کہ بنی اسرائیل کی طرف بھیجا گیا ہوں تم ان کے سوا کسی کے پاس نہ جانا، دنیا بھر میں مشنریاں قائم كركے اس کی خلاف ورزی نہ کرو اور دین اسلام قبول کرو۔ قرآن مجید میں حضرت مسیح کے دنیا سے اٹـھائے جانے کا اور محمد رسول اللہ ﷺ کی حدیثوں میں ان کے دوبارہ تشریف لانے کا اور طبعی موت سے وفات پانے کا ذکر ہے موجودہ انجیل کی عبارتوں سے بھی یہ بات ثابت ہوتی ہے، مسیحیوں پر لازم ہے کہ حضرت مسیح (علیہ السلام) کی باتیں مانیں اور رسول اللہ ﷺ پر ایمان لائیں اور اپنے بنائے ہوئے دین پر نہ جمے رہیں اور مسلمانوں کو اپنے کفریہ دین کی دعوت نہ دیں، تعصب میں آکر اپنی آخرت برباد نہ کریں۔ یہود و نصاریٰ کا حق سے انحراف اور اسلام کے خلاف متحدہ محاذ یہود و نصاریٰ نے محمد ﷺ کو پہچان لیا لیکن بہت کم ایمان لائے۔ یہودی مدینہ منورہ ہی میں رہتے تھے بلکہ بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ مدینہ منورہ میں اسی لئے آکر آباد ہوئے تھے کہ یہاں آخر الانبیاء ﷺ تشریف لائیں گے ہم ان پر ایمان لائیں گے لیکن آپ کی تشریف آوری کے بعد آپ کو پہچان لینے کے باوجود ایمان نہیں لائے۔ ﴿ فَلَمَّا جَآءَهُمْ مَّا عَرَفُوْا كَفَرُوْا بِهٖٞ فَلَعْنَةُ اللّٰهِ عَلَى الْكٰفِرِيْنَ 0089﴾ چند ہی یہودیوں نے اسلام قبول کیا جن میں عبداللہ بن سلام ؓ بھی تھے انہوں نے فرمایا عرفت ان وجھہ لیس بوجہ کذاب کہ میں نے آپ کا چہرہ انور دیکھتے ہی پہچان لیا کہ یہ چہرہ جھوٹا نہیں ہوسکتا۔ (مشکوۃ المصابیح صفحہ 168) نصاریٰ کو بھی آنحضرت ﷺ کی بعثت کا علم ہے حبشہ کا نصرانی بادشاہ نجاشی اور اس کے علاوہ بہت سے لوگ مسلمان ہوگئے لیکن عام طور پر نصاریٰ بھی اسلام سے منحرف رہے اور آج تک منحرف ہیں۔ ہندوستان کے مشرکوں نے لاکھوں کی تعداد میں اسلام قبول کیا لیکن نصاریٰ ٹس سے مس ہونے کو تیار نہیں۔ اکاد کا افراد مسلمان ہوتے رہتے ہیں لیکن عموماً انکار پر ہی تلے ہوئے ہیں، اسلام کے خلاف سازشیں کرتے ہیں جہاں کہیں مسلمان غریب ہوں وہاں مال تقسیم کر کے مانوس کرتے ہیں اور سکول ہسپتال کھول کر مشنریاں قائم کر کے کفر کی دعوت دیتے ہیں (جس دین کی دعوت مال کا لالچ دے کر ہو اس کے باطل ہونے کے لیے یہی کافی ہے) سورة آل عمران کی آیت ﴿ فَمَنْ حَآجَّكَ فِيْهِ مِنْۢ بَعْدِ مَا جَآءَكَ مِنَ الْعِلْمِ ﴾ کی تفسیر میں نصاریٰ نجران کا واقعہ گزر چکا ہے۔ وہ لوگ مدینہ منورہ میں حاضر ہوئے مباہلہ کی گفتگو ہوئی ان کا جو سب سے بڑا تھا اس نے کہا واقعی محمد ﷺ نبی مرسل ہیں اگر ان سے مباہلہ کرو گے تو تمہارا ناس ہوجائے گا اگر تمہیں اپنا دین چھوڑنا نہیں ہے تو ان سے صلح کرلو اور اپنے شہروں کو واپس چلو۔ یہ لوگ مباہلہ پر راضی نہ ہوئے اور اپنے دین پر قائم رہے، یہ جانتے ہوئے کہ محمد عربی ﷺ واقعی اللہ کے رسول ہیں ایمان نہ لائے اور ایمان سے رو گردانی کر بیٹھے اور آج تک ان کا یہی طریقہ رہا ہے، حضرات علماء کرام نے بار ہامناظروں میں ان کو شکست دی ان کی موجودہ انجیل میں تحریف ثابت کی، بار ہا ان کے دین کو مصنوعی خود ساختہ دین ثابت کردیا ہے، لیکن وہ دنیاوی اغراض سیاسیہ اور غیر سیاسیہ کی وجہ سے دین اسلام کو قبول نہیں کرتے اور دنیا بھر میں فساد کر رہے ہیں جس وقت رسول اللہ ﷺ نے ان کو مباہلہ کی دعوت دی تھی اس وقت سے لے کر آج تک ان کا یہی طریقہ رہا ہے۔ یہودی نصاریٰ دونوں آپس میں ایک دوسرے کے دین کو غلط جانتے ہیں لیکن اسلام اور مسلمانوں کے خلاف آپس میں گٹھ جوڑ ہے اور اسلام کے مٹانے کے لیے دونوں نے اتحاد کر رکھا ہے لیکن پھونکوں سے یہ چراغ نہیں بجھایا جاسکتا ﴿ وَ اللّٰهُ مُتِمُّ نُوْرِهٖ وَ لَوْ كَرِهَ الْكٰفِرُوْنَ 008﴾ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ﴿ وَ جَعَلْنَا فِيْ قُلُوْبِ الَّذِيْنَ اتَّبَعُوْهُ رَاْفَةً وَّ رَحْمَةً ﴾ (اور جنہوں نے عیسیٰ بن مریم کا اتباع کیا ان کے دلوں میں ہم نے شفقت اور رحمت رکھ دی) جن لوگوں نے اتباع کیا تھا ان میں رحمت و شفقت تھی اب تو ان سے جھوٹی نسبت رکھنے والوں نے کئی سو سال سے پورے عالم کو مصیبت میں ڈال رکھا ہے ملک گیری کے حرص نے ان سے ایشیائی ممالک پر حملے کرائے، ملکوں پر قبضے كئے 1857 ء میں ہندوستان کے لوگوں کو کس طرح ظلم کا نشانہ بنایا ؟ تاریخ دان جانتے ہیں اور ہیروشیما پر جنہوں نے بم پھینکا تھا کیا یہ وہی لوگ نہ تھے جو حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی طرف نسبت کرتے ہیں ؟ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نے وصیت فرمائی تھی کہ میرے بعد اللہ تعالیٰ رسول بھیجے گا جس کا نام احمد ہوگا کچھ عرصے تک ان کی آمد کے انتظار میں رہے جب وہ تشریف لے آئے تو ان کی رسالت کا انکار کردیا۔ ﴿ فَلَمَّا جَآءَهُمُ الْحَقُّ مِنْ عِنْدِنَا قَالُوْۤا اِنَّ هٰذَا لَسِحْرٌ مُّبِيْنٌ0076﴾ نصاریٰ اپنی کتاب بھی کھو بیٹھے اس میں تحریف کردی اور بالکل ہی گم کردی۔ رسول اللہ ﷺ کا اتباع بھی نہ کیا ہدایت سے بھی رہ گئے اور رحمت اور شفقت بھی دلوں سے نکل گئی، اب تو تین خداؤں کا عقیدہ ہے اور کفارہ کا سہارا ہے اور ہر گناہ میں لت پت ہیں نہ ان میں رہبان ہیں نہ قسیسین ہیں جو ان کے مذہب کے بڑے ہیں وہ بھی ان کی حکومتوں اور سیاستدانوں کا موڈ دیکھتے ہیں، کوئی حق کلمہ نہیں کہہ سکتے اور گناہوں پر نکیر نہیں کرسکتے، سیدھے لفظوں میں یہ لوگ بھی اپنی حکومتوں کے آلہء کار ہیں۔ فائدہ : رہبانیت کا اللہ تعالیٰ نے نصاریٰ کو حکم نہیں دیا تھا لیکن انہوں نے یہ سمجھ کر اس میں اللہ تعالیٰ کی رضا ہے اپنے طور پر اختیار کرلی تھی پھر اس کو نباہ بھی نہ سکے، رہبانیت کو بھی چھوڑ بیٹھے اور جو شریعت انہیں دی گئی تھی اس کی بھی پاسداری نہ کی، بلکہ اسے بدل دیا اعمال صحیحہ صالحہ پر تو کیا قائم رہتے توحید کے قائل نہ رہے تین خدا مان لئے، پھر ان میں سے ایک خدا کے مقتول ہونے کا عقیدہ بنا لیا اور یہ سمجھ لیا کہ ان کا قتل ہمارے گناہوں کا کفارہ ہوگیا۔ یہ رہبانیت نہ ان کے لئے مشروع تھی نہ امت محمدیہ علی صاحبہا الصلاۃ والتحیہ کے لئے مشروع ہے۔ شریعت محمدیہ میں آسانی رکھی گئی ہے تنگی نہیں ہے۔ سورة البقرہ میں فرمایا : ﴿ يُرِيْدُ اللّٰهُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَ لَا يُرِيْدُ بِكُمُ الْعُسْرَ ﴾ (اللہ تمہارے ساتھ آسانی کا ارادہ فرماتا ہے اور سختی کا ارادہ نہیں فرماتا) ۔ اور سورة الاعراف میں فرمایا : ﴿ وَ يُحِلُّ لَهُمُ الطَّيِّبٰتِ وَ يُحَرِّمُ عَلَيْهِمُ الْخَبٰٓىِٕثَ وَ يَضَعُ عَنْهُمْ اِصْرَهُمْ وَ الْاَغْلٰلَ الَّتِيْ كَانَتْ عَلَيْهِمْ ﴾ (رسول نبی امی ان کے لئے پاکیزہ چیزیں حلال وخبیث چیزوں کو حرام قرار دیتا ہے اور ان پر جو بوجھ کے طوق تھے ان کو دور کرتا ہے) ۔ سورة المائدہ میں فرمایا ﴿ مَا يُرِيْدُ اللّٰهُ لِيَجْعَلَ عَلَيْكُمْ مِّنْ حَرَجٍ ﴾ (اللہ تعالیٰ یہ نہیں چاہتا کہ تم پر کوئی تنگی ڈالے) سورة الحج میں فرمایا ﴿ هُوَ اجْتَبٰىكُمْ وَ مَا جَعَلَ عَلَيْكُمْ فِي الدِّيْنِ مِنْ حَرَجٍ ﴾ (اللہ نے تمہیں چن لیا اور تم پر کوئی تنگی نہیں ڈالی) ان آیات میں اس بات کی تصریح ہے کہ امت محمدیہ ﷺ کے لئے ایسے احکام مشروع نہیں كئے گئے جن میں تنگی ہو، نصاریٰ کی طرح رہبانیت اختیار کرنے کی اجازت یا فضیلت نہیں ہے۔ حضرت عثمان بن مظعون ؓ سے روایت ہے کہ انہوں نے عرض کیا یارسول اللہ ہمیں خصی ہونے یعنی قوت مردانہ زائل کرنے کی اجازت دیجئے آپ ﷺ نے فرمایا وہ ہم میں سے نہیں ہیں جو کسی کو خصی کرے یا خود خصی بنے، بلاشبہ میری امت کا خصی ہونا (یعنی بیوی نہ ہونے کی صورت میں شہوت کو دبانا) یہ ہے کہ روزے رکھا کریں اس کے بعد عرض کیا کہ ہمیں سیاحت (یعنی سیر وسفر) کی اجازت دیجئے آپ نے فرمایا بیشک میری امت کی رہبانیت یہ ہے کہ نماز کے انتظار میں مسجدوں میں بیٹھے رہا کریں۔ (مشکوٰۃ المصابیح صفحہ 29) معلوم ہوا کہ اس امت کو نصاریٰ والی رہبانیت اختیار کرنے کی اجازت نہیں قدرت ہوتے ہوئے نکاح نہ کرنا، معاش کا انتظام نہ کرنا، مخلوق پر نظر رکھنا، مانگ کر کھانا، سردی گرمی سے بچنے کا انتظام نہ کرنا، بیوی بچوں کے حقوق ادانہ کرنا، ان چیزوں کی شریعت محمد یہ میں اجازت نہیں ہے۔ شریعت کے مطابق زندگی گزاریں، حرام مال نہ کمائیں، شریعت کے مطابق لباس پہنیں، اسراف (فضول خرچی) اور ریا کاری خود نمائی نہ ہو، کھانے پینے میں حلال و حرام کا خیال ہو کسی کا حق نہ دبائیں کسی طرح کی خیانت نہ کریں اگر کوئی شخص شریعت کے مطابق اچھا لباس پہن لے تو اس کی گنجائش ہے۔ رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے : کلوا و اشرابوا وتصدقوا مالم یخالط اسراف ولا مخیلة۔ (مشکوۃ المصابیح ص 377) یعنی کھاؤ اور پیو اور صدقہ کرو اور پہنو جب تک کہ اس میں اسراف (فضول خرچی) اور شیخی بگھا رنانہ ہو۔ اگر کوئی شخص سادگی اختیار کرے معمولی لباس پہنے تو یہ بھی درست ہے رسول اللہ ﷺ کو سادگی پسند تھی، عموماً آپ کا یہی عمل تھا۔ ایک حدیث میں ارشاد ہے کہ جس نے قدرت ہوتے ہوئے خوبصورتی کا کپڑا تواضع کی وجہ سے پہننا چھوڑا۔ اللہ تعالیٰ اسے کرامت کا جوڑا پہنائے گا اور جس نے اللہ کے لئے نکاح کیا اللہ تعالیٰ اسے شاہانہ تاج پہنائے گا۔ (مشکوٰۃ صفحہ 377) واضح رہے کہ سادہ کپڑے لوگوں سے سوال کرنے کے لئے یا بزرگی اور درویشی کا رنگ جمانے کے لئے نہ ہوں اور اس کو طلب دنیا کا ذریعہ بنانا مقصود نہ ہو۔ مومن بندہ فرض اور نفل نماز پڑھے فرض اور نفل روزے رکھے راتوں کو کھڑے ہو کر نفلی نمازیں پڑھے۔ یہ چیزیں رہبانیت میں نہیں آتی ہیں۔ حضرت انس ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ تم اپنی جانوں پر سختی نہ کرو ورنہ اللہ تعالیٰ بھی سختی فرمائے گا، ایک جماعت نے اپنی جانوں پر سختی کی اللہ تعالیٰ نے بھی ان پر سختی فرما دی۔ یہ انہیں لوگوں کے بقایا ہیں جو گرجوں میں موجود ہیں۔ پھر آپ نے یہ آیت تلاوت فرمائی ﴿ رَهْبَانِيَّةَ ا۟بْتَدَعُوْهَا مَا كَتَبْنٰهَا عَلَيْهِمْ ﴾ (رواہ ابودؤد صفحہ 316: ج 2) حضرت انس ؓ سے روایت ہے کہ تین شخص رسول اللہ ﷺ کی ازواج مطہرات کی خدمت میں حاضر ہوئے ان کا مقصد یہ تھا کہ رسول اللہ ﷺ کی اندرون خانہ عبادت کے بارے میں معلومات حاصل کریں جب ان کو آپ کی عبادت کے بارے میں باخبر کردیا گیا تو انہوں نے اسے کم سمجھا ان کے دلوں میں