کَلاَّ لَـیُنْبَذَنَّ فِی الْحُطَمَۃِ ۔ (الہمزۃ : 4)
(ہرگز نہیں ! وہ چور چور کردینے والی میں پھینک دیا جائے گا۔ )
بخیلوں کو تنبیہ
لَـیُنْبَذَنّ … نبذ سے ہے۔ کسی چیز کو حقیر اور بےقیمت سمجھ کر پھینک دینے کے لیے بولا جاتا ہے۔ کافر چونکہ یہ گمان کرتا ہے کہ مال و دولت نے اسے عمردوام عطا کردی اور اس کے اندر صفت خلود پیدا کردی ہے۔ اسی وجہ سے وہ اپنے آپ کو دوسروں سے برتر اور بیش قیمت سمجھتا ہے۔ اس کے اس تصور پر چوٹ لگاتے ہوئے ارشاد فرمایا گیا ہے کہ اسے اس طرح پھینک دیا جائے گا جس طرح بےقیمت چیز کو بوجھ سمجھ کر پھینک دیا جاتا ہے۔
حُطَمَۃِ ، حَطَمَکے مادہ سے ہے جس کے معنی چور چور کردینے کے ہیں۔ اس کے اندر مبالغہ کا معنی پایا جاتا ہے۔ یہ جہنم کی آگ ہے یا کوئی خاص وادی ہے کہ جو اتنی گہری ہے اور اس کی آگ اتنی شدید ہے کہ جو چیز بھی اس میں اوپر سے پھینکی جاتی ہے اسے وہ توڑ پھوڑ کر رکھ دیتی ہے۔ ایسے مالدار لوگ جو مال و دولت کے گھمنڈ میں اپنے تئیں دوسروں سے بالاتر اور بیش قیمت سمجھتے تھے انھیں اس وادی میں پھینکا جائے گا۔ جو انھیں بھی اور ان کے مال و دولت کو بھی چور چور کر کے رکھ دے گی۔ اس لفظ میں توہین اور خفت کا پہلو بھی ہے، اور عذاب کی شدت کا بھی۔ اور یہ آگ اور یہ جگہ بخیل مالداروں کے لیے اس لیے منتخب کی گئی ہے کہ آنحضرت ﷺ کے زمانے میں بخیل سرمایہ دار اپنی دولت سونے چاندی کی اینٹوں، زیورات، ظروف اور جواہرات وغیرہ کی شکل میں محفوظ کرتے تھے۔ ایسی دولت کا انجام یہی ہونا چاہیے تھا کہ اسے جلا کر اور چور چور کرکے پراگندہ کردیا جائے اور ان کے مالک جو اپنے تئیں حیاتِ جاوداں کا حامل سمجھتے تھے وہ بھی اس ہولناک عذاب کی نذر کردیئے جاتے۔