Mualim-ul-Irfan - Al-Anbiyaa : 7
وَ مَاۤ اَرْسَلْنَا قَبْلَكَ اِلَّا رِجَالًا نُّوْحِیْۤ اِلَیْهِمْ فَسْئَلُوْۤا اَهْلَ الذِّكْرِ اِنْ كُنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ
وَمَآ : اور نہیں اَرْسَلْنَا : ہم نے قَبْلَكَ : تم سے پہلے اِلَّا : مگر رِجَالًا : مرد نُّوْحِيْٓ : ہم وحی بھیجتے تھے اِلَيْهِمْ : ان کی طرف فَسْئَلُوْٓا : پس پوچھ لو اَهْلَ الذِّكْرِ : یاد رکھنے والے اِنْ : مگر كُنْتُمْ : تم ہو لَا تَعْلَمُوْنَ : تم نہیں جانتے
اور نہیں بھیجے ہم نے اس سے پہلے رسول مگر مرد جن کی طرف ہم وحی بھیجتے تھے۔ پس پوچھ لو (اے انکار کرنے والو) علم والوں سے اگر تم نہیں جانتے
ربط آیات : سورۃ الانبیاء میں اللہ تعالیٰ نے توحید ، رسالت اور قیامت کا ذکر فرمایا ہے اور نبیوں کے طریقہ تبلیغ کو واضح کیا ہے۔ اس میں نافرمانوں کو برے انجام سے ڈرایا گیا ہے اور اس سلسلے میں نبوت و رسالت پر اعتراضات اور شکوک و شبہات کو رفع کیا گیا ہے۔ گزشتہ آیات میں اللہ تعالیٰ نے منکرین کے بارے میں دو چیزوں کا بطور خاص ذکر فرمایا۔ انہوں نے پوشیدہ طور پر میٹنگ کی اور پیغمبر اور قرآن کے متعلق غلط نظریہ قائم کیا ، قرآن پاک کے متعلق کہا کہ یہ شعر و شاعری ، سحر یا پریشان خواب ہیں۔ اللہ کے آخری نبی کو کاہن ، ساحر اور شاعر کہا گیا ، اور اس طرح دین حق کا انکار کردیا گیا۔ اسلامی پروگرام کی مخالفت : گزشتہ آیات میں آمدہ الفاظ واسروا النجویٰ بڑی اہمیت کے حامل ہیں ۔ مشرکین نے قصی ابن کلاب کے مکان دارالندوہ کو اپنا اسمبلی ہال بنارکھا تھا جہاں اسلام کے خلاف خفیہ اجلاس ہوتے اور اسلام کے راستے کو روکنے کے لئے طرح طرح کے منصوبے بنتے۔ آج بھی دنیا میں غیر مسلم اقوام اسلام کے پروگرام کو ناکام بنانے کے لئے طرح طرح کی سکی میں سوچتی رہتی ہیں۔ یہودی ، عیسائی ، دہریے ، ملحد ، کمیونسٹ ، ہنود اور دیگر باطل مذاہب والے اسلام اور مسلمانوں کے خلاف کام کرنے کا موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے ، مگر اسلام اللہ کا سچا دین ہے جس کی حفاظت کا ذمہ خود اللہ تعالیٰ نے لے رکھا ہے۔ وہ ایسے اسباب پیدا کردیتا ہے جس سے اسلام دشمن طاقتوں کو مکمل طور پر کامیابی حاصل نہیں ہوتی۔ حقیقت یہ ہے کہ اگر اسلام کی حفاظت صرف مسلمانوں کے ذمے ہوتی ، تو یہ کب کے معدوم ہوچکے ہوتے تاریخی لحاظ سے دیکھ لیں کہ مسلمان کس قدر زوال کا شکار ہیں ، گزشتہ آٹھ صدیوں سے مسلمان سیاسی ، اقتصادی اور اخلاقی لحاظ سے انحطاط کا شکار ہیں۔ تمام اسلامی سلطنتیں کمزور ہیں۔ غرضیکہ تاتاریوں کے زمانے میں جب سے مسلمان کا پائوں پھسلا ہے پھر سنبھل نہیں سکا۔ بشریت انبیائ : گذستہ درس میں گزر چکا ہے کہ منکرین کا ایک اعتراض یہ تھا۔ ھل ھذا الا بشر مثلکم یہ شخص تو تمہارے ہی جیسا انسان ہے۔ بھلا اس کو تم رسول کیسے مان لو گے ؟ اس میں تو کوئی خاص بات نہیں ہے۔ کوئی فرشتہ ہوتا جس میں انسانی لوازمات نہ ہوتے تو ہم مان بھی لیتے۔ مگر ایک انسان کو نبی مان کر ہم خسارے میں کیوں پڑیں ؟ تو اس اعتراض کے جواب میں اللہ نے یہاں فرمایا ہے وما ارسلنا قبلک الا رجالا نوحی الیھم اور نہیں بھیجے ہم نے اس سے پہلے نبی اور رسول مگر وہ مرد ہی تھے اور ہم ان کی طرف وحی نازل کیا کرتے تھے۔ مطلب یہ کہ نبی آخرالزمان کا انسان ہونا کوئی انوکھی بات نہیں بلکہ اس سے پہلے ہم نے جتنے بھی نبی اور رسول بھیجے وہ انسان تھے اور مردوں میں سے تھے۔ کوئی جن یا فرشتہ یا کوئی دوسری مخلوق انسانوں کی طرف نبی بن کر نہیں آیا۔ وجہ ظاہر ہے کہ انسان انسان ہی سے استفادہ حاصل کرسکتے ہیں اور یہ چیز کسی دوسری مخلوق سے ممکن نہیں۔ لہٰذا اس میں مشرکین کافرین اور منکرین کو کسی قسم کا شک وشبہ نہیں ہونا چاہیے۔ فرمایا اگر تم اس حقیقت سے نابلد ہو اور تمہیں یقین نہیں ہے کہ سابقہ تمام انبیاء بھی انسانوں میں سے آئے ہیں تو پھر فسئلو اھل الذکر ان کنتم لا تعلمون اہل ذکر یعنی علم والے لوگوں سے دریافت کرلو ، اگر تم خود نہیں جانتے۔ تمہارے پاس اہل کتاب موجود ہیں جو سابقہ کتب کا علم رکھتے ہیں ، وہ تمہیں بتادیں گے کہ سابقہ انبیاء واقعی انسان تھے۔ تم میں تاریخ دان حضرات بھی ہوں گے جو کہ پرانی تاریخ سے واقف ہوں گے ، ان سے تصدیق کرو۔ انبیاء (علیہم السلام) کی انسانیت ، آدمیت اور بشریت کا کسی نے انکار نہیں کیا۔ حضرت نوح ابراہیم ، موسیٰ اور عیسیٰ (علیہم السلام) سب انسان ہی تو تھے ، حتیٰ کہ پوری نبی نوع انسان کے جدامجد حضرت آدم (علیہ السلام) بھی سب سے اولین انسان اور بشر تھے۔ ایک بات تو یہ ہوگئی کہ ہر نبی انسان ہوتا ہے۔ اور دوسری بات یہ ہے وہ رجالا یعنی مرد ہوتے ہیں۔ کوئی عورت کبھی منصب نبوت پر فائز نہیں ہوئی ، بلکہ ایک لاکھ سے زائد تمام انبیاء اور رسل مردوں میں سے مبعوث ہوئے۔ اللہ تعالیٰ نے عورتوں کو بھی بڑی فضیلت بخشی ہے۔ حتیٰ کہ انہیں نبوت کے بعد دوسرے درجے صدیقیت کا مقام عطا کیا ہے ، مگر نبوت عطا نہیں کی ، حضور ﷺ کا فرمان (بخاری ص 532 ج 1 (فیاض) ہے۔ کمل من الرجال کثیر ولم یکمل من النساء الا مریم ابنت عمران وخدیجۃ بنت خویلد واسیۃ بنت مزاحم امراۃ فرعون وفضل عائشۃ علی النساء کفضل الثرید علی سائر الطام۔ مردوں میں سے تو بہت سے کاملین گزرے ہیں (یعنی انبیائ ، رسل اور صدیق) مگر عورتوں میں سے اللہ نے مریم بنت عمران ، خدیجہ بنت خویلد ، آسیہ بنت مزاحم زوجہ فرعون کو فضیلت بخشی ہے۔ اور حضرت عائشہ ؓ کی فضیلت تمام عورتوں پر ایسی ہے جیسے ثرید کھانے کی باقی کھانوں پر (کہ یہ عربوں میں بڑا مرغوب کھانا ہے) حضرت عائشہ ؓ کی فضیلت آپ کی ظاہری حسن و جمال ، فقاہت اور دین میں سمجھ کی وجہ سے ہے۔ آپ نے دین کی بڑی خدمت کی۔ امت کی عورتوں کی تربیت کی اور ان کو دین سکھایا۔ اللہ نے حضرت مریم ؓ کے بارے میں فرمایا ہے وامہ صدیقۃ یعنی حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی والدہ صدیقہ تھیں۔ اللہ نے آپ کو اتنی بڑی فضیلت عطا فرمائی تھی۔ تاہم کسی عورت کو اللہ نے نبی نہیں بنایا۔ امام شعرانی (رح) اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ تمام اہل حق اس بات پر متفق ہیں کہ اللہ نے استرشاد یعنی ہدایت اور راہنمائی کا کام اصلاً مردوں کے سپرد کیا ہے اور عورتوں کو مردوں کے تابع رکھا ہے۔ عورتوں کو کار تبلیغ کا مکلف نہیں بنایا۔ حقیقت یہ ہے کہ اجتماعیت کے سارے کام منجملہ نظام حکومت ، جمعہ ، عیدین اور نماز کے لئے جماعت کا قیام اور فریضہ جہاد اللہ نے براہ راست مردوں کی ذمہ داری میں دیا ہے۔ زن ومرد کا دائرہ کار : بعض عورتوں نے حضور ﷺ کی خدمت میں عرض کیا کہ حضور ! مرد جہاد میں براہ راست حصہ لے کر بڑی فضیلت حاصل کرتے ہیں مگر ہم عورتیں اس سے محروم ہیں۔ آپ (علیہ السلام) (بخاری ص 402 ج 1 (فیاض) نے فرمایا جھاد کن الحج تمہارا حج ہی ہے ، جنگ میں براہ راست حصہ لینا تمارے فرائض میں داخل نہیں ہے۔ ہاں اگر دوران جنگ غیر معمولی حالات پیش آجائیں تو پھر عورتیں لڑائی کے دوران بالواسطہ حصہ لے سکتی ہیں ، مثلاً مجاہدین کو پانی پلانے یا ان کی مرہم پٹی کے کام میں ہاتھ بٹا سکتی ہیں۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ بعض لوگوں کا یہ دعویٰ درست نہیں ہے کہ عورتیں اور مرد ہر میدان میں برابر سرابر ہیں ۔ عورتیں مکلف ہونے میں تو مردوں کے مساوی ہیں مگر احکام میں نہیں۔ اللہ نے وراثت میں ایک مرد کا حصہ دوعورتوں کے برابر رکھا ہے۔ عورتوں پر نماز باجماعت فرض نہیں ہے۔ حضور ﷺ نے اس حد تک فرمایا ہے کہ جب تمہاری عورتیں مسجد میں جانے کی اجازت طلب کریں تو انہیں اجازت دے دیا کرو وبیوتھن خیر لھن مگر ان کے گھر ہی ان کے لئے بہتر ہیں۔ عورت کی نمازمسجد کی نسبت گھر میں زیادہ فضیلت رکھتی ہے اگر راستہ پر امن ہو ، عورت نے بھڑکیلا لباس نہ پہن رکھا ہو ، خوشبو نہ لگائی ہو ، تو اسے مسجد میں جانے کی اجازت ہے تاہم عورت جتنی تاریکی اور بند کمرے میں نماز ادا کرے گی اتنا ہی زیادہ اجر کی مستحق ہوگی۔ نئی تہذیب میں عورتوں کے حقوق کی بات کی جاتی ہے۔ انہیں اسمبلیوں میں نمائندگی کا حق دیا جاتا ہے ، مردوں کے شانہ بشانہ چلنے کی حمایت کی جاتی ہے ، یہ تو انگریزی سیاست اور جہالت کا نظریہ ہے کیونکہ اللہ نے عورتیں مردوں کے تابع رکھی ہیں۔ فوج ، پولیس ، نظام حکومت عورتوں کا دائرہ کار نہیں ہے۔ البتہ بعض غیر معمولی حالات میں عورتیں ضروری معاملات میں تعاون تو کرسکتی ہیں مگر یہ ان کی ذمہ داری نہیں ہے۔ غرضیکہ اللہ نے فرمایا کہ ہم نے جتنے بھی نبی اور رسول بھیجے ہیں سب کے سب مرد تھے ، کسی دوسری جنس سے نہیں تھے۔ فرمایا اگر تمہیں کسی کا شک توتردد ہو تو اہل علم سے دریافت کرو ، وہ تمہیں بتلادیں گے کہ یہ بات درست ہے۔ ذکر کے مختلف معانی : ذکر کے کئی معانی آتے ہیں۔ صاحب قاموس کہتے ہیں کہ ذکر کا معنی کسی چیز کو یاد کرنا ہوتا ہے اور اس کا معنی شہرت بھی ہوتا ہے۔ ذکر شرف کے معنوں میں بھی استعمال ہوتا ہے جیسے فرمایا وانہ لذکر لک ولقومک یہ قرآن آپ کے لئے اور آپ کی قوم قریش کے لئے باعث عزت وشرف ہے۔ والقراٰن ذی الذکر قسم ہے عزت اور شرافت والے قرآن کی۔ اسی طرح قرآن کا معنی کتاب بھی آتا ہے جس میں دینی مسائل اور مکمل کا ذکر ہو۔ بہرحال فرمایا کہ سارے نبی انسان اور مرد ہوئے ہیں ، اگر تمہیں اس بات کا علم نہیں تو اہل علم سے اس بات کی تصدیق کرلو۔ نبی اور رسول کا انسان ہونا کوئی غیب کی بات ہیں ہے بلکہ یہ تو باعث شرف ہے ۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ نبی کو بشر کہنے سے نعوذ باللہ ان کی توہین ہوجاتی ہے۔ ایسا نہیں ہے نبی کا مقام بحیثیت انسان ، دینی ، اخلاقی علمی اور عملی لحاظ سے ہوتا ہے۔ نبی کی روحانیت اور عمل اعلیٰ درجے کا ہوتا ہے۔ اس کا ایک ہی عمل ساری امت کے اعمال پر بھاری ہوتا ہے نبوت کا تعلق روحانیت اور اخلاق کی بلندی سے ہوتا ہے۔ انسان ہونا منصب نبوت کے ہرگز منافی نہیں۔ انبیاء میں انسانی لوازمات : آگے ارشاد ہوتا ہے وماجعلنھم جسد الا یاکلون الطام ہم نے انبیاء کے جسم ایسے نہیں بنائے جو کھانا نہ کھاتے ہوں انسان ہونے کے ناطے سے انبیاء کو بھوک بھی لگتی تھی اور بعض اوقات بھوک کی وجہ سے بےچین بھی ہوجاتے تھے حتیٰ کے بعض اوقات پیٹ پر پتھر بھی باندھنا پڑتے تھے۔ مطلب یہ کہ کھانا پینا کمال کے منافی امر نہیں ہے۔ ایک دفعہ حضور ﷺ گھر سے باہر نکلے۔ دیکھا کہ حضرت ابوبکر صدیق ؓ بھی گھر سے باہر ہیں۔ پوچھا تم کیسے آئے ہو ؟ عرض کیا آپ کی زیارت کے لئے اس کے تھوڑی دیر بعد حضرت عمر ؓ بھی آگئے۔ ان سے دریافت کیا کہ تم کیسے گھر سے باہر آئے ؟ عرض کیا ، بھوک نے ستا رکھا ہے مگر گھر میں کچھ نہیں ملا ، آپ ﷺ نے فرمایا ، میں بھی ایسا ہی محسوس کررہا ہوں۔ پھر فرمایا چلو ابولہثیم انصاری ؓ کے باغ میں چلتے ہیں۔ آپ وہاں تشریف لے گئے اس صحابی نے ٹھنڈا پانی پلایا ، کھجوریں کھلائیں اور بکری ذبح کرکے گوشت بھی پیش کیا جو کہ حضور ﷺ اور آپ کے دونوں جاں نثاروں نے تناول فرمایا۔ حضور ﷺ نے یہ بھی فرمایا کہ ٹھنڈا پانی اور کھجوریں ایسی نعمتیں ہیں کہ جن کے متعلق قیامت کے دن تم سے سوال کیا جائے گا۔ ایک موقع پر حضور ایک دیوار کے ساتھ ٹیک لگا کر تشریف فرما تھے۔ ایک صحابی آئے وھو مقع من الجوع ان کا پیٹ بھوک کی وجہ سے چپک گیا تھا۔ حضرت جابر ؓ کی روایت میں آتا ہے کہ انہوں نے دیکھا کہ بھوک کی وجہ سے حضور ﷺ بڑے کمزور معلوم ہو رہے ہیں۔ آپ فوراً گھر گئے اور بیوی سے پوچھا کہ کیا گھر میں کھانے کے لئے کچھ ہے کیونکہ حضور ﷺ بھوک کی وجہ سے پریشان ہو رہے ہیں اور پھر آگے حضور اور بہت سے صحابہ کو کھانا کھلانے کا واقعہ آتا ہے۔ غرضیکہ بھوک نبیوں کو بھی لگتی ہے اور ان پر دیگر امور طبعیہ جیسے پیاس ، قضائے حاجت ، سونا جاگنا ، بیماری ، تندرستی ، زخمی ہونا ، ہنسنا ، رونا ، موت اور حیات وغیرہ بھی وارد ہوتے ہیں۔ فرمایا ، ہم نے انبیاء کو کھانا کھانے سے مستثنیٰ نہیں کیا۔ انبیاء اولاد اور بیویوں سے بھی پاک نہیں تھے ، اللہ کا فرمان ہے وجعلنا لھم ازواجا و ذریۃ (الرعد 2 , 8) انبیاء شادی بھی کرتے ہیں اور ان کے ہاں اولاد بھی ہوتی ہے اور دیگر انسانوں کی طرح وما کانوا خلدین وہ ہمیشہ رہنے والے نہیں ہوتے بلکہ اپنا دنیاکا یہ دور ختم کرکے اپنے پروردگار کے ہاں چلے جاتے ہیں۔ دسری جگہ فرمایا افائن………الخلدون (الانبیاء 34) اگر آپ فوت ہوجائیں گے تو کیا یہ لوگ ہمیشہ رہنے والے ہیں ؟ یہ بھی تو مرنے والے ہیں۔ اللہ نے یہ بھی فرمایا ہے انک میت وانھم میتون (الزمر 30) آپ بھی فوت ہونے والے ہیں اور یہ لوگ بھی۔ اس دنیا میں کسی کو بھی دوام حاصل نہیں۔ اللہ کا عام قانون بھی یہی ہے کل نفس ذائقۃ الموت (آل عمران 185) ہر نفس کو موت آنی ہے۔ سب نے اللہ کے حضور پیش ہو کر حساب کتاب دینا ہے۔ غرضیکہ تمام انبیاء (علیہم السلام) انسان اور مرد تھے ، اللہ نے ان پر وحی نازل فرمائی ، کتاب دی ، علم اور شریعت دی ، ان کو امت کے لئے نمونہ بنایا ان کا اخلاق بلند کیا۔ وہ اپنے علم ، عمل اور اخلاق کے ذریعے مخلوق خدا کو صراط مستقیم کی طرف دعوت دیتے تھے۔ اللہ نے ان کو عام انسانوں کی نسبت بلند مرتبہ عطا فرمایا تھا۔ یہی ان کی خصوصیت تھی ، تاہم ان کے انسان ہونے میں کوئی شبہ نہیں ہے۔ اہل ایمان کے ساتھ وعدہ : ارشاد ہوتا ہے ثم صدقنھم الوعد پھر ہم نے ان سے سچا وعدہ کیا۔ اہل ایمان کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا وعدہ یہ تھا کہ وہ انہیں خلافت عطا کرے گا اور ان کے مشن کو کامیاب بنائے گا۔ اللہ نے اپنا وہ وعدہ پورا فرمایا فانجینھم ومن نشاء پھر ان کو بھی نجات دی دشمن کے مقابلے میں اور ان کو بھی جن کو ہم نے چاہا۔ جو بھی ایمان لائے اور جنوں نے نیک اعمال انجام دیے ، اللہ نے ان کو دشمنوں سے نجات دی ۔ واھلکنا المسرفین اور حد سے بڑھنے والوں کو ہلاک کیا۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں بہت سے انبیاء کے واقعات بیان کیے ہیں اور پھر ان کی اقوام کی ہلاکت کا ذکر کیا ہے جیسے قوم نوح ، قوم ہود ، قوم لوط ، قوم شعیب ، قوم صالح وغیرہ۔ قرآن بطور نصیحت : آگے اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک جیسی عظیم نعمت کا تذکرہ فرمایا ہے ارشاد ہوتا ہے لقد انزلنا الیکم کتبا اور البتہ تحقیق ہم نے تمہاری طرف ایک کتاب نازل کی ہے۔ فیہ ذکرکم جس میں تمہارے لئے نصیحت کا سامان ہے۔ جیسا کہ پہلے بیان ہوچکا ہے ذکر سے مراد شرف بھی ہے یعنی یہ قرآن تمہارے اور تمہاری قوم کے لئے باعث عزت وشرف بھی ہے۔ اس سے بڑی عزت کیا ہوسکتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک قریش کی زبان عربی میں نازل فرمایا اور ان کو دین کا اولین داعی بنایا۔ آپ کی قوم کو ساری دنیا کا استاد بنایا۔ سورة بقرہ میں موجود ہے۔ لتکونواشھداء علی الناس ویکون الرسول علیکم شھیدا (آیت 143) تم نبی سے تعلیم حاصل کرکے آگے پوری امت کے معلم بن جائو۔ انا انزلنہ…………تعقلون (یوسف 2) ہم نے قرآن حکیم کو عربی زبان میں نازل کیا تاکہ سب سے پہلے عرب لوگ خصوصاً قریش اس سے مستفید ہوں ، اور پھر اس مشن کو آگے چلائیں۔ اور پھر ایسا ہی ہوا ۔ خلفائے راشدین ؓ کے زمانے میں جنگ صفیں تک صحابہ کرام ؓ قرآن پاک کے پیغام کو لے کر آگے بڑھتے رہے۔ اس واقعہ کے بعد مسلمانوں کے حالات میں اجتماعی جمود (Dead lock) پیدا ہوگیا۔ ان کی ترقی رک گئی اور زوال کا دور شروع ہوگیا۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ نشاۃ ثانیہ میں اسلام کو برتری عطا فرمائے۔ یقین ہے کہ آخری دور میں پھر اسلام کو غلبہ نصیب ہوگا۔ اور باقی تمام ادیان مغلوب ہوجائیں گے۔ بہرحال فرمایا کہ ہم نے تمہاری طرف ایک کتاب نازل کی ہے جس میں تمہارے لئے نصیحت ہے ، شرف اور عزت ہے۔ افلا تعقلون کیا تم عقل نہیں رکھتے ؟ کیا تم اس بات پر غور نہیں کرتے کہ اللہ نے یہ کتنی بڑی نعمت تمہیں عطا کی ہے اللہ کے انعام کا شکریہ ادا کرو اور قرآن پاک اور رسالت پر اعتراض نہ کرو بلکہ ان پر ایمان لے آئو۔ اسی میں تمہاری فلاح و کامیابی ہے۔
Top