Ruh-ul-Quran - Al-A'raaf : 136
فَانْتَقَمْنَا مِنْهُمْ فَاَغْرَقْنٰهُمْ فِی الْیَمِّ بِاَنَّهُمْ كَذَّبُوْا بِاٰیٰتِنَا وَ كَانُوْا عَنْهَا غٰفِلِیْنَ
فَانْتَقَمْنَا : پھر ہم نے انتقام لیا مِنْهُمْ : ان سے فَاَغْرَقْنٰهُمْ : پس انہیں غرق کردیا فِي الْيَمِّ : دریا میں بِاَنَّهُمْ : کیونکہ انہوں نے كَذَّبُوْا : جھٹلایا بِاٰيٰتِنَا : ہماری آیتوں کو وَكَانُوْا : اور وہ تھے عَنْهَا : ان سے غٰفِلِيْنَ : غافل (جمع)
اب ہم نے ان سے انتقام لیا اور انھیں سمندر میں غرق کردیا کیونکہ انھوں نے ہماری نشانیوں کو جھٹلایا تھا اور وہ ان سے بےپرواہ ہوگئے تھے۔
فَا نْتَقَمْنَا مِنْھُمْ فَاَغْرَقْنٰہُمْ فِی الْیَمِّ بِاَنَّہُمْْ کَذَّبُوْا بِاٰیٰتِنَا وَکَانُوْا عَنْہَا غٰفِلِیْنَ ۔ (الاعراف : 136) ” اب ہم نے ان سے انتقام لیا اور انھیں سمندر میں غرق کردیا کیونکہ انھوں نے ہماری نشانیوں کو جھٹلایا تھا اور وہ ان سے بےپرواہ ہوگئے تھے “۔ فرعون اور آل فرعون کا انجام جب کسی کو سنبھلنے کے لیے مسلسل تنبیہات کی جائیں اور ساتھ ہی ساتھ اس پر عنایات کی بارش بھی ہوتی رہے اور دنیا کی ہر نعمت اس کو فراوانی سے عطا کی جائے لیکن وہ نعمتوں کا شکر ادا کرے اور نہ وہ تنبیہات کو درخور اعتنا سمجھے بلکہ اپنی جرأتوں اور جسارتوں میں اس حد تک آگے بڑھ جائے کہ اللہ کی زمین کو ظلم سے بھر دے اور انسان اس کے مظالم سے بلبلا اٹھے تو پھر قدرت ایسے عادی مجرم کو جو سزا دیتی ہے اسے انتقام ہی کہنا چاہیے چناچہ اسی لیے اس آیت کریمہ میں یہ فرمایا جا رہا ہے کہ ہم نے پھر ان سے انتقام لیا یعنی ہم نے انھیں ان کے جرائم کی سزا دی کہ اللہ نے فرعون اور آل فرعون کو اس وقت کی معلوم دنیا کی سب سے بڑی حکومت عطا کی ‘ ملک کو ہر طرح کی دولت سے مالا مال کیا ‘ نعمتوں کی وہ فراوانی کہ کوئی ملک اور کوئی قوم اس معاملے میں ان کا ہمسر نہ تھا۔ بایں ہمہ ! انھوں نے بنی اسرائیل کو اپنے مظالم سے زارو نزار کر کے رکھ دیا تھا۔ ان کے قومی تشخص کو تباہ و برباد کیا اور ان کی نسلوں کو تہ تیغ کرنے سے باز نہ آئے۔ پھر جب اللہ نے مسلسل آزمائشوں میں مبتلا کر کے انھیں تنبیہات فرمائیں تو انھوں نے کسی تنبیہ کو بھی پلے نہیں باندھا بلکہ اپنے ظالمانہ رویے میں بڑھتے ہی چلے گئے تب اللہ کے انتقام کا کوڑا حرکت میں آیا کہ فرعون کو اس کی فوجوں سمیت سمندر میں غرق کردیا۔ قرآن کریم نے اس کو نہایت اختصار سے بیان فرمایا ہے کہ جب فرعون کے مظالم کی انتہا ہوگئی تو اللہ تعالیٰ نے موسیٰ (علیہ السلام) کو حکم دیا کہ تم بنی اسرائیل کو لے کر مصر سے نکل جاؤ اور اپنے باپ دادا کی سرزمین یعنی فلسطین میں جا کر اللہ کی منشاء کے مطابق ان کی تربیت کرو اور اللہ کے دین کی بالادستی پر مبنی ایک ریاست قائم کرو۔ چناچہ موسیٰ (علیہ السلام) فلسطین یا ارض کنعان جانے کے لیے مصر سے رات کی تاریکی میں نکلے تو بجائے خشکی کا راستہ اختیار کرنے کے جو قریب بھی تھا آپ نے دور کا راستہ اختیار کیا جس کے راستے میں بحر احمر پڑتا تھا آپ چاہتے تھے کہ اس کو عبور کر کے بیابان شور اور سینا پہنچ جائیں یہ آپ نے دشوارگزار اور دور کا راستہ اللہ کے حکم سے اختیار کیا کیونکہ قریب کا اور خشکی کا راستہ اختیار کرنے میں اگرچہ آسانی اور سہولت تھی لیکن اس بات کا ہر وقت امکان تھا کہ فرعون کی فوجوں سے تصادم ہوجائے اور اگر ایسا ہوجاتا تو بنی اسرائیل جن کو صدیوں کی غلامی نے بزدل اور پست ہمت بنادیا تھا وہ کسی طرح بھی فرعون کے مقابلے میں اس کی فوجوں سے لڑنے کی جرأت نہیں کرسکتے تھے۔ تصادم اور مقابلے کی صورت میں یقینا بنی اسرائیل کمزوری کا مظاہرہ کرتے۔ نتیجتاً اس نئی اٹھتی ہوئی اسلامی قوت کو بےپناہ نقصان پہنچ جاتا۔ تورات سے بھی اس توجیہ کی تائید نکلتی ہے۔ تورات میں مذکور ہے۔ ” اور جب فرعون نے ان لوگوں کو جانے کی اجازت دے دی تو خدا ان کو فلستیوں کے ملک کے راستہ سے نہیں لے گیا اگرچہ ادھر سے نزدیک پڑتا تھا کیونکہ خدا نے کہا کہ ایسا نہ ہو کہ یہ لوگ لڑائی بھڑائی دیکھ کر پچھتانے لگیں اور مصر کو لوٹ جائیں بلکہ خداوند ان کو چکر کھلا کر بحرقلزم کے بیابان کے راستے لے گیا “۔ (خروج باب 13: 17-18) مزید یہ بات بھی ہے کہ اگر خشکی کے راستے موسیٰ (علیہ السلام) بنی اسرائیل کو لے کر خیریت سے فلسطین پہنچ جاتے تو سمندر کے پھٹنے ‘ بنی اسرائیل کے خیریت سے گزرنے اور فرعون اور آل فرعون کے تباہ ہونے کا جو حیرت انگیز معجزہ وجود میں آنے والا تھا اس کا اظہار نہ ہوسکتا اس لیے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) جب اپنی قوم کو لے کر بحر قلزم کے راستے پر نکلے تو پر چہ نویسوں نے فرعون کو اطلاع کردی تو اس نے اسی وقت ایک زبردست فوج کو ساتھ لیا اور صبح ہونے سے پہلے ان کے سر پر جا پہنچا۔ کہا جاتا ہے کہ بنی اسرائیل کی تعداد اس وقت بچوں اور چوپایوں کے علاوہ چھ لاکھ تھی مگر پو پھٹنے کے وقت جب انھوں نے پیچھا مڑ کے دیکھا تو فرعون کو سر پر پایا ‘ گھبرا کر کہنے لگے : ” کیا مصر میں قبریں نہ تھیں جو تو ہم کو مرنے کے لیے بیابان میں لے آیا ہے تو نے ہم سے یہ کیا کیا کہ ہم کو مصر سے نکال لایا۔ کیا ہم تجھ سے مصر میں یہ بات نہ کہتے تھے کہ ہم کو رہنے دے کہ ہم مصریوں کی خدمت کریں کیونکہ ہمارے لیے مصریوں کی خدمت کرنا بیابان میں مرنے سے بہتر ہوتا “ (خروج باب 14: 11-21) موسیٰ (علیہ السلام) نے ان کو تسلی دی بلکہ پورے ایمانی جلال کے ساتھ فرمایا : کَلاَّ اِنَّ مَعِیَ رَبِّی سَیَھْدِیْن (ہرگز نہیں میرا رب میرے ساتھ ہے وہ ضرور مجھے راستہ دے گا) یعنی یہ بحر قلزم میرا راستہ نہیں روک سکتا اور اللہ کے حکم کی موجودگی میں کوئی رکاوٹ میرے راستے میں حائل نہیں ہوسکتی اس کے بعد آپ نے اللہ کی بارگاہ میں درخواست کی حکم آیا کہ اپنی لاٹھی کو پانی پر مارو۔ چناچہ آپ نے اپنا عصا قلزم کے پانی پر مارا تو پانی پھٹ کر دونوں جانب دو پہاڑوں کی طرح کھڑا ہوگیا اور بیچ میں سے راستہ نکل آیا۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے حکم سے تمام بنی اسرائیل اس میں اتر گئے اور خشک زمین پر چلتے ہوئے اس سے پار ہوگئے۔ فرعون نے یہ دیکھا تو اپنی قوم سے کہنے لگا یہ میری کرشمہ سازی ہے کہ بنی اسرائیل کو تم جا پکڑو لہٰذا بڑھے چلو۔ چناچہ فرعون اور اس کا تمام لشکر بنی اسرائیل کے پیچھے اسی راستہ میں اتر گیا لیکن اللہ تعالیٰ کی کرشمہ سازی دیکھیے کہ جب بنی اسرائیل کا ہر فرد دوسرے کنارے پر سلامتی کے ساتھ پہنچ گیا تو پانی بحکم الٰہی پھر اپنی اصلی حالت پر آگیا اور فرعون اور اس کا تمام لشکر جو ابھی درمیان ہی میں تھا غرق ہوگیا۔ جب فرعون غرق ہونے لگا اور ملائکہ عذاب سامنے نظر آنے لگے تو پکار کر کہنے لگا کہ میں اسی ایک وحدہٗ لاشریک لہٗ ہستی پر ایمان لاتا ہوں جس پر بنی اسرائیل ایمان لائے ہیں اور میں فرمانبرداروں میں سے ہوں مگر یہ ایمان چونکہ حقیقی ایمان نہ تھا بلکہ گزشتہ فریب کاریوں کی طرح نجات حاصل کرنے کے لیے یہ بھی ایک مضطربانہ بات تھی اس لیے اللہ کی طرف سے یہ جواب ملا : اَلْئَنَ وَ قَدْ عَصَیْتَ قَبْلُ وَ کُنْتَ مِنَ الْمُفْسِدِیْنَ ” اب یہ کہہ رہا ہے حالانکہ اس سے پہلے جو اقرار کا وقت تھا اس میں تو نافرمان رہا تو درحقیقت مفسدوں میں سے تھا “۔ درحقیقت فرعون کی یہ پکار ایسی پکار تھی جو ایمان لانے اور یقین حاصل کرنے کے لیے نہیں بلکہ عذاب الٰہی کا مشاہدہ کرنے کے بعد اضطراری اور بےاختیاری کی حالت میں نکلتی ہے اور مشاہدہ عذاب کے وقت ایسی صدا اور ایسے ایمان پر بھی اعتبار نہیں ہوتا۔ اس لیے اللہ کے ہاں اسے قبولیت نصیب نہیں ہوئی۔ اس لیے فرعون کا ایمان تو قبول نہیں کیا گیا البتہ یہ ضرور فرمایا : اَلْیَوْمَ نُنَجِّیْکَ بِبَدَنِکَ لِتَکُوْنَ لِمَنْ خَلْفَکَ اَیَۃً ” آج کے دن ہم تیرے جسم کو ان لوگوں کے لیے جو تیرے پیچھے آنے والے ہیں نجات دیں گے کہ وہ عبرت کا نشان بنا رہے “۔ چناچہ اس کے نتیجے میں اگلے ہی روز سمندر نے فرعون کی لاش باہر اگل دی۔ مصریوں نے اسے وہاں سے اٹھایا اور نہلانے دھلانے کے بعد اس کو حنوط کر کے دفن کردیا لیکن اللہ نے اس نام نہاد رب کو ہر طرح کی تذلیل کا نشانہ بنادیا کہ جو اپنے آپ کو مصر کے بحر و بر کا مالک سمجھتا تھا وہ سمندر کی موجوں سے اپنے آپ کو نہ بچا سکا اور پھر جو اپنی ناک اللہ کے سامنے زمین پر رکھنے کے لیے تیار نہیں تھا اسے ایسی ذلت کی مار پڑی کہ مچھلی اس کی آدھی ناک کھا گئی چناچہ آج یہ ناک کٹا ذلت کی تصویر بنا مصر کے عجائب گھر میں لوگوں کے لیے عبرت بنا ہوا ہے۔ قرآن کریم نے اس حیرت انگیز واقعہ کو اختصار سے بیان فرمایا ہے لیکن واقعہ کے ضروری اجزاء جو باعث عبرت ہیں وہ اس اختصار میں بھی موجود ہیں البتہ تورات میں قرآن کریم کے بیان کردہ واقعات کے علاوہ کچھ اور بھی تفصیلات بیان کی گئی ہیں جو نصیحت و عبرت کے لحاظ سے اگرچہ چنداں ضروری نہیں لیکن دلچسپی کے حوالے سے ضرور قابل مطالعہ ہیں۔ تورات کے بیان کا خلاصہ یہ ہے کہ فرعون اور اس کی قوم پر جب اللہ کی بھیجی ہوئی آفات کا سلسلہ جاری ہوگیا اور موسیٰ (علیہ السلام) کے ارشاد کے مطابق یکے بعد دیگرے ” نشانات “ کا ظہور ہونے لگا تو اس نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو بلا کر کہا کہ بنی اسرائیل کو مصر سے نکال لے جا مگر ان کے چوپائے اور پالتو جانور یہیں چھوڑنے ہوں گے۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے اس شرط کو تسلیم کرنے سے انکار کردیا اور فرمایا کہ ایک جانور بھی تو روکنے کا حق نہیں رکھتا ‘ تو فرعون غضبناک ہو کر کہنے لگا کہ اب یہ کبھی نہ جاسکیں گے اور تو اب میرے سامنے کبھی نہ آنا ورنہ میرے ہاتھ سے مارا جائے گا۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا کہ یہ تو نے ٹھیک کہا اب میں کبھی تیرے سامنے نہ آئوں گا میرے اللہ کا یہی فیصلہ ہے اور اس نے مجھ کو بتادیا ہے کہ تجھ پر اور تیری قوم پر ایسی سخت آفت آئے گی کہ تیرا اور کسی مصری کا پہلوٹھا زندہ نہیں رہے گا۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) فرعون سے یہ گفتگو کر کے دربار سے باہر نکل آئے اور پھر بنی اسرائیل سے یہ فرمایا کہ خداوند خدا کا ارشاد ہے کہ فرعون کا دل سخت ہوگیا ہے وہ اب تم کو یہاں سے اس وقت تک نہ جانے دے گا جب تک مزید نشان نہ دیکھ لے کہ جس سے تمام مصریوں میں کہرام مچ جائے مگر تم کو تیاری کر لینی چاہیے کہ مصر سے نکلنے کا وقت آپہنچا اور خدائے تعالیٰ نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے ذریعہ بنی اسرائیل کو نکلنے سے پہلے قربانی اور عید فسح کا بھی حکم دیا اور اس کا طریقہ اور شرائط بھی بتادیں ‘ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے ان سے یہ بھی کہا کہ اپنی عورتوں سے کہو کہ وہ مصری عورتوں کے پاس جائیں اور ان سے عید کے لیے سونے اور چاندی کے زیور اور قیمتی پارچہ جات مستعار مانگ لائیں اور مصری عورتوں نے آخر ان کو زیورات دے دیئے پھر اللہ کا کرنا ایسا ہوا کہ ایک رات فرعون سے لے کر معمولی مصری کا پہلوٹھا مرگیا اور تمام گھرانوں میں کہرام مچ گیا۔ یہ دیکھ کر مصری فرعون کے پاس دوڑے آئے اور اس کو مجبور کیا کہ اسی وقت تمام بنی اسرائیل کو مصر سے نکال دے تاکہ یہ نحوست یہاں سے دور ہو ‘ ہم پر یہ سب آفتیں انہی کی بدولت آتی رہتی ہیں۔ تب فرعون نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے کہا کہ اسی وقت تم سب یہاں سے نکل جاؤ اور اپنے جانوروں ‘ مویشیوں اور سب سامان کو بھی ساتھ لے جاؤ۔ جب بنی اسرائیل رعمسیس (جشن کے شہر) سے نکلے تو بچوں اور جانوروں کے علاوہ وہ سب چھ لاکھ تھے اور جب وہ نکلے تو مصریوں کے زیورات کو بھی واپس نہ کرسکے اور مصریوں نے بھی مطالبہ نہ کیا۔ جب بنی اسرائیل نے جنگل کی راہ لی تو اب فرعون اور اس کے سرداروں کو اپنے فیصلہ پر سخت افسوس ہوا اور انھوں نے آپس میں کہا کہ ہم نے مفت میں ایسے اچھے چاکر اور غلام ہاتھ سے کھو دیئے اور فرعون نے حکم دیا کہ فوراً سرداروں ‘ مصری نوجوانوں اور فوج کو تیاری کا حکم دو اور وہ کرّوفر کے ساتھ رتھوں میں سوار ہو کر نکل کھڑے ہوئے اور بنی اسرائیل کا تعاقب کیا۔ بنی اسرائیل رعمسیس سے سکات اور وہاں سے ایتام اور پھر مڑ کر مجدال اور بحر احمر کے درمیان فی ہیخروت کے پاس لعل صفون کے سامنے خیمہ زن ہوچکے تھے ‘ بنی اسرائیل کے اس پورے سفر میں خدا ان کے ساتھ رہا اور وہ نورانی ستون کی تجلی کے ساتھ رات میں بھی ان کی راہنمائی کرتا اور دن میں بھی آگے آگے چلتا ‘ غرض صبح کی پو پھٹ رہی تھی کہ فرعون نے سمندر کے کنارے بنی اسرائیل کو آلیا ‘ انھوں نے پیچھا پھر کر دیکھا اور فرعون کو لائو لشکر کے ساتھ اپنے قریب پایا تو بددل اور خائف ہو کر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے جھگڑا کرنے لگے۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے ان کو بہت کچھ تسلی و تشفی دی اور بتایا کہ تمہارے دشمن ہلاک ہوں گے اور تم سلامتی و عافیت کے ساتھ نجات پائو گے اور پھر دربار خداوندی میں مناجات کرنے لگے : ” اور خداوند نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے کہا کہ تو کیوں مجھ سے فریاد کر رہا ہے ‘ بنی اسرائیل سے کہو کہ وہ آگے بڑھیں اور تو اپنی لاٹھی اٹھاکر اپنا ہاتھ سمندر کے اوپر بڑھا اور اسے دو حصے کر اور بنی اسرائیل سمندر کے بیچ میں سے خشک زمین پر چل کر نکل جائیں گے… پھر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنا ہاتھ سمندر کے اوپر بڑھایا اور خداوند نے رات بھر تند پوربی آندھی چلا کر اور سمندر کو پیچھے ہٹا کر اسے خشک زمین بنادیا اور پانی دو حصے ہوگیا اور بنی اسرائیل سمندر کے بیچ میں سے خشک زمین پر چل کر نکل گئے۔ … اور خداوند نے سمندر کے بیچ ہی میں مصریوں کو تہ وبالا کردیا اور پانی پلٹ کر آیا اور اس نے رتھوں اور سواروں اور فرعون کے سارے لشکر کو جو اسرائیلیوں کا پیچھا کرتا ہوا سمندر میں گیا تھا غرق کردیا اور ایک بھی ان میں سے باقی نہ چھوڑا پھر بنی اسرائیل سمندر کے بیچ میں خشک زمین پر چل کر نکل گئے اور پانی ان کے داہنے اور بائیں ہاتھ دیواروں کی طرح رہا۔ … اور اسرائیلیوں نے وہ بڑی قدرت جو خداوند نے مصریوں پر ظاہر کی دیکھی اور وہ لوگ خداوند سے ڈرے اور خداوند پر اور اس کے بندے موسیٰ پر ایمان لائے۔ تورات کی تفصیلات میں اگرچہ بہت زیادہ رطب و یابس اور دور اذکار باتیں بھی ضمناً آگئی ہیں مگر تورات اور قرآن کریم دونوں اس بارے میں ہم آہنگ ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے فرعون اور اس کی قہرمانیت کے مظالم سے موسیٰ اور بنی اسرائیل کو ایک عظیم الشان نشان کے ذریعہ نجات دی۔ قرآن عزیزیہی کہتا ہے کہ یہ معجزہ اس طرح ظاہر ہوا کہ اللہ کے حکم سے موسیٰ (علیہ السلام) نے قلزم پر لاٹھی ماری اور دریا کا پانی بیچ میں خشکی دے کر دونوں جانب پہاڑ کی طرح کھڑا ہوگیا اور تورات بھی اسی کی تائید کرتی ہے لیکن عجیب بات یہ ہے کہ مسلمانوں میں بعض ایسے نیک نام افراد بھی ہیں جو اپنی قومی خدمات کے باعث نہایت عزت کے مستحق ہیں لیکن معجزات کے حوالے سے انھوں نے بڑی ٹھوکر کھائی ہے۔ مثلاً سرسید احمد خان جو ہماری قومی تاریخ کا ایک اہم نام ہے انھوں نے اس عظیم واقعے کو معجزہ ماننے سے انکار کیا ہے اپنی مشہور تفسیر میں وہ یہ فرماتے ہیں کہ غرق فرعون اور نجاتِ بنی اسرائیل کا یہ واقعہ معجزہ نہ تھا بلکہ عام دنیوی سلسلہ اسباب و علل کے تحت بحر کے مدوجزر (جوار بھاٹا) سے تعلق رکھتا ہے یعنی صورتحال یہ پیش آئی کہ جس وقت بنی اسرائیل نے قلزم و عبور کیا تھا اس وقت اس کا پانی سمٹا ہوا تھا اور پیچھے کو ہٹ کر اس نے جزر اختیار کر رکھا تھا فرعون نے جب بنی اسرائیل کو اس آسانی سے پار ہوتے دیکھا تو اس نے بھی اپنی لشکر کو داخل ہوجانے کا حکم دے دیا مگر بنی اسرائیل پار ہوچکے تھے اور فرعونی لشکر ابھی دریا کی خشکی پر چل ہی رہا تھا کہ اس کے مد اور آگے بڑھنے کا وقت آپہنچا اور فرعون اور اس کے لشکر کو اتنی بھی مہلت نہ ملی کہ وہ آگے بڑھ سکے یا پیچھے ہٹ سکے اور سب غرق ہوگئے۔ سید صاحب نے اپنے اس مزعومہ خیال کے مطابق بنی اسرائیل کے عبور کے متعلق ایک نقشہ بھی دیا ہے جس میں یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ بنی اسرائیل نے قلزم کے شمالی دہانے پر جا کر اس کو عبور کیا ہے مگر افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ قرآن عزیز کی تشریحات اس کا قطعی انکار کرتی ہیں اور سیدصاحب کی بات کسی طرح بنائے نہیں بنتی۔ واقعہ یہ ہے کہ اگر آپ نقشہ پر نظر ڈالیں جہاں بحر احمر واقع ہے تو آپ دیکھیں گے کہ یہ دراصل بحرعرب کی ایک شاخ ہے جس کے مشرق میں سرزمین عرب واقع ہے اور مغرب میں مصر ‘ شمال میں اس کی دو شاخیں ہوگئی ہیں ایک شاخ خلیج عقبہ جزیرہ نمائے سینا کے مغرب میں اور دوسری خلیج سویز اس کے مغرب میں واقع ہے یہ دوسری شاخ پہلی سے بڑی ہے اور شمال میں بڑی دور تک چلی گئی ہے بنی اسرائیل اسی کے درمیان سے گزرے ہیں اسی شاخ کے شمالی دہانہ کے سامنے ایک اور سمندر واقع ہے جس کا نام بحر روم ہے۔ قرآن کریم کی تمام تصریحات کو سامنے رکھیں تو وہ دو باتوں کو زیادہ صراحت سے بیان کرتا ہے ایک فلق یا فرقِ بحر یعنی دریا کا پھٹنا یا اس کا پھاڑ دینا اور دوسرے دونوں جانب پانی کا پہاڑ کی طرح کھڑا ہوجانا اور درمیان میں راستہ پیدا ہوجانا۔ عربی لغت میں فرق کے معنی دو ٹکڑے کر کے جدا کردینے کے آتے ہیں اور فلق کے معنی بھی ٹکڑے کردینا ہی ہے۔ اور طود کے معنی بڑے پہاڑ کے ہیں ان معنوی تشریحات کو سامنے رکھتے ہوئے قرآن کریم کی آیات کو دیکھئے وہ کہتا ہے کہ ہم نے سمندر کو پھاڑا اور پانی دونوں طرف بڑے بڑے پہاڑوں کی طرح کھڑا ہوگیا اور درمیان میں راستہ نکل آیا اس سے تصور میں جو صورت حال بنتی ہے وہ اسی طرح ممکن ہے کہ بنی اسرائیل نے دریا کے ایسے حصے سے عبور کیا ہو جو دہانہ یا کنارے کے سامنے کا حصہ نہ ہو بلکہ پانی کا ایسا حصہ ہو جو درمیان سے پھٹ کردو حصے بن سکتا ہو دوسرے لفظوں میں یوں کہہ لیجیے کہ قرآن عزیز صاف صاف اس بات کا اعلان کرتا ہے کہ بنی اسرائیل خشکی کے راستے سے قلزم کے دہانہ یا کنارے سے نہیں گزرے تھے بلکہ دریا کے کسی درمیانی حصہ کو عبور کر کے میدان سینا میں پہنچے تھے اور یہ ظاہر ہے کہ مد و جزر طولانی حصہ میں دہانہ کی جانب ہوا کرتا ہے۔ عرض میں اس طرح کبھی بھی نہیں ہوتا کہ پانی دونوں جانب سمٹ جائے اور بیچ میں خشکی کی راہ پیداہو جائے لہٰذا اللہ تعالیٰ کے اس عظیم الشان معجزہ کا انکار کرتے ہوئے اس کو روز مرہ کے مادی اسباب کے نیچے لانے کی سعی کرنا قرآنی تصریحات کے بالکل خلاف اور اس کی تحریف کے مترادف ہے۔ حاصل کلام یہ کہ اللہ تعالیٰ نے فرعون اور آل فرعون جیسے جرائم پیشہ لوگوں کو ان کے جرائم کی سزا دی کہ انھیں سمندر میں غرق کردیا اور یہ سزا ان کو اس لیے نہیں دی کہ پروردگار اپنے بندوں کے لیے ظالم ہے بلکہ اس لیے دی کہ انھوں نے نہ صرف پیغمبر کی دعوت کو ماننے سے انکار کیا بلکہ اللہ کے ایک سے ایک بڑے نشان کو دیکھا ‘ ایک سے ایک بڑھ کر عذاب ان پر آیا اور ان میں سے ہر عذاب اپنے منہ سے بول رہا تھا کہ میں اللہ کی قدرت کا ظہور ہوں اور حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی صداقت کی دلیل ہوں لیکن ان ظالموں نے کسی سے بھی سبق سیکھنے کی زحمت گوارا نہ کی بلکہ ہر ایک کا مذاق اڑایا اور حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو پیغمبر سمجھنے کی بجائے ہمیشہ جادوگر سمجھا۔ ایسے لوگوں کا انجام اس سے سوا اور کیا ہوسکتا تھا کہ اللہ کی زمین کو ان سے خالی کرا دیا جائے۔ چناچہ ان کو مٹا دینے کے بعد اللہ نے ان لوگوں کو زمین پر اقتدار عطا فرمایا جس کے ساتھ انھوں نے آج تک ظالمانہ رویہ اختیار کر رکھا تھا۔ اگلی آیت کریمہ میں اسی کا تذکرہ فرمایا جا رہا ہے۔
Top