Urwatul-Wusqaa - Al-Humaza : 4
كَلَّا لَیُنْۢبَذَنَّ فِی الْحُطَمَةِ٘ۖ
كَلَّا : ہرگز نہیں لَيُنْۢبَذَنَّ : ضرور ڈالا جائے گا فِي : میں الْحُطَمَةِ : حطمہ
ہرگز نہیں ، وہ یقینا (اپنے مال سمیت) حطمہ [ میں پھینک دیا جائے گا
ہرگز نہیں وہ یقینا حطمہ میں پھینک دیا جائے گا 4 ؎ (ینبدن) کا اصل ماد ہ ن ب ذ ہے ۔ واحد مذکر غائب مضارع مجہول یا نون تاکید ثقیلہ نبذ مصدر اس کو ضروری پھینکا جائے گا ( حطمۃ) روندنے والی ۔ حطم سے مشتق ہے اور دوزخ کے ایک طبقہ کا نام ہے یعنی ضرور اس کو ( حطمۃ) میں پھینکا جائے گا ۔ مطلب یہ ہے کہ حسد و بخل کا مجسمہ ایک دن اسی طرح حسد و بخل کی آگ میں جلتا ہوا دنیا کا سب مال و دولت اور جھوٹی عزت چھوڑ چھاڑ اگلے جہان میں اپنے اعمال کے نتائج بھگت رہا ہوگا اور وہاں اپنے آپ کو وہ اس دوزخ میں پائے گا جس کا نام ( حطمۃ) بھی ہے۔ گویا ایسے ننگ انسانیت کو دوزخ میں پھینکنے کا ذکر کرتے وقت ایسا لفظ استعمال ہوا جو اس مفہوم کو ادا کرنے کے ساتھ ساتھ اس کی تحقیر و تذلیل کی طرف بھی اشارہ کر رہا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ آج یہ لوگ اپنے اپ کو باپ دادا والے سمجھتے ہیں اور برادری اور خاندان کے نشہ میں مست ہیں اور اپنے آپ کو رئیس ، بڑے رئیس اور سردار تصور کرتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ ہم رانی خاں کے سالے ہیں اور اس طرح معاشرے میں ان کو جو اہمیت حاصل ہے دولت کی کثرت کے باعث لوگوں کے دلوں پر ان کا رعب بیٹھا ہوا ہے اس لیے یہ اپنے آپ کو اس طرح سمجھنے لگے ہیں لیکن یہ خوب کان کھول کر سن لیں کہ اللہ رب ذوالجلال والاکرام کے نزدیک یہ لوگ پھٹی پرانی جوتی سے بھی زیادہ حقیر ہیں اس لیے ان کو اوپلے اور ایندھن کے طور پر دوزخ میں پھینک دیا جائے گا جو آن واحد میں ان کو پیس کر رکھ دے گی اور ان کے پرخچے اڑا دے گی اور پوچھنے والے ان سے پوچھیں گے کہ : ( ذوق انک انت العزیز الکریم) (44 : 49)
Top