Anwar-ul-Bayan - Al-Humaza : 4
كَلَّا لَیُنْۢبَذَنَّ فِی الْحُطَمَةِ٘ۖ
كَلَّا : ہرگز نہیں لَيُنْۢبَذَنَّ : ضرور ڈالا جائے گا فِي : میں الْحُطَمَةِ : حطمہ
ہر گز نہیں وہ ضرور حطمہ میں ڈالا جائے گا
(104:4) کلا۔ حرف ردع و زجر ہے شخص مذکور کے حسبان باطل سے باز داشت کے لئے۔ علامہ آلوسی رقمطراز ہیں :۔ انا لا اریٰ بأسا فی کون ذلک ردعا لہ عن کل ما تضمنۃ الجمل السابقۃ من الصفات القبیحۃ۔ میرے نزدیک اس میں کوئی حرج نہیں کہ گذشتہ جملوں میں اس شخص کی جو صفات قبیحہ بیان ہوئی ہیں (مثلاً اس کے ہمزہ۔ لمزہ ہونے کی حیثیت سے کرتوتیں۔ اس کی ذخیرہ اندوزی، اس کی ماں کی محبت اور طول آرزو وغیرہ ان سب سے باز داشت کے لئے کلا آیا ہے۔ مطلب یہ کہ ایسا ہرگز نہیں جیسا کہ وہ سوچ رہا ہے یا خیال کر رہا ہے اس کے اعمال کی حشر کے دن باز پرس ہوگی اور اپنے افعال شنیعہ کی سزا اس کو ضرور ملے گی یہ عذاب کسی صورت میں ہوگا اس کی تفصیل آگے آرہی ہے۔ لینبذن۔ قسم مقدر کا جواب ہے ۔ اور لام قسم مقدر کے جواب کے لئے۔ ینبذن۔ مضارع مجہول واحد مذکر غائب تاکید بانون ثقیلہ۔ نبذ (باب نصر) مصدر۔ وہ ضروری پھینکا جاوے گا۔ الحطمۃ۔ اس کے اصل معنی ہیں کسی چیز کو توڑنا۔ ریزہ ریزہ کرنا اور روندنے پر حطم کا لفظ بولا جاتا ہے۔ جیسے کہ قرآن مجید میں اور جگہ آیا ہے :۔ لا یحطمنکم سلیمن و جنودہ (27:18) ایسا نہ ہو کہ سلیمان اور اس کا لشکر تم کو روند ڈالیں۔ کہا جاتا ہے کہ حطمتہ فانحطم میں نے اسے توڑا چناچہ وہ چیز ٹوٹ گئی تشبیہ کے طور پر بہت زیادہ کھانے والے کو حطمۃ کہا جاتا ہے ۔ دوزخ کو بھی حطمۃ کہتے ہیں کیونکہ دوزخ میں جو چیز بھی ڈالی جائے گی تو اس کی آگ اسے توڑ موڑ دے گی اسی وجہ سے اس کا نام حطمۃ ہوا۔ بہت زیادہ کھانے کے متعلق قرآن مجید میں آیا ہے :۔ یوم نقول لجھنم ہل امتلئت وتقول ہل من مزید (50:30) اس روز ہم جہنم سے پوچھیں گے کہ کیا تو پھر گئی ؟ وہ کہے گی کچھ اور بھی ہے ؟
Top