Tafseer-e-Mazhari - Al-Anbiyaa : 7
وَ مَاۤ اَرْسَلْنَا قَبْلَكَ اِلَّا رِجَالًا نُّوْحِیْۤ اِلَیْهِمْ فَسْئَلُوْۤا اَهْلَ الذِّكْرِ اِنْ كُنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ
وَمَآ : اور نہیں اَرْسَلْنَا : ہم نے قَبْلَكَ : تم سے پہلے اِلَّا : مگر رِجَالًا : مرد نُّوْحِيْٓ : ہم وحی بھیجتے تھے اِلَيْهِمْ : ان کی طرف فَسْئَلُوْٓا : پس پوچھ لو اَهْلَ الذِّكْرِ : یاد رکھنے والے اِنْ : مگر كُنْتُمْ : تم ہو لَا تَعْلَمُوْنَ : تم نہیں جانتے
اور ہم نے تم سے پہلے مرد ہی (پیغمبر بنا کر) بھیجے جن کی طرف ہم وحی بھیجتے تھے۔ اگر تم نہیں جانتے تو جو یاد رکھتے ہیں ان سے پوچھ لو
وما ارسلنا من قبلک الا رجالا نوحی الیہم فسئلوا اہل الذکر ان کنتم لا تعلمون۔ (اے محمد ﷺ ہم نے آپ سے پہلے بھی صرف مردوں کو ہی پیغمبر بنا کر بھیجا جن کے پاس ہم وحی بھیجتے تھے پس (اے مکہ والو) تم اہل ذکر یعنی اہل کتاب سے پوچھ لو اگر تم کو اس کا علم نہیں ہے۔ یعنی اہل کتاب سے پوچھ لو کہ سابق پیغمبر آدمی ہوئے یا فرشتے ‘ تاکہ تمہارا شبہ جاتا رہے۔ اہل کتاب سے پوچھنے کا حکم دینے کی وجہ یا تو یہ ہے کہ مشرکین مکہ کو رسول اللہ ﷺ (اور دوسرے دینی امور) کے سلسلہ میں اہل کتاب پر اعتماد تھا ان سے مشورہ لیا کرتے تھے۔ یا یہ وجہ ہے کہ متواتر خبر موجب یقین ہوتی ہے خواہ اہل تواتر کافر ہی ہوں اور چونکہ آدمیوں کا ہی پیغمبر ہونا ہر زمانہ میں بطور متواتر مسلسل بیان کیا جاتا رہا ہے اس لئے یہودیوں کا قول بھی اس کے متعلق قابل اعتبار ہے۔
Top