Urwatul-Wusqaa - An-Noor : 16
وَ لَوْ لَاۤ اِذْ سَمِعْتُمُوْهُ قُلْتُمْ مَّا یَكُوْنُ لَنَاۤ اَنْ نَّتَكَلَّمَ بِهٰذَا١ۖۗ سُبْحٰنَكَ هٰذَا بُهْتَانٌ عَظِیْمٌ
وَلَوْلَآ : اور کیوں نہ اِذْ : جب سَمِعْتُمُوْهُ : تم نے وہ سنا قُلْتُمْ : تم نے کہا مَّا يَكُوْنُ : نہیں ہے لَنَآ : ہمارے لیے اَنْ نَّتَكَلَّمَ : کہ ہم کہیں بِھٰذَا : ایسی بات سُبْحٰنَكَ : تو پاک ہے ھٰذَا : یہ بُهْتَانٌ : بہتان عَظِيْمٌ : بڑا
جب تم نے ایسی بات کو سنا تو تم نے کیوں نہ کہہ دیا کہ ہم کو زیب نہیں دیتا کہ اس طرح کی بات اپنی زبان پر لائیں (خدایا ! ) تو پاک ہے ، یہ تو بہت بڑا بہتان ہے (جو منافق باندھ رہے ہیں)
اس بات کو سن کر تم نے ھذا بھتان عظیم کیوں نہ کہہ دیا ؟ 24۔ زیر نظر آیت کے مضمون کی ذمہ داری کن لوگوں پر ڈالی گئی ؟ غور کرو گے تو سمجھو گے کہ یہاں تین فریق ہوئے ایک فریق اس بہتان کی بات اٹھانے والا ‘ دوسرا فریق وہ جس پر یہ بہتان باندھا گیا اور تیسرا وہ جو اس بات کو یعنی بہتان کو سننے والا تھا ۔ بہتان باندھنے والے تو بہتان باندھ رہے تھے اور جن لوگوں پر یہ بہتان باندھا گیا ان کو بولنے کا کوئی حق نہیں تھا کیونکہ ان کے بولنے کی اس وقت کوئی قیمت نہ ہوتی اور ظاہر ہے کہ یہ حق صرف ان ہی لوگوں کا تھا جو اس بہتان کو اپنے کانوں سے سن رہے تھے اور قرآن کریم نے بھی انہی لوگوں کو مخاطب کیا جب ارشاد فرمایا کہ (لولا اذ سمعتموہ) ” جب تم نے ایسی بات کو سنا (آیت) ” قلتم ما یکون لنا ان نتکلم بھذا “۔ ” تو تم نے کیوں نہ کہہ دیا کہ ہم کو زیب نہیں دیتا کہ اس طرح کی بات اپنی زبان پر لائیں “ (آیت) ” سبحنک ھذا بھتان عظیم “۔ ” خدایا تو پاک ہے (معاذ اللہ) یہ تو بہت بڑا بہتان ہے “ غور کرو کہ اللہ رب العزت قادروقدیر اور مالک وملیک ہے وہ چاہتا تو ایسے واقعہ کو معرض وجود ہی نہ آنے دیتا اور کوئی شخص اس طرح کی بات کہہ ہی نہ سکتا لیکن اگر یہ واقعہ پیش نہ آتا تو کیا یہ ہدایت ہم کو دی جاسکتی ؟ اگر کسی ایرے غیرے کی بات ہوتی تو اس کے لئے اس چیلنج کے ساتھ بات کی جاسکتی تھی ؟ کیا عام مومن عورتیں اور امہات المومنین ایک ہی درجہ کی عورتیں تھیں ؟ رب ذوالجلال والاکرام نے ان نفوس قدسیہ کے متعلق ایسی بات کہی جانے کی اپنی مشیت کے تحت اجازت دی اور اس طرح ان نفوس قدسیہ کے تقدس کو مزید مقدس بنا کر اور اونچا کردیا اور جماعت مسلمین کو بات سننے اور بات کرنے کا ایک بہت بڑا اہم اصول پریکٹیکلی سمجھا دیا لیکن افسوس کہ ہم نے اس اصول کو سمجھنے کی بجائے اس کو لڑائی لڑنے کا ایک موضوع بنا لیا اور راویوں کی چھان بین شروع کردیئے اور اصل واقعہ کو کچھ سے کچھ کرنا شروع کردیا اور اس واقعہ کا وقت ‘ تاریخ اور دن گننے شروع کردیئے اور اس طرح لوگوں کو باور کرایا کہ وہ ہمارے علم کی داد دیں اس طرح جو اصول ان آیات کریمات میں ہم کو سمجھائے گئے تھے ان کو نہ خود سمجھنے کی کوشش کی اور نہ دوسروں کو ان اصولوں کی طرف آنے کی دعوت دی کہ ہماری زندگیوں کی اصلاح ہو اور ہمیں ان آیات کریمات سے جو درس دیا گیا ہے اور جو سبق سکھایا گیا ہے اس کو سیکھ کر اس کے مطابق اپنی اپنی زندگی کی اصلاح کریں اور جماعتی زندگی کی ذمہ داریوں کو سمجھیں اور ان کو پورا کرنے کی کوشش کریں ۔ ” وما توفیقی الا باللہ علیہ توکلت والیہ انیب “۔
Top