Tadabbur-e-Quran - An-Noor : 4
وَ اِنَّهٗ فِیْۤ اُمِّ الْكِتٰبِ لَدَیْنَا لَعَلِیٌّ حَكِیْمٌؕ
وَاِنَّهٗ : اور بیشک وہ فِيْٓ اُمِّ الْكِتٰبِ : ام الکتاب میں ہے لَدَيْنَا : ہمارے پاس لَعَلِيٌّ حَكِيْمٌ : البتہ بلند ہے، حکمت سے لبریز ہے
اور بیشک یہ اصل کتاب میں ہمارے پاس ہے نہایت بلند اور پر حکمت
وانہ فی آمر الکتب لدینا لعلی حکیم 4 قرآن کی عالی نسبی اس قرآن کی عظمت واضح فرمائی کہ یہ کوئی ہنسی مسخری کی چیز نہیں ہے بلکہ نہایت ہی عالی نسب اور عالمی مقام چیز ہے۔ اس کی عالی نسبی کی وضاحت یوں فرمائی کہ اللہ تعالیٰ کے پاس جو ام الکتب یعنی لوح محفوظ ہے یہ اس میں ہے اور اسی میں یہ تمہاری ہدایت کے لئے نازل کیا گیا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ کوئی اس کو جنتا کا القاء کاہنوں کی کہانت، شاعروں کی شاعری اور خطیبوں کی لفاظی گمان کر کے، اس کا مذاق اڑانے کی کوشش نہ کیر بلکہ یہ روشنی اس منبع نور سے نازل ہوئی ہے جس کے نور ہی سے آسمان و زمین میں روشنی ہے اور جو تمام علم کا حقیقی سرچشمہ ہے۔ بدقسمت ہوں گے وہ لوگ جو اس کی قدر نہ پہنچانیں ! قرآن کی عالی مقامی اس کی عالی مقامی کا اظہار یوں فرمایا کہ لعلی حکیم یہ قرآن بجائے خود نہایت برتر اور پر حکمت ہے۔ یاد ہوگا پچھلی سورة میں بعینیہ یہی صفت آیت 51 میں اللہ تعالیٰ کے لئے آئی ہے اور وحی و قرآن کے بیان ہی کے سلسلہ میں آئی ہے۔ ظاہر ہے کہ ہر کلام متکلم کی فات و خصوصیات کا آئینہ ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ چونکہ علی و حکیم ہے اس وجہ سے اس کا کلام بھی علی و حکیم ہے۔ اس سے یہ اشارہ نکلا کہ جن کے اندر جوہر شناسی کی صلاحیت ہوگی وہ اس کلام کی قدر کریں گے، رہے بلید و بذوق لوگ تو نہ وہ اس کے اہل ہیں نہ وہ اس کی قدر کریں گے۔ اس کی عالی مقامی کے ذکر سے مخالفین کو اس حقیقت کی طرف بھی توجہ دلا دی گئی کہ یہ آسمانوں اور زمین کے خالق کا اتارا ہوا کلام ہے، کسی سائل کی درخواست نہیں ہے۔ اگر تم نے اس کی قدر نہ کی تو تمہیں اپنے کو محروم کرو گے، خدا یا اس کے کلام کا کچھ نہیں بگاڑو گے۔ ان کی عظمت اور برتری اپنی ذاتی ہے جو دوسروں کے رد و قبول سے بالکل بےنیاز ہے۔
Top