Dure-Mansoor - Aal-i-Imraan : 65
یٰۤاَهْلَ الْكِتٰبِ لِمَ تُحَآجُّوْنَ فِیْۤ اِبْرٰهِیْمَ وَ مَاۤ اُنْزِلَتِ التَّوْرٰىةُ وَ الْاِنْجِیْلُ اِلَّا مِنْۢ بَعْدِهٖ١ؕ اَفَلَا تَعْقِلُوْنَ
يٰٓاَھْلَ : اے الْكِتٰبِ : اہل کتاب لِمَ : کیوں تُحَآجُّوْنَ : تم جھگڑتے ہو فِيْٓ : میں اِبْرٰهِيْمَ : ابراہیم وَمَآ : اور نہیں اُنْزِلَتِ : نازل کی گئی التَّوْرٰىةُ : توریت وَالْاِنْجِيْلُ : اور انجیل اِلَّا : مگر مِنْۢ بَعْدِهٖ : اس کے بعد اَفَلَا تَعْقِلُوْنَ : تو کیا تم عقل نہیں رکھتے
اے اہل کتاب کتاب تم کیوں حجت کرتے ہو ابراہیم کے بارے میں، حالانکہ نہیں اتاری گئی توریت اور انجیل مگر ان کے بعد، کیا تم عقل نہیں رکھتے ہو۔
(1) ابن اسحاق ابن جریر اور بیہقی نے دلائل میں حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا ہے کہ نجران کے نصاری اور یہودیوں کے علماء رسول اللہ ﷺ کے پاس جمع ہوئے اور انہوں نے آپ کے پاس باہم جھگڑا کیا یہودیوں کے علماء نے کہا کہ ابراہیم (علیہ السلام) یہودی تھے اور نصاری نے کہا ابراہیم (علیہ السلام) نصرانی تھے تو اللہ تعالیٰ نے دونوں کے بارے میں یہ آیت اتار دی۔ لفظ آیت ” ما کان لبشر ان یؤتیہ اللہ الکتب والحکم والنبوۃ ثم یقول للناس کونوا عبادا لی من دون اللہ “ سے لے کر ” بعد اذ انتم مسلمون “ تک پھر ذکر فرمایا جو ان سے اور ان کے آباؤ اجداد سے جو وعدہ لیا گیا تھا آپ ﷺ کی تصدیق کرنے کا جب آپ ان کے پاس تشریف لائیں گے اور انہوں نے اس کا اقرار بھی کیا تھا تو فرمایا لفظ آیت ” واذ اخذ اللہ میثاق النبین “ سے لے کر ” معکم من الشھدین “ تک۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) دین حنیف پر تھے (2) عبد بن حمید، ابن جریر، ابن المنذر اور قتادہ (رح) سے روایت کیا ہے کہ ہم کو یہ بات ذک کی گئی کہ نبی اکرم ﷺ نے مدینہ کے یہودیوں کو بلایا اور وہ لوگ ابراہیم (علیہ السلام) کے بارے میں جھگڑا کرتے تھے اور گمان کرتے تھے کہ وہ یہودی ہو کر مرے ہیں اللہ تعالیٰ نے ان کو جھوٹا قرار دیا اور اس سے ان کی نفی فرمائی اور فرمایا لفظ آیت ” یاھل الکتب لم تحاجون فی ابراہیم “ اور تم گمان کرتے ہو کہ وہ یہودی یا نصرانی تھے (حالانکہ) ” وما انزلت التوراۃ والانجیل “ یہودیت اور نصرانیت ان کے بعد تھی ” افلا تعقلون “ یعنی کیا تم نہیں سمجھتے ہو۔ (3) عبد بن حمید، ابن جریر، ابن المنذر اور ابن ابی حاتم نے مجاہد (رح) سے لفظ آیت ” یاھل الکتب لم تحاجون فی ابراہیم “ کے بارے میں روایت کیا ہے کہ یہود اور نصاری دونوں سے اللہ تعالیٰ نے برأت کا اظہار فرمایا جب ہر جماعت نے ان میں سے ہونے کا دعوی کیا اور ملایا مومنوں کے ساتھ جو یکسو ہو کر اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنے والے ہیں۔ (4) ابن ابی حاتم نے سدی (رح) سے اس آیت ” یاھل الکتب لم تحاجون فی ابراہیم “ کے بارے میں روایت کیا ہے کہ (جب) نصاری نے کہا کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نصرانی تھے اور یہودیوں نے کہا کہ وہ یہودی تھے تو اللہ تعالیٰ نے ان کو خبر دی کہ تورات اور انجیل تو ان کے بعد نازل کی گئیں اس لیے یہودیت اور نصرانیت تو ان کے بعد شروع ہوئی۔ (5) ابن ابی حاتم نے ابو العالیہ (رح) سے روایت کیا ہے کہ ” ھانتم ھؤلاء حاججتم فیما لکم بہ علم “ سے مراد کہ ان میں جس میں تم حاضر تھے تم نے دیکھا اور تم نے اس کا معائنہ کیا تم اس میں جھگڑو (اور) ” فلم تحاجون فیما لیس لکم بہ علم “ اور ان باتون میں جن میں تم نہ حاضر تھے نہ تم نے دیکھا اور نہ تم نے اس کا معائنہ کیا اس میں کیوں جھگڑتے ہو۔ (6) ابن ابی حاتم نے سدی (رح) سے اس آیت کے بارے میں روایت کیا ہے کہ وہ چیز جس کا ان کے پاس علم ہے جو تم پر حرام کی گئی یا جن کے بارے میں تمہیں حکم دیا گیا لیکن وہ چیز جس کا تمہیں علم ہی نہیں ہے تو وہ ابراہیم کا حال ہے ( کہ ان کو ان کی حالت کا کوئی علم نہیں ) ۔ (7) ابن ابی حاتم نے حسن ؓ سے اس آیت کے بارے میں روایت کیا ہے معذور ہے وہ شخص جو علم کے ساتھ جھگڑا کرتا ہے اور وہ شخص معذور نہیں جو جہالت کی وجہ سے جھگڑا کرتا ہے۔
Top