Ashraf-ul-Hawashi - An-Noor : 16
وَ لَوْ لَاۤ اِذْ سَمِعْتُمُوْهُ قُلْتُمْ مَّا یَكُوْنُ لَنَاۤ اَنْ نَّتَكَلَّمَ بِهٰذَا١ۖۗ سُبْحٰنَكَ هٰذَا بُهْتَانٌ عَظِیْمٌ
وَلَوْلَآ : اور کیوں نہ اِذْ : جب سَمِعْتُمُوْهُ : تم نے وہ سنا قُلْتُمْ : تم نے کہا مَّا يَكُوْنُ : نہیں ہے لَنَآ : ہمارے لیے اَنْ نَّتَكَلَّمَ : کہ ہم کہیں بِھٰذَا : ایسی بات سُبْحٰنَكَ : تو پاک ہے ھٰذَا : یہ بُهْتَانٌ : بہتان عَظِيْمٌ : بڑا
اور تم نے ایسا کیوں نہیں کیا جب یہ (جھوٹی) خبر سنی تھی تو کہہ دینا تھ اہم ایسی (برت بات) منہ سے نہیں نکال سکتے سبحان اللہ یہ بڑا بھاری طوفان ہے5
5 ۔ اس میں ان لوگوں کو تو بیخ کی ہے جو اس واقعہ کو سن کر اس میں دلچسپی لے رہے تھے۔ مروی ہے کہ حضرت سعد ؓ بن معاذ نے جب حضرت عائشہ ؓ کے بارے میں قیل و قال کو سنا تو انہوں نے برملا اس کو جھٹلایا اور کہا : ” سبحانک ھذا بھتان عظیم “۔ کیونکہ انبیاء (علیہم السلام) کے حرم اس قسم کے ملوثات سے بالا ہوتے ہیں۔ حضرت نوح ( علیہ السلام) اور حضرت لوط ( علیہ السلام) کی بیوی کی خیانت، خیانت کفر تھی۔ اس سے معلوم ہوا کہ مسلمانوں کے باہم دگر معاملات کی بنیاد نیک گمان پر ہونی چاہیے۔ اور کسی سے بدگمانی اس وقت تک جائز نہیں جب تک اس کے لئے کوئی واقعی ٹھوس بنیاد نہ ہو۔
Top