Tafseer-e-Majidi - Al-Anbiyaa : 7
وَ مَاۤ اَرْسَلْنَا قَبْلَكَ اِلَّا رِجَالًا نُّوْحِیْۤ اِلَیْهِمْ فَسْئَلُوْۤا اَهْلَ الذِّكْرِ اِنْ كُنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ
وَمَآ : اور نہیں اَرْسَلْنَا : ہم نے قَبْلَكَ : تم سے پہلے اِلَّا : مگر رِجَالًا : مرد نُّوْحِيْٓ : ہم وحی بھیجتے تھے اِلَيْهِمْ : ان کی طرف فَسْئَلُوْٓا : پس پوچھ لو اَهْلَ الذِّكْرِ : یاد رکھنے والے اِنْ : مگر كُنْتُمْ : تم ہو لَا تَعْلَمُوْنَ : تم نہیں جانتے
اور ہم نے آپ سے قبل مردوں ہی کو (پیغمبر بنا کر) بھیجا ہے جن پر ہم وحی کرتے رہے ہیں،10۔ سو تم اہل کتاب سے پوچھ دیکھو اگر تم علم نہیں رکھتے،11۔
10۔ یعنی سلسلہ نبوت تو ہمیشہ انسانوں ہی کی معرفت جاری رکھا گیا ہے نبی تو ہر دور میں، ہر ملک میں، آدمی ہی بنا کر بھیجا گیا ہے کوئی جن، کوئی فرشتہ، کوئی فوق البشر انسانی آبادی کے لئے پیغمبر بنا کر نہیں بھیجا گیا ہے۔ (آیت) ” الارجالا “۔ بشر کے بجائے رجل کے لفظ کے استعمال میں اشارہ اس طرف بھی ہے کہ نبوت ہمیشہ مردوں ہی کو ملی ہے نہ کہ عورتوں کو۔ عارف تھانوی (رح) نے یہاں فرمایا کہ اسی اصل کی بناء پر اہل طریق بھی خلافت مردوں ہی کو دیتے ہیں۔ 11۔ (کہ تم تو سرے سے سلسلہ نبوت و طریق وحی ہی کے منکر ہو) مشرکین تو تمامتر بروز، حلول وغیرہ کے چکر میں پھنسے رہتے ہیں، نبوت، رسالت نزول وحی کے اصول ومبادیات ہی سے منکر وبیگانہ۔ (آیت) ” اھل الذکر “۔ سے مراد اہل کتاب ہیں، اے اھل التورۃ والانجیل (ابن عباس ؓ اے اھل الکتاب (روح، عن الحسن وقتادۃ وغیرہا) وھم اھل الکتاب (کبیر)
Top