Dure-Mansoor - Al-A'raaf : 136
فَانْتَقَمْنَا مِنْهُمْ فَاَغْرَقْنٰهُمْ فِی الْیَمِّ بِاَنَّهُمْ كَذَّبُوْا بِاٰیٰتِنَا وَ كَانُوْا عَنْهَا غٰفِلِیْنَ
فَانْتَقَمْنَا : پھر ہم نے انتقام لیا مِنْهُمْ : ان سے فَاَغْرَقْنٰهُمْ : پس انہیں غرق کردیا فِي الْيَمِّ : دریا میں بِاَنَّهُمْ : کیونکہ انہوں نے كَذَّبُوْا : جھٹلایا بِاٰيٰتِنَا : ہماری آیتوں کو وَكَانُوْا : اور وہ تھے عَنْهَا : ان سے غٰفِلِيْنَ : غافل (جمع)
پھر ہم نے ان سے انتقام لے لیا سو ان کو اس سبب سے کہ انہوں نے ہماری آیات کو جھٹلایا سمندر میں غرق کردیا، اور وہ ان سے غافل تھے
(1) امام ابو الشیخ نے ضحاک (رح) سے روایت کیا کہ انہوں نے اس آیت کے بارے میں فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے اس کے بعد ان سے انتقام کیا اور ان کو سمندر میں غرق کردیا۔ (2) امام ابن ابی حاتم نے چند طریق سے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ ” الیم “ سے مراد ہے سمندر۔ (3) امام ابن ابی حاتم نے سدی (رح) سے روایت کیا کہ ” الیم “ سے مراد ہے سمندر۔ قولہ تعالیٰ : واوثنا القوم الذین کانوا یستضعفون مشارق الارض ومغاربھا التی برکنا فیہا : (4) امام عبد الرزاق، عبد بن حمید، ابن جریر، ابن منذر، ابن ابی حاتم ابو الشیخ اور ابن عساکر نے حسن (رح) سے روایت کیا کہ انہوں نے لفظ آیت ” مشارق الارض ومغاربھا “ کے بارے میں فرمایا کہ اس سے شام کی زمین مراد ہے۔ (5) امام عبد الرزاق، عبد بن حمید، ابن جریر، ابن منذر، ابن ابی حاتم، ابو الشیخ اور ابن عساکر نے قتادہ (رح) سے روایت کیا کہ انہوں نے لفظ آیت ” ومغاربھا التی برکنا فیہا “ کے بارے میں فرمایا کہ اس سے مراد شام کی زمین ہے۔ (6) امام ابو الشیخ نے عبد اللہ بن شوذب (رح) سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” مشارق الارض ومغاربھا “ سے مراد فلسطین ہے (7) امام ابن عساکر نے زید بن اسلم (رح) سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” التی برکنا فیہا “ سے شام کی بستیاں مراد ہیں۔ (8) امام ابن عساکر نے کعب احبار ؓ سے روایت کیا کہ اللہ تعالیٰ نے شام میں برکت رکھی ہے فرات سے عریش تک۔ (9) امام ابن عساکر نے ابو الاغبش (رح) سے روایت کیا کہ انہوں نے نبی ﷺ کے اصحاب کو پایا ہے کہ ان سے برکت کے بارے میں پوچھا گیا جو شام میں رکھی گئی اس کی حد کہاں تک پہنچنے والی ہے۔ تو فرمایا اس کی پہلی حد عریش مصر ہے۔ اور دوسری حد ثنیۃ کا کنارہ ہے۔ اور تیسری حد فرات ہے۔ اور چوتھی حد وہ ہے کہ اس میں ہود (علیہ السلام) کی قبر بنائی گئی ہے۔ (10) امام ابن عساکر نے معاویہ بن ابی سفیان ؓ سے روایت کیا کہ بلاشبہ رب تیرے نے ابراہیم کو فرمایا آباد کرو عریش سے فرات تک مبارک زمین کو اور یہ پہلے آدمی تھے جنہوں نے ختنہ کیا اور مہمان نوازی کی۔ (11) امام ابن عساکر نے وھب بن منبہ (رح) سے روایت کیا کہ ابراہیم خلیل (علیہ السلام) کے ایک غلام نے دمشق کو بنایا اور یہ حبشی تھا جس کو نمرود بن کنعنان نے ہبہ کیا تھا جب ابراہیم (علیہ السلام) آگ سے نکلے تھے اس غلام کا نام دمشق تھا تو اس شہر کا نام اس کے نام پر رکھا تھا اور ابراہیم نے ہر چیز کا اس کو اختیار دے رکھا تھا اور اس کے بعد ایک طویل زمانہ تک رومی اس میں ساکن رہے۔ (12) امام ابن عساکر نے عبد الملک جزری (رح) سے روایت کیا کہ جب دنیا مصیبت اور قحط میں مبتلا تھی تو شام کے رہنے والے خوشحالی اور عافیت میں تھے۔ اور جب شام تنگی اور قحط میں مبتلا تھا تو فلسطین میں خوشحالی اور عافیت تھی۔ اور جب فلسطین میں مصیبت اور قحط تھا تو بیت المقدس خوشحالی اور عافیت میں تھا۔ اور فرمایا شام میں برکت رکھی گئی ہے اور فلسطین مقدس (جگہ) ہے اور بیت المقدس کو ہزار بار پاکیزہ اور متبرک بنایا گیا۔ (13) امام ابن عساکر نے عبد الرحمن بن یزید بن جابر (رح) سے روایت کیا کہ میں نے ابو سلام اسود (رح) سے کہا آپ تمص سے دمشق کی طرف کیوں منتقل ہوئے ؟ انہوں نے فرمایا مجھ کو یہ بات پہنچی ہے کہ وہاں برکت دگنا ہوجاتی ہے۔ (14) امام ابن عساکر نے مکحول (رح) سے روایت کیا کہ انہوں نے ایک آدمی سے پوچھا کہ تو کہاں رہتا ہے اس نے کہا غوطہ میں مکحول نے اس سے فرمایا تجھے کس چیز نے دمشق میں رہنے سے روکا ؟ کیونکہ اس میں کئی گنا برکت رکھی گئی ہے۔ (15) امام ابن عساکر نے کعب ؓ سے روایت کیا کہ تورات میں لکھا ہوا ہے کہ شام اللہ عزوجل کا خزانہ ہے اس زمین میں سے کہ جس کے ذریعہ اللہ نے خزانہ کیا ہوا ہے اپنے بندوں کو یعنی وہاں انبیاء کی قبریں ہیں ابراہیم اسحاق اور یعقوب (علیہ السلام) کی۔ (16) امام ابن عساکر نے شابت بن معبد (رح) سے روایت کیا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا اے شام تو بہتر اور اچھی سرزمین ہے میرے شہروں میں سے میں تجھ میں اپنے بندوں میں سے افضل اور بہتر افراد کو تجھ میں ٹھہراؤں گا۔ اہل شام کے لئے بشارت (17) امام ابن ابی شیبہ، احمد، ترمذی، رویانی سے مسند میں، ابن حبان، طبرانی، حاکم نے (اور آپ نے اس کو صحیح بھی کہا) زید بن ثابت ؓ سے روایت کیا کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے اردگرد تھے اور ہم قرآن کو لکھد ہے تھے کاغذ کے ٹکڑوں پر اچانک آپ نے فرمایا خوشخبری ہے شام کے لئے کہا گیا کس لئے فرمایا رحمن کے فرشتے اپنے پروں کو اس پر پھیلائے ہوئے ہیں وہاں کے رہنے والوں پر۔ (18) بزار اور طبرانی نے سند حسن کے ساتھ ابو درداء ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا عنقریب تم کئی لشکر اکھٹے کرو گے۔ ایک لشکر شام، مصر، عراق اور یمن سے ہوگا ہم نے عرض کیا ہمارے لئے چن دیجئے کہ ہم کس ملک میں رہیں یا رسول اللہ آپ نے فرمایا تم لازم پکڑ و شام کو کیونکہ اللہ تعالیٰ نے مجھے شام کی ضمانت عطا فرمائی ہے۔ (19) امام بزار اور طبرانی نے سند ضعیف کے ساتھ ابن عمر ؓ سے روایت کیا کہ نبی ﷺ نے فرمایا عنقریب کئی لشکر بناؤ گے۔ ایک آدمی نے کہا یا رسول اللہ میرے لئے چن دیجئے (کہ میں کس ملک میں رہوں) آپ نے فرمایا شام کو لازم پکڑو کیونکہ اس کو اللہ تعالیٰ نے اپنے شوہروں میں سے چن لیا ہے۔ اس میں اللہ تعالیٰ کے بہترین بندے رہتے ہیں۔ جو شخص اس سے بےرغبت ہوجائے تو اس کو نجد کے ساتھ ملا دیا جائے بلاشبہ اللہ تعالیٰ نے مجھے شام اور اس کے رہنے والوں کی ضمانت عطا فرمائی ہے۔ (20) امام احمد اور ابن عساکر نے عبد اللہ بن حوالہ ازدی ؓ سے روایت کیا کہ انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہ میرے لئے ایک شہر چن دیجئے کہ میں اس میں رہوں آپ نے فرمایا لازم پکڑو تو شام کو اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں اے شام ! تو میرے شہروں میں سے بہترین جفہ ہے اس کی زمین میں سے اور وہ اس کے لئے بندوں میں سے بہترین بندوں کو چنتا ہے۔ اگر تم انکار کرو تو پھر یمن کو لازم پکڑ لو۔ بلاشبہ اللہ تعالیٰ نے مجھے شام اور اس کے رہنے والوں کی ضمانت دی ہے۔ (21) امام ابن عساکر نے واثلہ بن اسقع ؓ سے روایت کیا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا اور لازم پکڑ لو تم شام کو کیونکہ وہ سر زمین ہے اللہ تعالیٰ کے کے شہروں میں سے چنی ہوئی ہے اس میں اس کے بندوں میں سے بہترین بندے رہتے ہیں جو شخص انکار کرے تو اس کو چاہئے کہ یمن میں رہے اور اس کی نہروں سے سیراب ہو۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے مجھے شام اور اہل شام کی ضمانت دی ہے۔ (22) امام احمد، ابو داؤد، ابن حبان اور حاکم نے عبد اللہ بن حوالہ ازدی سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا بیشک تم عنقریب کئی لشکر شام روانہ کرو گے ایک لشکر عراق کے لئے اور ایک لشکر یمن کی طرف والی نے کہا میرے لئے چن دیجئے یا رسول اللہ (کہ میں کس شہر میں رہوں) آپ نے فرمایا تم لازم پکڑو شام کو پس جو شخص انکار کرے تو اس کو چاہئے کہ وہ یمن چلا جائے اور اس کی نہروں سے سیراب ہو۔ بلاشبہ اللہ تعالیٰ نے مجھے شام اور شام کے رہنے والوں کی ضمانت دی ہے۔ (23) امام حاکم نے (اور آپ نے اس کو صحیح بھی کہا ہے) عبد اللہ بن عمرو ؓ سے روایت کیا کہ ایسا زمانہ لوگوں پر آئے گا کہ کوئی مومن نہیں بچے گا کہ وہ شام سے نہ مل جائے۔ ملک شام کے متعلق روایت (24) امام ابن عساکر نے عون بن عبد اللہ بن رتبہ ؓ سے روایت کیا کہ میں نے ان چیزوں میں سے پڑھا جو اللہ تعالیٰ نے بعض انبیاء پر نازل فرمایا۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں شام میری ترکش ہے۔ جب میں کسی قوم پر غصہ ہوتا ہوں تو میں اس میں سے ایک تیر اس میں سے پھینکتا ہوں۔ (25) امام ابن عساکر اور طبرانی نے ابو درداء ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا میرے بعد عنقریب میری امت کے لئے شام کو بڑی جلدی فتح کردیا جائے گا سو جب وہ اس کو فتح کریں گے اور اس میں اتر جائیں گے تو اہل شام جزیرہ کی انتہاء میں مسلسل رہنے لگیں گے۔ پس جو شخص ان سواحل میں سے کسی ساحل پر اترے گا تو وہ جہاد میں ہوگا اور جو شخص بیت المقدس اور اس کے اردگرد میں اترے گا تو وہ رباط (چھاؤنی) میں ہوگا۔ (26) امام ابن ابی شیبہ، ترمذی، ابن ماجہ اور ابن عساکر نے (امام احمد نے اس کو صحیح بھی کہا ہے) قرہ ؓ سے روایت کیا کہ نبی ﷺ نے فرمایا جب شام والوں میں فساد اور بگاڑ آجائے گا تم میں کوئی بھلائی نہیں رہے گی۔ میری امت کے ایک گروہ کی ہمیشہ مدد کی جاتی رہے گی۔ اور جو ان کو ذلیل اور رسوا کرنے کی کوشش کریں گے۔ وہ ان کو نقصان اور ضرور نہیں پہنچا سکیں گے یہاں تک کہ قیامت قائم ہوجائے گی۔ (27) امام ابن عساکر نے ضمرہ بن ربیعہ (رح) سے روایت کیا کہ میں نے یہ بات سنی ہے کہ کوئی نبی نہیں بھیجا گیا مگر شام کی جانب سے اگر شام کی جانب سے نہ ہوا تو اسے اس کی سیر کرائی گئی۔ (28) امام حافظ ابوبکر النجاد نے جزء التراجم میں ابو درداء ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اس درمیان کہ میں سو رہا تھا۔ میں نے اسلام کے ستون کو دیکھا جو اٹھا گیا تھا میرے سر کے نیچے سے میں نے گمان کیا کہ اسے لے جایا جا رہا ہے۔ میں نے اپنی نظر کو اس کی طرف لگایا تو دیکھا کہ اسے شام میں گاڑ دیا گیا۔ خبردار بلاشبہ ایمان شام میں ہوگا جب (دنیا میں) فتنے واقع ہوں گے۔ (29) امام ابن مردویہ نے ابوذر ؓ نے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ شام کی زمین محشر اور منشر ہے یعنی مردوں کو زندہ کرکے اٹھائے جانے کے بعد لوگوں کے جمع ہونے اور پھیلنے کی سرزمین ہے۔ (30) امام ابن ابی شیبہ نے ابو ایوب الانصاری ؓ سے روایت کیا کہ گرج بجلی کی چمک اور برکتیں بہت تیزی سے شام کی طرف جائیں گی۔ (31) امام ابن شیبہ نے قاسم بن عبد الرحمن سے روایت کیا کہ فرات میں طغیانی آئی عبد اللہ کے عہد میں تو لوگوں نے اس کو ناپسند کیا تو اس نے کہا اے لوگو تم اس کے پھیلاؤ کو ناپسند نہ کرو کیونکہ عنقریب اس میں ایک ٹب پانی کا ڈھونڈو گے تو نہ پاؤ گے۔ اور یہ اس وقت ہوگا سارا پانی اپنی اصل کی طرف لوٹ جائے گا اور پانی اور باقی ایمان والے اس دن شام میں ہوں گے۔ (32) امام ابن ابی شیبہ نے کعب ؓ سے روایت کیا کہ شہروں میں سب سے پسندیدہ شہر اللہ تعالیٰ کے نزدیک شام ہے اور شام میں سب سے پسندیدہ (جگہ) القدس ہے اور القدس میں سب سے پسندیدہ (جگہ) نابلس پہاڑ ہے۔ لوگوں پر ایک زمانہ ضرور آئے گا کہ وہ اس پر رسویوں کی طرح آپس میں متحد ہوجائیں گے۔ (33) امام طبرانی اور ابن عساکر نے ابن عمر ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ ابلیس عراق میں داخل ہوا اس میں سے اس نے اپنی حاجت کو پورا کیا پھر شام میں داخل ہوا تو اس کو باہر نکال دیا گیا یہاں تک کہ وہ بیسان پہنچا پھر وہ مصر میں داخل ہوا وہاں اس نے انڈے دئیے اور بچے نکالے اور بڑی عمدگی کے ساتھ سردار بن کے پھلا پھولا (یعنی لوگوں کو خوب بہکایا اور گمراہ کیا) ۔ (34) امام ابن عساکر نے ابن عمر ؓ سے روایت کیا کہ شیطان داخل ہوا مشرق میں اور اس نے اپنی حاجت کو پورا کیا پھر وہ نکلا اور اس نے ارادہ کیا شام کی مقدس زمین کا تو اس کو روک دیا گیا۔ پھر وہ بڑی تیزی کے ساتھ نکلا یہاں تک کہ وہ مغرب میں آیا اور اس نے اپنے انڈے دئیے اور وہاں بڑی قوت اور طاقت کے ساتھ پھیلا۔ (35) امام ابن عساکر نے وھب بن منبہ سے روایت کیا کہ میں بار بار شام کا ذکر پاتا ہوں کتابوں میں یہاں تک کہ یہ گمان ہونے لگتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کو شام کے علاوہ کسی کی حاجت اور ضرورت نہیں۔ ملک شام کے لئے برکت کی دعاء (36) احمد اور ابن عساکر نے ابن عمر ؓ سے روایت کیا کہ نبی ﷺ نے دعا فرمائی اے اللہ برکت دے ہمارے لئے ہمارے شام میں اور ہمارے یمن میں صحابہ نے کہا اور ہمارے نجد میں اور دوسرے لفظ میں اور ہمارے مشرق میں آپ نے فرمایا وہاں زلزلے اور فتنے ہوں گے۔ وہاں سے شیطان کا سینگ ظاہر ہوگا۔ ابن عساکر ؓ سے روایت کیا کہ زیادہ کیا اس میں نو حصے ہیں شر کے دس حصوں میں سے۔ (37) امام ابن عساکر نے ابن عمر ؓ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ خیر کے دس حصے ہیں نو شام میں ہیں اور ایک بقیہ ساری زمین میں اور شر کے دس حصے ہیں ایک شام میں ہے اور بقیہ ساری زمین میں جب شام والے خراب ہوجائیں تو تم میں خیر نہ ہوگی۔ (38) امام طبرانی اور ابن عساکر نے عبد اللہ بن مسعود ؓ سے روایت کیا کہ اللہ تعالیٰ نے خیر کو تقسیم فرمایا اور اس کے دس حصے بنائے۔ نو حصے شام میں رکھ دئیے اور بقیہ ساری زمینوں میں رکھ دیا اور شر کو بھی تقسیم کیا اور اس کے بھی دس حصے بنائے اس کے نو حصے ساری زمین میں رکھ دئیے اور ایک حصہ شام میں رکھ ہے۔ (39) امام ابن عساکر نے کعب احبار ؓ سے روایت کیا کہ ہم نے اس زمین کو اللہ کی کتاب میں گدھ کی صفت پر پایا۔ اس کا سر شام ہے اور دونوں پر مشرق اور مغرب ہیں۔ اور دم یمن ہے اور لوگ برابر خیر میں رہیں گے جب تک سر باقی ہے ہے جب سر اتر جائے گا تو لوگ ہلاک ہوں گے۔ اس ذات کی قسم جس کے قبضہ میں میری جان ہے ضرور آئے گا لوگوں پر ایسا زمانہ کہ عرب کے جزیروں میں سے کوئی جزیرہ باقی نہیں رہے گا ان میں شم کی طرف سے گھوڑ سواروں کی ایک جماعت آئے گی۔ وہ ان کے ساتھ اسلام پر قتال کریں گے اگر وہ نہ ہوتے تو لوگ کافر ہوتے۔ (40) امام ابن عساکر نے ایاس بن معاویہ ؓ سے روایت کیا کہ دنیا کی مشال ایک پرندہ کی صورت پر بیان کی گئی پس مصر اور بصرہ دو پر ہیں اور جزیرہ چونچ ہے۔ اور شام سر ہے اور یمن دم ہے۔ (41) امام ابن عساکر نے وھب بن منبہ (رح) سے روایت کیا کہ زمین کا سر شام ہے۔ (42) امام ابن عساکر نے کعب ؓ سے روایت کیا کہ میں اللہ کی کتاب میں ایک منزل اور حد کو پاتا ہوں وہ یہ کہ زمین کی ویرانی اور فساد شام سے۔ چالیس سال پہلے ہوگی۔ (43) امام ابن عساکر نے بجیر بن سعد (رح) سے روایت کیا کہ زمین کی ویرانی کے بعد شام چالیس سال تک قائم رہے گا۔ (44) امام ابن عساکر نے عبد اللہ بن عمر ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا عنقریب ایک آگ حضرموت کی جانب سے نکلے گی قیامت کے دن سے پہلے جو لوگوں کو اکٹھا کر دے گی۔ ہم نے کہا یا رسول اللہ آپ کیا حکم فرماتے ہیں ؟ فرمایا شام کے (ملک) کو لازم پکڑ لو (یعنی اس میں رہو) ۔ شام کی طرف لوگوں کو ہانکانا (45) امام ابن عساکر نے کعب (رح) سے روایت کیا کہ عنقریب ایک آگ یمن کی طرف سے نکلے گی جو لوگوں کو شام کی طرف ہانکے گی۔ جو صبح سویرے لوگوں کے ساتھ چلے گی جب وہ چلیں گے اور ان کے ساتھ دوپہر کو رک جائے گی جب لوگ دوپہر کا قیلولہ کریں گے اور شام کو ان کے ساتھ چلے گی جب وہ چلیں گے۔ جب تم اس کے بارے میں سنو اور شام کی طرف نکل جاؤ۔ (46) امام تما نے فوائد میں اور ابن عساکر نے عبد اللہ بن عمر و ؓ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ میں نے کتاب کے ستون کو دیکھا ہے جو کھینچ لیا گیا میرے تکیے کے نیچے سے میں نے اپنی آنکھ کو اس کے پیچھے لگایا تو دیکھا اچانک وہ ایک پھیلا ہوا انتہائی روشن نور ہے اور اسے شام کی طرف لے جایا گیا۔ خبردار ایمان ہوگا شام میں جب فتنے واقع ہوں گے (دنیا میں) ۔ (47) امام ابو الشیخ نے لیث بن سعد (رح) سے روایت کیا کہ انہوں نے لفظ آیت ” واورثنا القوم الذین کانوا یستضعفون مشارق الارض ومغاربھا التی برکنا فیہا “ کے بارے میں فرمایا کہ اس سے مصر کی سرزمین مراد ہے اور یہی مبارک زمین ہے۔ اللہ کی کتاب میں۔ (48) امام ابن عبد الحکم نے تاریخ مصر میں محمد ابن الربیع، البحیزی نے ان صحابہ کی سند میں جو مصر میں داخل ہوئے عبد اللہ بن عمر ؓ سے روایت کیا کہ مصر اللہ کی سب سے پاکیزہ زمین ہے مٹی کے لحاظ سے اور بہت دور ہے خراب اور سفاد کے اعتبار سے۔ اور ہمیشہ اس میں برکت رہے گی جب تک کسی میں برکت ہوگی زمینوں میں سے۔ (49) امام ابن عبد الحکم نے عبد اللہ بن عمرو ؓ سے روایت کیا کہ جو شخص (جنت) فردوس کو یاد کرنے کا ارادہ کرے یا اس کی مثل دنیا میں دیکھنا چاہے تو اس کو چاہئے کہ مصر کی زمین کی طرف دیکھے جب اس کی کھیتیاں سرسبز ہوتی ہیں اور اس کے پھل پکے ہوتے ہیں۔ (50) امام ابن عبد الحکم نے کعب احبار ؓ سے روایت کیا کہ جو شخص جنت کے مشابہ کوئی چیز دیکھنا چاہے تو اس کو چاہئے کہ مصر کی زمین کو دیکھ لے۔ جب سرسبز و شاداب ہو۔ (51) امام ابن عبد الحکم نے ابن الھیعہ (رح) سے روایت کیا کہ عمرو بن عاص ؓ فرماتے تھے کہ مصر کی حکومت قائم ہے خلافت کے عدل کے سبب۔ (52) امام ابن عبد الحکم نے عبد اللہ بن عمرو بن عاص ؓ سے روایت کیا کہ دنیا کو پانچ صورتوں پر پیدا کیا گیا پرندے کی صورت پر کہ اس کا سر اور اس کا سینہ اور اس کے بازو اور اس کی دم ہے۔ اس کا سر مکہ مدینہ اور یمن ہے۔ اس کا سینہ شام اور مصر ہے اور دایاں پر عراق ہے اور بایاں پر سندھ اور ہند ہے۔ اور دم ذات الحمام سے لے کر مغرب الشمس تک ہے اور شر پرندے کی دم میں ہے۔ (53) امام ابو نعیم نے حلیہ میں نوف (رح) سے روایت کیا کہ دنیا کو ایک پرندہ کی شکل پر بنایا گیا۔ جب اس کے پر کٹ جائیں تو وہ نیچے گرپڑتا ہے اور زمین کے دو پر مصر اور بصرہ ہیں۔ جب دونوں برباد ہوں گے تو دنیا ختم ہوجائے گی۔ (54) امام ابن ابی شیبہ، عبد بن حمید، ابن منذر، ابن ابی حاتم اور ابو الشیخ نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” وتمت کلمت ربک الحسنی “ سے مراد ہے کہ موسیٰ کی قوم کا فرعون پر غالب آنا اور اللہ تعالیٰ کا انہیں زمین میں قدرت اور اختیار دینا اور وہ چیزیں جس کا اللہ تعالیٰ نے ان کو اس زمین سے وارث بنایا۔ (55) امام ابن ابی حاتم نے ابن وہب کے طریق سے موسیٰ بن علی (رح) سے روایت کیا کہ وہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ بنو اسرائیل فرعون والوں سے چوتھائی تھے اور فرعون چار سو چالیس سال تک ان کا حکمران رہا۔ اور اللہ تعالیٰ نے اسے بنی اسرائیل کے لئے کمزور کردیا۔ اور انہیں آٹھ سو اسی برس تک ولایت عطا کئے رکھی۔ راوی نے کہا پہلی صدیوں میں اگر کوئی آدمی ہزار سال عمر پاتا تھا تو وہ بالغ ہوتا۔ یہاں تک کہ ایک سو بیس سال کی عمر کو پہنچ جاتا۔ (56) امام ابن سعد، عبد بن حمید، ابن منذر، ابن ابی حاتم اور ابو الشیخ نے حسن (رح) سے روایت کیا کہ اگر لوگوں کو اپنے بادشاہ کی طرف سے کسی آزمائش اور تکلیف میں مبتلا کیا جاتا تو وہ صبر کرتے اور اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے تو وہ نہیں ٹھہرتے تھے کہ اللہ تعالیٰ ان سے اسے دور فرما دے۔ بلکہ وہ تلوار کی پناہ لیتے تھے اور اسی پر اعتماد کرتے تھے اللہ کی قسم وہ کسی دن کبھی بھی خیر کے ساتھ نہیں آئے۔ پھر یہ آیت پڑھی لفظ آیت ” وتمت کلمت ربک الحسنی علی بنی اسرائیل، بما صبروا “۔ (57) امام عبد بن حمید اور ابو الشیخ نے حسن (رح) سے روایت کیا کہ انہوں نے اس آیت کے بارے میں فرمایا جو کچھ بنی اسرائیل کو دیا گیا وہ ان کے صبر کے بدلے میں دیا گیا۔ اور اس امت نے خوفزدہ ہو کر کبھی تلوار کی پناہ نہیں لی۔ سو یہ خیر کے ساتھ آئی۔ (58) امام احمد نے زہد میں ابو درداء ؓ سے روایت کیا کہ جب کوئی ایسا معاملہ آجائے جو تیرے لئے قابل برداشت نہ ہو تو صبر کر اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے کشادگی کا انتظار کرو (یعنی دور ہوجانے کا انتظار کر) (59) امام احمد نے بیان بن حکیم (رح) سے روایت کیا کہ ایک آدمی ابو درداء کے پاس آیا اور اس نے ان سے اپنے پڑوسی کی شکایت کی انہوں نے فرمایا صبر کر اللہ تعالیٰ عنقریب تجھ کو اس سے نجات عطا فرمادے گا۔ اس نے دیر نہ کی وہ معاویہ کے پاس آیا انہوں نے اس کو اپنے قریب کیا اور اس کو (بہت کچھ) عطا فرمایا۔ وہ پھر ابو درداء ؓ کے پاس آیا اور ان کو یہ بات بتائی تو انہوں نے فرمایا بلاشبہ یہ تیرے لئے اس صبر کا بدلہ ہے۔ (60) امام ابو الشیخ نے قتادہ (رح) سے روایت کیا کہ انہوں نے لفظ آیت ” ودمرنا ما کان یصنع فرعون وقومہ “ کے بارے میں فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کافروں کو نہیں ڈھیل دیتے مگر تھوڑی سی یہاں تک کہ اس کو ہلاک کردیتے ہیں اس کے اپنے عمل کی وجہ سے۔ (61) امام ابن جریر اور ابن ابی حاتم نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ انہوں نے لفظ آیت ” وما کانوا یعرشون “ کے بارے میں فرمایا کہ اس سے مراد ہے کہ وہ جو عمارتیں بناتے تھے۔ (62) امام ابن ابی شیبہ، عبد بن حمید، ابن جریر، ابن منذر، ابن ابی حاتم اور ابو الشیخ نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” وما کانوا یعرشون “ سے مراد ہے کہ وہ گھر اور رہائش گاہیں انتہائی اونچی اور بلند تعمیر کرتے تھے اور ان کے انگور چھپریوں پر چڑھائے ہوئے نہیں ہوتے تھے۔
Top