Tafseer-e-Usmani - Al-A'raaf : 136
فَانْتَقَمْنَا مِنْهُمْ فَاَغْرَقْنٰهُمْ فِی الْیَمِّ بِاَنَّهُمْ كَذَّبُوْا بِاٰیٰتِنَا وَ كَانُوْا عَنْهَا غٰفِلِیْنَ
فَانْتَقَمْنَا : پھر ہم نے انتقام لیا مِنْهُمْ : ان سے فَاَغْرَقْنٰهُمْ : پس انہیں غرق کردیا فِي الْيَمِّ : دریا میں بِاَنَّهُمْ : کیونکہ انہوں نے كَذَّبُوْا : جھٹلایا بِاٰيٰتِنَا : ہماری آیتوں کو وَكَانُوْا : اور وہ تھے عَنْهَا : ان سے غٰفِلِيْنَ : غافل (جمع)
پھر ہم نے بدلہ لیا ان سے سو ڈبو دیا ہم نے ان کو دریا میں اس وجہ سے کہ انہوں نے جھٹلایا ہماری آیتوں کو اور ان سے تغافل کرتے تھے1
1 " رجز " بعض مفسرین کے نزدیک طاعون مراد ہے جیسا کہ بعض احادیث میں یہ لفظ طاعون پر اطلاق کیا گیا ہے لیکن اکثر مفسرین ان آیات کو پچھلی آیات ہی کا بیان قرار دیتے ہیں موضح القرآن میں ہے کہ " یہ سب بلائیں ان پر آئیں ایک ہفتہ کے فرق سے۔ اول حضرت موسیٰ فرعون کو کہہ آتے کہ اللہ تم پر یہ بلا بھیجے گا، وہ ہی بلا آتی۔ پھر مضطر ہوتے، حضرت موسیٰ کی خوشامد کرتے، ان کی دعاء سے دفع ہوتی، پھر منکر ہوجاتے، آخر کو وبا پڑی۔ نصف شب کو سارے شہر میں ہر شخص کا پہلا بیٹا مرگیا، وہ لگے مردوں کے غم میں، حضرت موسیٰ اپنی قوم کو لے کر شہر سے نکل گئے پھر کئی روز کے بعد فرعون پیچھے لگا۔ دریائے قلزم پر جا پکڑا۔ وہاں یہ قوم سلامت گزر گئی اور فرعون ساری فوج سمیت غرق ہوا۔
Top