یہ بات آئی کہ ہم کہاں اور رسول اللہ ﷺ کہاں آپ کا تو اللہ تعالیٰ نے اگلا پچھلا سب معاف کردیا یہ تھوڑی عبادت آپ کے لئے کافی ہوسکتی ہے ہمیں تو بہت زیادہ ہی عبادت کرنی چاہئے پھر ان میں سے ایک نے کہا میں تو ہمیشہ راتوں رات نماز پڑھوں گا، دوسرے نے کہا میں ہمیشہ روزہ رکھوں گا بےروزہ نہ ہوں گا تیسرے نے کہا کہ میں عورتوں سے علیحدہ رہوں گا کبھی نکاح نہیں کروں گا، یہ باتیں ہو ہی رہی تھیں کہ رسول اللہ ﷺ تشریف لے آئے آپ نے فرمایا کیا تم لوگوں نے ایسا ایسا کہا ہے ؟ اللہ کی قسم میں تم میں سب سے زیادہ اللہ سے ڈرنے والا ہوں اور تم سب سے بڑھ کر متقی ہوں لیکن میں (نفلی) روزے بھی رکھتا ہوں بےروزہ بھی رہتا ہوں، رات کو نماز بھی پڑھتا ہوں سوتا بھی ہوں اور عورتوں سے نکاح بھی کرتا ہوں، سو جو شخص میری سنت سے ہٹے وہ مجھ میں سے نہیں ہے۔ (رواہ البخاری صفحہ 758: ج 2) یاد رہے کہ شریعت محمد یہ کے آسان ہونے کا مطلب یہ ہے کہ عمل کرنے والے اس پر عمل کرسکتے ہیں، یہ مطلب نہیں ہے کہ نفس کی خواہش کے مطابق جو چاہو کرلو۔ اگر ایسا ہوتا تو شریعت میں حلال و حرام کی تفصیلات ہی نہ ہوتیں، نہ نماز فرض ہوتی، نہ گرمی کے زمانوں میں رمضان کے روزہ رکھنے کا حکم ہوتا، نہ جہاد کا حکم ہوتا نہ حج کا، خوب سمجھ لیں، شریعت اسلامیہ کے آسان ہونے کا مطلب جو ملحدین نے نکالا ہے کہ جو چاہو کرلو یہ ان کی گمراہی ہے۔ حضرت ابو امامہ ؓ نے بیان کیا کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ جہاد کی ایک جماعت میں نکلے وہاں راستہ میں ایک غار پر گزر ہوا وہاں پانی تھا اور سبزی تھی ایک شخص کے دل میں یہ بات آئی کہ وہیں ٹھہر جائے اور دنیا سے علیحدہ ہو کر زندگی گزارے، اس نے اس بارے میں رسول اللہ ﷺ سے اجازت چاہی، آپ نے فرمایا بیشک میں یہودیت اور نصرانیت لے کر نہیں بھیجا گیا لیکن میں ایسی شریعت لے کر بھیجا گیا ہوں جو بالکل سیدھی ہے اور آسان ہے قسم اس ذات کی جس کے قبضے میں محمد کی جان ہے ایک صبح یا ایک شام کو اللہ کی راہ میں چلا جانا، دنیا اور دنیا میں جو کچھ ہے اس سب سے افضل ہے اور جہاد کی صف میں تمہارا کھڑا ہوجانا ساٹھ سال کی نماز سے افضل ہے۔ (رواہ احمد کمافی مشکوٰۃ المصابیح صفحہ 334) دیکھو اپنی شریعت کو آسان بھی بتایا اور ساتھ ہی جہاد کی صف میں کھڑا ہونے کی فضیلت بیان فرما دی۔ شریعت اسلامیہ میں اعتدال ہے، نہ دنیا داری ہے، نہ ترک دنیا ہے۔ شریعت کے مطابق حلال چیز سے استفادہ کرنا حلال ہے۔ خبائث اور انجاس سے پرہیز کریں تواضع مامور بہ ہے سادگی مرغوب ہے۔
Top