Anwar-ul-Bayan - Al-Insaan : 11
فَوَقٰىهُمُ اللّٰهُ شَرَّ ذٰلِكَ الْیَوْمِ وَ لَقّٰىهُمْ نَضْرَةً وَّ سُرُوْرًاۚ
فَوَقٰىهُمُ : پس انہیں بچالیا اللّٰهُ : اللہ نے شَرَّ : بُرائی ذٰلِكَ الْيَوْمِ : اس دن وَلَقّٰىهُمْ : اور انہیں عطا کی نَضْرَةً : تازگی وَّسُرُوْرًا : اور خوش دلی
تو خدا انکو اس دن کی سختی سے بچا لے گا
(76:11) فوقھم اللہ :سببیہ ہے۔ وقی (وہ بچالے گا) ماضی کا صیغہ واحد مذکر غائب ۔ وقایۃ (باب ضرب) مصدر۔ وقی مادہ۔ یہاں اگرچہ فعل ماضی کا صیغہ استعمال ہوا ہے اور واقعہ کا تعلق مستقبل سے ہے : مستقبل کی تعبیر ماضی کے صیغہ سے اس لئے کردی ہے کہ گویا ایسا ہو ہی گیا۔ ہم ضمیر مفعول جمع مذکر غائب کا مرجع الابرار ہے۔ جن کا اوپر ذکر چلا آرہا ہے۔ مطلب یہ کہ :۔ بہ سبب اس کے کہ وہ اپنی منتیں پوری کرتے ہیں اور مسکینوں ، یتیموں اور اسیروں کو خدا کی رضا کی خاطر اور روز قیامت کی سختی کے خوف سے کھانا کھلاتے ہیں اور ان سے کسی شکر گزاری اور اجر کی خواہش نہیں رکھتے اللہ ان کے روز قیامت کے شر سے بچالے گا۔ شر ذلک الیوم : ذلک اسم اشارہ الیوم مشار الیہ دونوں مل کر شر مضاف کا مضاف الیہ۔ اس دن کے شر سے۔ جملہ فعل وقی کا مفعول ہے۔ شر سے مراد اس دن کی سختیاں ۔ ولقہم نضرۃ وسرورا۔ واؤ عاطفہ لقی ماضی (بمعنی مستقبل) واحد مذکر غائب قلقیۃ (تفعیل) مصدر۔ ہم ضمیر مفعول جمع مذکر غائب۔ اور ان کو عطا کرے گا۔ اصل میں لقی کا مطلب ہے کسی کی طرف کسی چیز کو پھینکنا۔ جیسے قرآن مجید میں ہے :۔ کلما القی فیہا فوج (67:8) جب بھی اس میں کوئی جتھا پھینکا جائے گا اس لئے تلقیۃ کا مطلب ہے پھینکنا۔ لیکن اللہ کی طرف سے تلقیۃ کا مطلب ہے وحی، عطائ۔ نضرۃ اسم منصوب۔ تروتازگی۔ رونق (چہرہ کی) چناچہ دوسری جگہ قرآن مجید میں ہے :۔ وجوہ یومئذ ناضرۃ (75:22) کئی چہرے اس دن تروتازہ ہوں گے۔ لقی کا مفعول ثانی۔ سرورا۔ خوشی۔ جو خوشی کہ اندر چھپ رہی ہو اس کا نام سرور ہے۔ لقی کا مفعول سوم ہے۔ اس آیت سے لے کر آیت 21 تک ان انعامات کا ذکر ہے جو اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو عالم آخرت میں عطا فرمائے گا۔
Top