Kashf-ur-Rahman - Al-Anbiyaa : 64
فَرَجَعُوْۤا اِلٰۤى اَنْفُسِهِمْ فَقَالُوْۤا اِنَّكُمْ اَنْتُمُ الظّٰلِمُوْنَۙ
فَرَجَعُوْٓا : پس وہ لوٹے (سوچ میں پڑھ گئے) اِلٰٓى : طرف۔ میں اَنْفُسِهِمْ : اپنے دل فَقَالُوْٓا : پھر انہوں نے کہا اِنَّكُمْ : بیشک تم اَنْتُمُ : تم ہی الظّٰلِمُوْنَ : ظالم (جمع)
اس پر وہ مشرک اپنے دلوں کی جانب متوجہ ہوئے اور آپس میں کہنے لگے اس میں شک نہیں کہ تم ہی ناحق پر ہو۔
(64) پھر وہ مشرک اپنے دلوں کی جانب متوجہ ہوئے اور سوچنے لگے اور آپس میں کہنے لگے اس میں شک نہیں کہ تم ہی ناحق پر ہو۔ یعنی حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے اس کہنے پر کہ اگر یہ بولتے ہیں تو ان ہی سے پوچھ لو وہ مشرک سوچ میں پڑگئے اور آپس میں یوں کہنے لگے کہ تم ہی ناحق پر ہو، یعنی بت پرستی کرنے کے لئے تمہارے پاس کوئی دلیل نہیں ہے۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں سمجھے کہ پتھر پوجنا کیا حاصل۔ 12 بعض مفسرین نے فرمایا ہے کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ انہوں نے آپس میں کہا کہ تم ہی ناحق پر ہو یعنی جب تم نے یہ دیکھا تھا کہ ابراہیم (علیہ السلام) تمہارے معبودوں کا مخالف ہے تو تم بت خانے کو کھلا چھوڑ کر چلے گئے اور اپنے معبودوں کی حفاظت کا کوئی انتظام نہ کیا۔
Top