Tafseer-e-Majidi - Al-A'raaf : 136
فَانْتَقَمْنَا مِنْهُمْ فَاَغْرَقْنٰهُمْ فِی الْیَمِّ بِاَنَّهُمْ كَذَّبُوْا بِاٰیٰتِنَا وَ كَانُوْا عَنْهَا غٰفِلِیْنَ
فَانْتَقَمْنَا : پھر ہم نے انتقام لیا مِنْهُمْ : ان سے فَاَغْرَقْنٰهُمْ : پس انہیں غرق کردیا فِي الْيَمِّ : دریا میں بِاَنَّهُمْ : کیونکہ انہوں نے كَذَّبُوْا : جھٹلایا بِاٰيٰتِنَا : ہماری آیتوں کو وَكَانُوْا : اور وہ تھے عَنْهَا : ان سے غٰفِلِيْنَ : غافل (جمع)
غرض ہم نے انہی سزا دے دی اور انہیں سمندر میں ڈبودیا اس لیے کہ وہ ہماری آیتوں کو جھٹلاتے تھے اور ان کی طرف سے (بالکل ہی) غفلت میں پڑے رہتے تھے،176 ۔
176 ۔ غرق فرعون پر مفصل حاشیہ سورة بقرہ پارۂ اول رکوع 6 کی تفسیر میں گزر چکے۔ (آیت) ” انتقمنا “۔ انتقام کے معنی محاورۂ عرب میں عذاب سے کسی نعمت کو سلب کرلینے کے ہیں۔ الانتقام فی اللغۃ سلب النعمۃ بالعذاب (کبیر) (آیت) ” فاغرقنھم فی الیم “۔ مرشدتھانوی (رح) نے فرمایا کہ عقوبت دنیوی کبھی معصیت پر بھی مرتب ہوجاتی ہے۔ (آیت) ” بانھم کذبوا بایتنا وکانوا عنھا غفلین “۔ اس میں تصریح کردی کہ سزا کی بناء ان لوگوں کی تکذیب آیات الہی اور ان کی طرف سے اعراض تھا۔ (آیت) ” عنھا “۔ میں ضمیر ایات کی طرف بھی ہوسکتی ہے۔ اور نقمت کی طرف بھی (آیت) ” فانتقمنا “ َ کا مدلول ہے۔ الکنایۃ عائدۃ الی الایات وھو اخیتار الزجاج (کبیر) قیل انھا عائدۃ الی النقمۃ (کبیر) (آیت) ” غفلین “۔ غفلت سے یہاں وہ کیفیت قلب مراد نہیں جو انسان کے اختیار کے باہر ہے بلکہ اعراض اختیاری مراد ہے۔ المراد بالغفلۃ ھنا الاعراض الایات وعدم الالتفات الیھا فھم اعرضوا عنھا حتی صاروا کا لغافلین (کبیر) فانتقمنا میںاس پر دلالت کررہی ہے کہ یہ سزا انہیں مسلسل گستاخانہ عہد شکنیوں کے بعد دی گئی۔
Top