Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
177
178
179
180
181
182
183
184
185
186
187
188
189
190
191
192
193
194
195
196
197
198
199
200
201
202
203
204
205
206
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Ruh-ul-Quran - Al-A'raaf : 136
فَانْتَقَمْنَا مِنْهُمْ فَاَغْرَقْنٰهُمْ فِی الْیَمِّ بِاَنَّهُمْ كَذَّبُوْا بِاٰیٰتِنَا وَ كَانُوْا عَنْهَا غٰفِلِیْنَ
فَانْتَقَمْنَا
: پھر ہم نے انتقام لیا
مِنْهُمْ
: ان سے
فَاَغْرَقْنٰهُمْ
: پس انہیں غرق کردیا
فِي الْيَمِّ
: دریا میں
بِاَنَّهُمْ
: کیونکہ انہوں نے
كَذَّبُوْا
: جھٹلایا
بِاٰيٰتِنَا
: ہماری آیتوں کو
وَكَانُوْا
: اور وہ تھے
عَنْهَا
: ان سے
غٰفِلِيْنَ
: غافل (جمع)
اب ہم نے ان سے انتقام لیا اور انھیں سمندر میں غرق کردیا کیونکہ انھوں نے ہماری نشانیوں کو جھٹلایا تھا اور وہ ان سے بےپرواہ ہوگئے تھے۔
فَا نْتَقَمْنَا مِنْھُمْ فَاَغْرَقْنٰہُمْ فِی الْیَمِّ بِاَنَّہُمْْ کَذَّبُوْا بِاٰیٰتِنَا وَکَانُوْا عَنْہَا غٰفِلِیْنَ ۔ (الاعراف : 136) ” اب ہم نے ان سے انتقام لیا اور انھیں سمندر میں غرق کردیا کیونکہ انھوں نے ہماری نشانیوں کو جھٹلایا تھا اور وہ ان سے بےپرواہ ہوگئے تھے “۔ فرعون اور آل فرعون کا انجام جب کسی کو سنبھلنے کے لیے مسلسل تنبیہات کی جائیں اور ساتھ ہی ساتھ اس پر عنایات کی بارش بھی ہوتی رہے اور دنیا کی ہر نعمت اس کو فراوانی سے عطا کی جائے لیکن وہ نعمتوں کا شکر ادا کرے اور نہ وہ تنبیہات کو درخور اعتنا سمجھے بلکہ اپنی جرأتوں اور جسارتوں میں اس حد تک آگے بڑھ جائے کہ اللہ کی زمین کو ظلم سے بھر دے اور انسان اس کے مظالم سے بلبلا اٹھے تو پھر قدرت ایسے عادی مجرم کو جو سزا دیتی ہے اسے انتقام ہی کہنا چاہیے چناچہ اسی لیے اس آیت کریمہ میں یہ فرمایا جا رہا ہے کہ ہم نے پھر ان سے انتقام لیا یعنی ہم نے انھیں ان کے جرائم کی سزا دی کہ اللہ نے فرعون اور آل فرعون کو اس وقت کی معلوم دنیا کی سب سے بڑی حکومت عطا کی ‘ ملک کو ہر طرح کی دولت سے مالا مال کیا ‘ نعمتوں کی وہ فراوانی کہ کوئی ملک اور کوئی قوم اس معاملے میں ان کا ہمسر نہ تھا۔ بایں ہمہ ! انھوں نے بنی اسرائیل کو اپنے مظالم سے زارو نزار کر کے رکھ دیا تھا۔ ان کے قومی تشخص کو تباہ و برباد کیا اور ان کی نسلوں کو تہ تیغ کرنے سے باز نہ آئے۔ پھر جب اللہ نے مسلسل آزمائشوں میں مبتلا کر کے انھیں تنبیہات فرمائیں تو انھوں نے کسی تنبیہ کو بھی پلے نہیں باندھا بلکہ اپنے ظالمانہ رویے میں بڑھتے ہی چلے گئے تب اللہ کے انتقام کا کوڑا حرکت میں آیا کہ فرعون کو اس کی فوجوں سمیت سمندر میں غرق کردیا۔ قرآن کریم نے اس کو نہایت اختصار سے بیان فرمایا ہے کہ جب فرعون کے مظالم کی انتہا ہوگئی تو اللہ تعالیٰ نے موسیٰ (علیہ السلام) کو حکم دیا کہ تم بنی اسرائیل کو لے کر مصر سے نکل جاؤ اور اپنے باپ دادا کی سرزمین یعنی فلسطین میں جا کر اللہ کی منشاء کے مطابق ان کی تربیت کرو اور اللہ کے دین کی بالادستی پر مبنی ایک ریاست قائم کرو۔ چناچہ موسیٰ (علیہ السلام) فلسطین یا ارض کنعان جانے کے لیے مصر سے رات کی تاریکی میں نکلے تو بجائے خشکی کا راستہ اختیار کرنے کے جو قریب بھی تھا آپ نے دور کا راستہ اختیار کیا جس کے راستے میں بحر احمر پڑتا تھا آپ چاہتے تھے کہ اس کو عبور کر کے بیابان شور اور سینا پہنچ جائیں یہ آپ نے دشوارگزار اور دور کا راستہ اللہ کے حکم سے اختیار کیا کیونکہ قریب کا اور خشکی کا راستہ اختیار کرنے میں اگرچہ آسانی اور سہولت تھی لیکن اس بات کا ہر وقت امکان تھا کہ فرعون کی فوجوں سے تصادم ہوجائے اور اگر ایسا ہوجاتا تو بنی اسرائیل جن کو صدیوں کی غلامی نے بزدل اور پست ہمت بنادیا تھا وہ کسی طرح بھی فرعون کے مقابلے میں اس کی فوجوں سے لڑنے کی جرأت نہیں کرسکتے تھے۔ تصادم اور مقابلے کی صورت میں یقینا بنی اسرائیل کمزوری کا مظاہرہ کرتے۔ نتیجتاً اس نئی اٹھتی ہوئی اسلامی قوت کو بےپناہ نقصان پہنچ جاتا۔ تورات سے بھی اس توجیہ کی تائید نکلتی ہے۔ تورات میں مذکور ہے۔ ” اور جب فرعون نے ان لوگوں کو جانے کی اجازت دے دی تو خدا ان کو فلستیوں کے ملک کے راستہ سے نہیں لے گیا اگرچہ ادھر سے نزدیک پڑتا تھا کیونکہ خدا نے کہا کہ ایسا نہ ہو کہ یہ لوگ لڑائی بھڑائی دیکھ کر پچھتانے لگیں اور مصر کو لوٹ جائیں بلکہ خداوند ان کو چکر کھلا کر بحرقلزم کے بیابان کے راستے لے گیا “۔ (خروج باب 13: 17-18) مزید یہ بات بھی ہے کہ اگر خشکی کے راستے موسیٰ (علیہ السلام) بنی اسرائیل کو لے کر خیریت سے فلسطین پہنچ جاتے تو سمندر کے پھٹنے ‘ بنی اسرائیل کے خیریت سے گزرنے اور فرعون اور آل فرعون کے تباہ ہونے کا جو حیرت انگیز معجزہ وجود میں آنے والا تھا اس کا اظہار نہ ہوسکتا اس لیے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) جب اپنی قوم کو لے کر بحر قلزم کے راستے پر نکلے تو پر چہ نویسوں نے فرعون کو اطلاع کردی تو اس نے اسی وقت ایک زبردست فوج کو ساتھ لیا اور صبح ہونے سے پہلے ان کے سر پر جا پہنچا۔ کہا جاتا ہے کہ بنی اسرائیل کی تعداد اس وقت بچوں اور چوپایوں کے علاوہ چھ لاکھ تھی مگر پو پھٹنے کے وقت جب انھوں نے پیچھا مڑ کے دیکھا تو فرعون کو سر پر پایا ‘ گھبرا کر کہنے لگے : ” کیا مصر میں قبریں نہ تھیں جو تو ہم کو مرنے کے لیے بیابان میں لے آیا ہے تو نے ہم سے یہ کیا کیا کہ ہم کو مصر سے نکال لایا۔ کیا ہم تجھ سے مصر میں یہ بات نہ کہتے تھے کہ ہم کو رہنے دے کہ ہم مصریوں کی خدمت کریں کیونکہ ہمارے لیے مصریوں کی خدمت کرنا بیابان میں مرنے سے بہتر ہوتا “ (خروج باب 14: 11-21) موسیٰ (علیہ السلام) نے ان کو تسلی دی بلکہ پورے ایمانی جلال کے ساتھ فرمایا : کَلاَّ اِنَّ مَعِیَ رَبِّی سَیَھْدِیْن (ہرگز نہیں میرا رب میرے ساتھ ہے وہ ضرور مجھے راستہ دے گا) یعنی یہ بحر قلزم میرا راستہ نہیں روک سکتا اور اللہ کے حکم کی موجودگی میں کوئی رکاوٹ میرے راستے میں حائل نہیں ہوسکتی اس کے بعد آپ نے اللہ کی بارگاہ میں درخواست کی حکم آیا کہ اپنی لاٹھی کو پانی پر مارو۔ چناچہ آپ نے اپنا عصا قلزم کے پانی پر مارا تو پانی پھٹ کر دونوں جانب دو پہاڑوں کی طرح کھڑا ہوگیا اور بیچ میں سے راستہ نکل آیا۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے حکم سے تمام بنی اسرائیل اس میں اتر گئے اور خشک زمین پر چلتے ہوئے اس سے پار ہوگئے۔ فرعون نے یہ دیکھا تو اپنی قوم سے کہنے لگا یہ میری کرشمہ سازی ہے کہ بنی اسرائیل کو تم جا پکڑو لہٰذا بڑھے چلو۔ چناچہ فرعون اور اس کا تمام لشکر بنی اسرائیل کے پیچھے اسی راستہ میں اتر گیا لیکن اللہ تعالیٰ کی کرشمہ سازی دیکھیے کہ جب بنی اسرائیل کا ہر فرد دوسرے کنارے پر سلامتی کے ساتھ پہنچ گیا تو پانی بحکم الٰہی پھر اپنی اصلی حالت پر آگیا اور فرعون اور اس کا تمام لشکر جو ابھی درمیان ہی میں تھا غرق ہوگیا۔ جب فرعون غرق ہونے لگا اور ملائکہ عذاب سامنے نظر آنے لگے تو پکار کر کہنے لگا کہ میں اسی ایک وحدہٗ لاشریک لہٗ ہستی پر ایمان لاتا ہوں جس پر بنی اسرائیل ایمان لائے ہیں اور میں فرمانبرداروں میں سے ہوں مگر یہ ایمان چونکہ حقیقی ایمان نہ تھا بلکہ گزشتہ فریب کاریوں کی طرح نجات حاصل کرنے کے لیے یہ بھی ایک مضطربانہ بات تھی اس لیے اللہ کی طرف سے یہ جواب ملا : اَلْئَنَ وَ قَدْ عَصَیْتَ قَبْلُ وَ کُنْتَ مِنَ الْمُفْسِدِیْنَ ” اب یہ کہہ رہا ہے حالانکہ اس سے پہلے جو اقرار کا وقت تھا اس میں تو نافرمان رہا تو درحقیقت مفسدوں میں سے تھا “۔ درحقیقت فرعون کی یہ پکار ایسی پکار تھی جو ایمان لانے اور یقین حاصل کرنے کے لیے نہیں بلکہ عذاب الٰہی کا مشاہدہ کرنے کے بعد اضطراری اور بےاختیاری کی حالت میں نکلتی ہے اور مشاہدہ عذاب کے وقت ایسی صدا اور ایسے ایمان پر بھی اعتبار نہیں ہوتا۔ اس لیے اللہ کے ہاں اسے قبولیت نصیب نہیں ہوئی۔ اس لیے فرعون کا ایمان تو قبول نہیں کیا گیا البتہ یہ ضرور فرمایا : اَلْیَوْمَ نُنَجِّیْکَ بِبَدَنِکَ لِتَکُوْنَ لِمَنْ خَلْفَکَ اَیَۃً ” آج کے دن ہم تیرے جسم کو ان لوگوں کے لیے جو تیرے پیچھے آنے والے ہیں نجات دیں گے کہ وہ عبرت کا نشان بنا رہے “۔ چناچہ اس کے نتیجے میں اگلے ہی روز سمندر نے فرعون کی لاش باہر اگل دی۔ مصریوں نے اسے وہاں سے اٹھایا اور نہلانے دھلانے کے بعد اس کو حنوط کر کے دفن کردیا لیکن اللہ نے اس نام نہاد رب کو ہر طرح کی تذلیل کا نشانہ بنادیا کہ جو اپنے آپ کو مصر کے بحر و بر کا مالک سمجھتا تھا وہ سمندر کی موجوں سے اپنے آپ کو نہ بچا سکا اور پھر جو اپنی ناک اللہ کے سامنے زمین پر رکھنے کے لیے تیار نہیں تھا اسے ایسی ذلت کی مار پڑی کہ مچھلی اس کی آدھی ناک کھا گئی چناچہ آج یہ ناک کٹا ذلت کی تصویر بنا مصر کے عجائب گھر میں لوگوں کے لیے عبرت بنا ہوا ہے۔ قرآن کریم نے اس حیرت انگیز واقعہ کو اختصار سے بیان فرمایا ہے لیکن واقعہ کے ضروری اجزاء جو باعث عبرت ہیں وہ اس اختصار میں بھی موجود ہیں البتہ تورات میں قرآن کریم کے بیان کردہ واقعات کے علاوہ کچھ اور بھی تفصیلات بیان کی گئی ہیں جو نصیحت و عبرت کے لحاظ سے اگرچہ چنداں ضروری نہیں لیکن دلچسپی کے حوالے سے ضرور قابل مطالعہ ہیں۔ تورات کے بیان کا خلاصہ یہ ہے کہ فرعون اور اس کی قوم پر جب اللہ کی بھیجی ہوئی آفات کا سلسلہ جاری ہوگیا اور موسیٰ (علیہ السلام) کے ارشاد کے مطابق یکے بعد دیگرے ” نشانات “ کا ظہور ہونے لگا تو اس نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو بلا کر کہا کہ بنی اسرائیل کو مصر سے نکال لے جا مگر ان کے چوپائے اور پالتو جانور یہیں چھوڑنے ہوں گے۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے اس شرط کو تسلیم کرنے سے انکار کردیا اور فرمایا کہ ایک جانور بھی تو روکنے کا حق نہیں رکھتا ‘ تو فرعون غضبناک ہو کر کہنے لگا کہ اب یہ کبھی نہ جاسکیں گے اور تو اب میرے سامنے کبھی نہ آنا ورنہ میرے ہاتھ سے مارا جائے گا۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا کہ یہ تو نے ٹھیک کہا اب میں کبھی تیرے سامنے نہ آئوں گا میرے اللہ کا یہی فیصلہ ہے اور اس نے مجھ کو بتادیا ہے کہ تجھ پر اور تیری قوم پر ایسی سخت آفت آئے گی کہ تیرا اور کسی مصری کا پہلوٹھا زندہ نہیں رہے گا۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) فرعون سے یہ گفتگو کر کے دربار سے باہر نکل آئے اور پھر بنی اسرائیل سے یہ فرمایا کہ خداوند خدا کا ارشاد ہے کہ فرعون کا دل سخت ہوگیا ہے وہ اب تم کو یہاں سے اس وقت تک نہ جانے دے گا جب تک مزید نشان نہ دیکھ لے کہ جس سے تمام مصریوں میں کہرام مچ جائے مگر تم کو تیاری کر لینی چاہیے کہ مصر سے نکلنے کا وقت آپہنچا اور خدائے تعالیٰ نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے ذریعہ بنی اسرائیل کو نکلنے سے پہلے قربانی اور عید فسح کا بھی حکم دیا اور اس کا طریقہ اور شرائط بھی بتادیں ‘ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے ان سے یہ بھی کہا کہ اپنی عورتوں سے کہو کہ وہ مصری عورتوں کے پاس جائیں اور ان سے عید کے لیے سونے اور چاندی کے زیور اور قیمتی پارچہ جات مستعار مانگ لائیں اور مصری عورتوں نے آخر ان کو زیورات دے دیئے پھر اللہ کا کرنا ایسا ہوا کہ ایک رات فرعون سے لے کر معمولی مصری کا پہلوٹھا مرگیا اور تمام گھرانوں میں کہرام مچ گیا۔ یہ دیکھ کر مصری فرعون کے پاس دوڑے آئے اور اس کو مجبور کیا کہ اسی وقت تمام بنی اسرائیل کو مصر سے نکال دے تاکہ یہ نحوست یہاں سے دور ہو ‘ ہم پر یہ سب آفتیں انہی کی بدولت آتی رہتی ہیں۔ تب فرعون نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے کہا کہ اسی وقت تم سب یہاں سے نکل جاؤ اور اپنے جانوروں ‘ مویشیوں اور سب سامان کو بھی ساتھ لے جاؤ۔ جب بنی اسرائیل رعمسیس (جشن کے شہر) سے نکلے تو بچوں اور جانوروں کے علاوہ وہ سب چھ لاکھ تھے اور جب وہ نکلے تو مصریوں کے زیورات کو بھی واپس نہ کرسکے اور مصریوں نے بھی مطالبہ نہ کیا۔ جب بنی اسرائیل نے جنگل کی راہ لی تو اب فرعون اور اس کے سرداروں کو اپنے فیصلہ پر سخت افسوس ہوا اور انھوں نے آپس میں کہا کہ ہم نے مفت میں ایسے اچھے چاکر اور غلام ہاتھ سے کھو دیئے اور فرعون نے حکم دیا کہ فوراً سرداروں ‘ مصری نوجوانوں اور فوج کو تیاری کا حکم دو اور وہ کرّوفر کے ساتھ رتھوں میں سوار ہو کر نکل کھڑے ہوئے اور بنی اسرائیل کا تعاقب کیا۔ بنی اسرائیل رعمسیس سے سکات اور وہاں سے ایتام اور پھر مڑ کر مجدال اور بحر احمر کے درمیان فی ہیخروت کے پاس لعل صفون کے سامنے خیمہ زن ہوچکے تھے ‘ بنی اسرائیل کے اس پورے سفر میں خدا ان کے ساتھ رہا اور وہ نورانی ستون کی تجلی کے ساتھ رات میں بھی ان کی راہنمائی کرتا اور دن میں بھی آگے آگے چلتا ‘ غرض صبح کی پو پھٹ رہی تھی کہ فرعون نے سمندر کے کنارے بنی اسرائیل کو آلیا ‘ انھوں نے پیچھا پھر کر دیکھا اور فرعون کو لائو لشکر کے ساتھ اپنے قریب پایا تو بددل اور خائف ہو کر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے جھگڑا کرنے لگے۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے ان کو بہت کچھ تسلی و تشفی دی اور بتایا کہ تمہارے دشمن ہلاک ہوں گے اور تم سلامتی و عافیت کے ساتھ نجات پائو گے اور پھر دربار خداوندی میں مناجات کرنے لگے : ” اور خداوند نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے کہا کہ تو کیوں مجھ سے فریاد کر رہا ہے ‘ بنی اسرائیل سے کہو کہ وہ آگے بڑھیں اور تو اپنی لاٹھی اٹھاکر اپنا ہاتھ سمندر کے اوپر بڑھا اور اسے دو حصے کر اور بنی اسرائیل سمندر کے بیچ میں سے خشک زمین پر چل کر نکل جائیں گے… پھر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنا ہاتھ سمندر کے اوپر بڑھایا اور خداوند نے رات بھر تند پوربی آندھی چلا کر اور سمندر کو پیچھے ہٹا کر اسے خشک زمین بنادیا اور پانی دو حصے ہوگیا اور بنی اسرائیل سمندر کے بیچ میں سے خشک زمین پر چل کر نکل گئے۔ … اور خداوند نے سمندر کے بیچ ہی میں مصریوں کو تہ وبالا کردیا اور پانی پلٹ کر آیا اور اس نے رتھوں اور سواروں اور فرعون کے سارے لشکر کو جو اسرائیلیوں کا پیچھا کرتا ہوا سمندر میں گیا تھا غرق کردیا اور ایک بھی ان میں سے باقی نہ چھوڑا پھر بنی اسرائیل سمندر کے بیچ میں خشک زمین پر چل کر نکل گئے اور پانی ان کے داہنے اور بائیں ہاتھ دیواروں کی طرح رہا۔ … اور اسرائیلیوں نے وہ بڑی قدرت جو خداوند نے مصریوں پر ظاہر کی دیکھی اور وہ لوگ خداوند سے ڈرے اور خداوند پر اور اس کے بندے موسیٰ پر ایمان لائے۔ تورات کی تفصیلات میں اگرچہ بہت زیادہ رطب و یابس اور دور اذکار باتیں بھی ضمناً آگئی ہیں مگر تورات اور قرآن کریم دونوں اس بارے میں ہم آہنگ ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے فرعون اور اس کی قہرمانیت کے مظالم سے موسیٰ اور بنی اسرائیل کو ایک عظیم الشان نشان کے ذریعہ نجات دی۔ قرآن عزیزیہی کہتا ہے کہ یہ معجزہ اس طرح ظاہر ہوا کہ اللہ کے حکم سے موسیٰ (علیہ السلام) نے قلزم پر لاٹھی ماری اور دریا کا پانی بیچ میں خشکی دے کر دونوں جانب پہاڑ کی طرح کھڑا ہوگیا اور تورات بھی اسی کی تائید کرتی ہے لیکن عجیب بات یہ ہے کہ مسلمانوں میں بعض ایسے نیک نام افراد بھی ہیں جو اپنی قومی خدمات کے باعث نہایت عزت کے مستحق ہیں لیکن معجزات کے حوالے سے انھوں نے بڑی ٹھوکر کھائی ہے۔ مثلاً سرسید احمد خان جو ہماری قومی تاریخ کا ایک اہم نام ہے انھوں نے اس عظیم واقعے کو معجزہ ماننے سے انکار کیا ہے اپنی مشہور تفسیر میں وہ یہ فرماتے ہیں کہ غرق فرعون اور نجاتِ بنی اسرائیل کا یہ واقعہ معجزہ نہ تھا بلکہ عام دنیوی سلسلہ اسباب و علل کے تحت بحر کے مدوجزر (جوار بھاٹا) سے تعلق رکھتا ہے یعنی صورتحال یہ پیش آئی کہ جس وقت بنی اسرائیل نے قلزم و عبور کیا تھا اس وقت اس کا پانی سمٹا ہوا تھا اور پیچھے کو ہٹ کر اس نے جزر اختیار کر رکھا تھا فرعون نے جب بنی اسرائیل کو اس آسانی سے پار ہوتے دیکھا تو اس نے بھی اپنی لشکر کو داخل ہوجانے کا حکم دے دیا مگر بنی اسرائیل پار ہوچکے تھے اور فرعونی لشکر ابھی دریا کی خشکی پر چل ہی رہا تھا کہ اس کے مد اور آگے بڑھنے کا وقت آپہنچا اور فرعون اور اس کے لشکر کو اتنی بھی مہلت نہ ملی کہ وہ آگے بڑھ سکے یا پیچھے ہٹ سکے اور سب غرق ہوگئے۔ سید صاحب نے اپنے اس مزعومہ خیال کے مطابق بنی اسرائیل کے عبور کے متعلق ایک نقشہ بھی دیا ہے جس میں یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ بنی اسرائیل نے قلزم کے شمالی دہانے پر جا کر اس کو عبور کیا ہے مگر افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ قرآن عزیز کی تشریحات اس کا قطعی انکار کرتی ہیں اور سیدصاحب کی بات کسی طرح بنائے نہیں بنتی۔ واقعہ یہ ہے کہ اگر آپ نقشہ پر نظر ڈالیں جہاں بحر احمر واقع ہے تو آپ دیکھیں گے کہ یہ دراصل بحرعرب کی ایک شاخ ہے جس کے مشرق میں سرزمین عرب واقع ہے اور مغرب میں مصر ‘ شمال میں اس کی دو شاخیں ہوگئی ہیں ایک شاخ خلیج عقبہ جزیرہ نمائے سینا کے مغرب میں اور دوسری خلیج سویز اس کے مغرب میں واقع ہے یہ دوسری شاخ پہلی سے بڑی ہے اور شمال میں بڑی دور تک چلی گئی ہے بنی اسرائیل اسی کے درمیان سے گزرے ہیں اسی شاخ کے شمالی دہانہ کے سامنے ایک اور سمندر واقع ہے جس کا نام بحر روم ہے۔ قرآن کریم کی تمام تصریحات کو سامنے رکھیں تو وہ دو باتوں کو زیادہ صراحت سے بیان کرتا ہے ایک فلق یا فرقِ بحر یعنی دریا کا پھٹنا یا اس کا پھاڑ دینا اور دوسرے دونوں جانب پانی کا پہاڑ کی طرح کھڑا ہوجانا اور درمیان میں راستہ پیدا ہوجانا۔ عربی لغت میں فرق کے معنی دو ٹکڑے کر کے جدا کردینے کے آتے ہیں اور فلق کے معنی بھی ٹکڑے کردینا ہی ہے۔ اور طود کے معنی بڑے پہاڑ کے ہیں ان معنوی تشریحات کو سامنے رکھتے ہوئے قرآن کریم کی آیات کو دیکھئے وہ کہتا ہے کہ ہم نے سمندر کو پھاڑا اور پانی دونوں طرف بڑے بڑے پہاڑوں کی طرح کھڑا ہوگیا اور درمیان میں راستہ نکل آیا اس سے تصور میں جو صورت حال بنتی ہے وہ اسی طرح ممکن ہے کہ بنی اسرائیل نے دریا کے ایسے حصے سے عبور کیا ہو جو دہانہ یا کنارے کے سامنے کا حصہ نہ ہو بلکہ پانی کا ایسا حصہ ہو جو درمیان سے پھٹ کردو حصے بن سکتا ہو دوسرے لفظوں میں یوں کہہ لیجیے کہ قرآن عزیز صاف صاف اس بات کا اعلان کرتا ہے کہ بنی اسرائیل خشکی کے راستے سے قلزم کے دہانہ یا کنارے سے نہیں گزرے تھے بلکہ دریا کے کسی درمیانی حصہ کو عبور کر کے میدان سینا میں پہنچے تھے اور یہ ظاہر ہے کہ مد و جزر طولانی حصہ میں دہانہ کی جانب ہوا کرتا ہے۔ عرض میں اس طرح کبھی بھی نہیں ہوتا کہ پانی دونوں جانب سمٹ جائے اور بیچ میں خشکی کی راہ پیداہو جائے لہٰذا اللہ تعالیٰ کے اس عظیم الشان معجزہ کا انکار کرتے ہوئے اس کو روز مرہ کے مادی اسباب کے نیچے لانے کی سعی کرنا قرآنی تصریحات کے بالکل خلاف اور اس کی تحریف کے مترادف ہے۔ حاصل کلام یہ کہ اللہ تعالیٰ نے فرعون اور آل فرعون جیسے جرائم پیشہ لوگوں کو ان کے جرائم کی سزا دی کہ انھیں سمندر میں غرق کردیا اور یہ سزا ان کو اس لیے نہیں دی کہ پروردگار اپنے بندوں کے لیے ظالم ہے بلکہ اس لیے دی کہ انھوں نے نہ صرف پیغمبر کی دعوت کو ماننے سے انکار کیا بلکہ اللہ کے ایک سے ایک بڑے نشان کو دیکھا ‘ ایک سے ایک بڑھ کر عذاب ان پر آیا اور ان میں سے ہر عذاب اپنے منہ سے بول رہا تھا کہ میں اللہ کی قدرت کا ظہور ہوں اور حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی صداقت کی دلیل ہوں لیکن ان ظالموں نے کسی سے بھی سبق سیکھنے کی زحمت گوارا نہ کی بلکہ ہر ایک کا مذاق اڑایا اور حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو پیغمبر سمجھنے کی بجائے ہمیشہ جادوگر سمجھا۔ ایسے لوگوں کا انجام اس سے سوا اور کیا ہوسکتا تھا کہ اللہ کی زمین کو ان سے خالی کرا دیا جائے۔ چناچہ ان کو مٹا دینے کے بعد اللہ نے ان لوگوں کو زمین پر اقتدار عطا فرمایا جس کے ساتھ انھوں نے آج تک ظالمانہ رویہ اختیار کر رکھا تھا۔ اگلی آیت کریمہ میں اسی کا تذکرہ فرمایا جا رہا ہے۔
Top