Ruh-ul-Quran - Aal-i-Imraan : 65
یٰۤاَهْلَ الْكِتٰبِ لِمَ تُحَآجُّوْنَ فِیْۤ اِبْرٰهِیْمَ وَ مَاۤ اُنْزِلَتِ التَّوْرٰىةُ وَ الْاِنْجِیْلُ اِلَّا مِنْۢ بَعْدِهٖ١ؕ اَفَلَا تَعْقِلُوْنَ
يٰٓاَھْلَ : اے الْكِتٰبِ : اہل کتاب لِمَ : کیوں تُحَآجُّوْنَ : تم جھگڑتے ہو فِيْٓ : میں اِبْرٰهِيْمَ : ابراہیم وَمَآ : اور نہیں اُنْزِلَتِ : نازل کی گئی التَّوْرٰىةُ : توریت وَالْاِنْجِيْلُ : اور انجیل اِلَّا : مگر مِنْۢ بَعْدِهٖ : اس کے بعد اَفَلَا تَعْقِلُوْنَ : تو کیا تم عقل نہیں رکھتے
اے اہل کتاب ! تم ابراہیم (علیہ السلام) کے بارے میں کیوں جھگڑتے ہو درآں حالیکہ تورات اور انجیل نہیں نازل کی گئی ہیں مگر ان کے بعد، تم کیوں عقل سے کام نہیں لیتے ہو
یٰٓـاَہْلَ الْـکِتٰبِ لِمَ تُحَآجُّوْنَ فِیْٓ اِبْرٰہِیْمَ وَمَـآ اُنْزِلَتِ التَّوْرٰۃُ وَالْاِنْجِیْلُ اِلَّا مِنْ م بَعْدِہٖ ط اَفلَاَ تَعْقِلُوْنَ ۔ ھٰٓاَنْتُمْ ھٰٓؤُلَآئِ حَاجَجْتُمْ فِیْمَا لَـکُمْ بِہٖ عِلْمٌ فَلِمَ تُحَاجُّوْنَ فِیْمَا لَیْسَ لَکُمْ بِہٖ عِلْمٌ ط وَاللّٰہُ یَعْلَمُ وَاَنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ ۔ مَا کَانَ اِبْرٰہِیْمُ یَہُوْدِیًّا وَّلاَ نَصْرَانِیًّا وَّلٰـکِنْ کَانَ حَنِیْفًا مُّسْلِمًا ط وَمَا کَانَ مِنَ الْمُشْرِکِیْنَ ۔ اِنَّ اَوْلَی النَّاسِ بِاِبْرٰہِیْمَ لَلَّذِیْنَ اتَّبَعُوْہُ وَھٰذَا النَّبِیُّ وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا ط وَاللّٰہُ وَلِیُّ الْمُؤْمِنِیْنَ ۔ (اے اہل کتاب ! تم ابراہیم (علیہ السلام) کے بارے میں کیوں جھگڑتے ہو درآں حالیکہ تورات اور انجیل نہیں نازل کی گئی ہیں مگر ان کے بعد، تم کیوں عقل سے کام نہیں لیتے ہو۔ ہاں ! تم لوگ وہی تو ہو کہ تم نے حجت کی ان چیزوں کے بارے میں جن کے باب میں تمہیں کچھ علم تھا تو اس چیز کے بارے میں کیوں جھگڑتے ہو جس کا تمہیں کچھ بھی علم نہیں اور اللہ جانتا ہے اور تم نہیں جانتے۔ ابراہیم نہ تو یہودی تھے نہ نصرانی بلکہ یکسو مسلم تھے اور مشرکوں میں سے بھی نہ تھے۔ بیشک ابراہیم سے سب سے قریب لوگ تو وہ ہیں جنھوں نے ان کی پیروی کی اور یہ نبی ہیں اور وہ لوگ ہیں جو ان پر ایمان لائے اور اللہ ایمان لانے والوں کا ساتھی ہے) (65 تا 68) دلائل میں پسپائی کے بعد جذبات کا سہارا متعصب اور ہٹ دھرم لوگوں کا یہ شیوہ ہوتا ہے کہ جب وہ دلائل کے مقابلے میں پسپا ہوجاتے ہیں اور ان کے پاس اپنے موقف کو ثابت کرنے کے لیے کوئی مضبوط دلیل باقی نہیں رہتی تو بجائے راہ راست اختیار کرنے اور اپنی ناکامی کو قبول کرنے کے، لوگوں کے جذبات کو ابھار کر بدگمانیوں کی دھول میں اپنے لیے پناہ گاہیں تعمیر کرتے ہیں۔ ایک عام آدمی دلیل سے غرض نہیں رکھتا۔ وہ جذبات پہ مرتا اور جذبات سے جیتا ہے۔ اسے اگر یہ یقین دلا دیا جائے کہ فلاں فرد یا فلاں گروہ اس عظیم شخصیت کے خلاف ہے جو تمہاری جذباتی عقیدت کا مرکز ہے تو اس کے بعد اہل حق کے مضبوط سے مضبوط دلائل بھی عوام کے ناقابلِ قبول ہوجاتے ہیں کیونکہ یہ انسان کی کمزوری ہے کہ وہ جس کے بارے میں بدگمان ہوجاتا ہے اس کی ہر بات اسے غلط اور جھوٹ معلوم ہوتی ہے۔ آنحضرت ﷺ کی بعثت مبارکہ کے وقت بھی آج کی طرح حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی شخصیت مرجع خلائق اور تمام مذاہب میں مرکز کی حیثیت رکھتی تھی۔ یہود اور نصاریٰ دونوں کا تعلق بنی اسرائیل سے تھا اور بنی اسرائیل حضرت یعقوب (علیہ السلام) کی اولاد ہونے کی وجہ سے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو اپنا جدِ امجد سمجھتے تھے اور اس نسلی تعلق کے ساتھ ساتھ یہ بھی مانتے تھے کہ وہ اللہ کے جلیل القدر رسول اور اس کے مقرب تھے۔ اسی طرح قریش اور مشرکینِ عرب بیت اللہ کے پجاری ہونے کی وجہ سے یہ تسلیم کرتے تھے کہ اس گھر کو حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل (علیہ السلام) نے بنایا تھا۔ عدنان اور قحطان کی اولاد آپس کے اختلافات کے باوجود اپنے آپ کو حضرت ابراہیم (علیہ السلام) سے نسلی رشتے میں منسلک سمجھتی تھی اور اس کے علاوہ پورا عرب آپ کی عقیدت میں یک زبان اور رطب اللسان تھا۔ یوں تو اہل کتاب بھی آپ کی پیروی کا دعویٰ کرتے تھے لیکن عرب تو بطور خاص اپنے آپ کو ملت ابراہیمی کا علمبردار یقین کرتے تھے۔ اس لحاظ سے اس وقت کی معلوم دنیا میں جن لوگوں سے براہ راست آنحضرت ﷺ اور مسلمانوں کو مقابلہ درپیش تھا وہ سب حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو اپنا بزرگ اور اپنا مرجع خیال کرتے تھے۔ چناچہ اہل کتاب نے جب آنحضرت ﷺ کی دعوت کے مقابلے میں بری طرح ہزیمت اٹھائی اور ہر محاذ پر پسپا ہوتے چلے گئے تو انھوں نے اسی عوامی جذباتیت کو ڈھال کے طور پر اختیار کرنے کا فیصلہ کیا اور یہ دعویٰ لے کر اٹھ کھڑے ہوئے کہ ہم لوگ جس دین پر قائم اور جس راستہ پر چل رہے ہیں یہ ابراہیم کا دین ہے۔ ہم اگر یہودی یا نصرانی ہیں تو یہ نسبتیں ہمیں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے دی ہیں اور مسلمانوں نے ایک نئی نبوت اور ایک نئے دین کا اعلان کر کے اپنے لیے ایک بالکل نیا راستہ نکالا ہے جو ابراہیم (علیہ السلام) کے بالکل مخالف ہے۔ اس لیے ہم ایک ایسے دین کو کیسے اختیار کرلیں جو ہمیں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی نسبت سے کاٹ دینا چاہتا ہے۔ ان آیات کریمہ میں ان سے سب سے پہلی بات یہ فرمائی گئی کہ تم ابراہیم (علیہ السلام) کو اپنی تائید میں کس طرح پیش کر رہے ہو جب کہ تم خوب جانتے ہو کہ یہود کی بنیاد تورات پر ہے اور نصاریٰ کی بنیاد انجیل پر اور یہ دونوں کتابیں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے دنیا سے تشریف لے جانے کے صدیوں بعد نازل ہوئی ہیں۔ یہود نے تورات کی بنیاد پر اپنے آپ کو یہودی کہنا شروع کیا اور نصاریٰ نے انجیل کی بنیاد پر اپنا نام نصاریٰ رکھا۔ تو حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے ساتھ یہ دونوں نسبتیں جو صدیوں بعد پیدا ہوئیں کیسے منسوب ہوسکتی ہیں ؟ ایک ایسی چیز جو ایک شخصیت کے صدیوں بعد وجود میں آئی ہے وہ صدیوں پہلے گزرنے والی شخصیت کو اپنے لیے دلیل کیسے بنا سکتی ہے۔ وہ اگر صحیح ہے تو اس کے پاس اپنے دلائل ہونے چاہئیں اور اگر وہ غلط ہے تو اسے اپنی غلطی قبول کرنی چاہیے۔ صدیوں پہلے گزرنے والی شخصیت صحیح یا غلط ہونے کے حوالے سے کس طرح حوالہ یا جائے پناہ بن سکتی ہیں۔ یہ تو ایک ایسی عقل کی بات ہے جسے معمولی عقل والا بھی سمجھ سکتا ہے تو تم آخر اس بےعقلی کی بات پر اصرار کیوں کرتے ہو ؟ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا دین اس کے بعد ارشاد فرمایا کہ اس سے بھی بڑھ کر بےوقوفی کی بات یہ ہے کہ تم نے اب تک حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی خرق عادت ولادت اور غیرمعمولی معجزات سے ان کے بارے میں اگرچہ ایک سے ایک غلط بات کی، لیکن تب بھی یہ بات کسی حد تک کہی جاسکتی ہے کہ تم نے جو کچھ بھی کہا اس کا تعلق یقینا تمہاری معلومات سے تھا۔ تمہارے آبا و اجداد کے سامنے عیسیٰ (علیہ السلام) دنیا میں آئے، انھیں کے سامنے معجزات کا ظہور ہوا۔ یہ باتیں یقینا ان کے علم میں تھیں۔ یہ صحیح ہے کہ انھوں نے اس سے غلط نتائج نکالے اور غلط دلائل اخذ کیے۔ لیکن جو کچھ بھی کہا ان کی بنیاد بہرحال ان کا علم اور ان کی معلومات تھیں۔ لیکن اب جو تم ابراہیم (علیہ السلام) کے بارے میں کہہ رہے ہو اس کے بارے میں تم کیا جانتے ہو ؟ ایک شخصیت جو صدیوں پہلے گزر گئی۔ تم نے ان کا زمانہ نہیں پایا، ان پر اترنے والا کوئی صحیفہ محفوظ نہ رہا اور تم نے جو کچھ مذہب کے نام پر تانا بانا تیار کیا اس کی بنیاد تورات ہے یا انجیل تو آخر اس میں تم ابراہیم (علیہ السلام) کو کس طرح کھینچ لائے ہو ؟ جبکہ تم ان کے بارے میں کچھ نہیں جانتے ہو۔ ہاں ان کے بارے میں اگر کوئی باخبر ہے تو وہ صرف اللہ کی ذات ہے۔ اس نے اپنا آخری رسول بھیج کر تمام صداقتوں سے پردہ اٹھایا ہے۔ آج اگر کوئی بات قابل قبول ہوسکتی ہے تو وہ بات ہے جس کو اللہ کا آخری رسول اللہ کے حوالے سے پیش کر رہا ہے۔ لیکن اسے تم سننے کی بجائے ہر صداقت کو اپنی جہالت کی ہنگامے کی نذر کردینا چاہتے ہو۔ اس کے بعد قرآن کریم نے وہ قطعی اور حتمی بات ارشاد فرمائی ہے جسے آج تاریخ بھی ثابت کر رہی ہے اور جسے عقل نے بھی ہمیشہ مانا ہے اور آج جیسے جیسے تحقیق اور تجسس کا قدم آگے بڑھ رہا ہے اور کھدائیوں میں بعض کتبات ہاتھ آرہے ہیں تو قرآن کریم کی یہ حقیقت روز بروز واضح تر ہوتی جارہی ہے اور وہ حقیقت یہ ہے کہ ابراہیم نہ یہودی تھے نہ نصرانی، وہ اللہ کے فرمانبردار بندے، مسلم اور حنیف تھے۔ عربی میں الحنف گمراہی سے منہ موڑ کر حق کی طرف متوجہ ہونے کو کہتے ہیں اور حق سے روگردانی کر کے گمراہی کی طرف مائل ہونے کو الجنف کہا جاتا ہے۔ (مفردات) اس لحاظ سے حنیف وہ شخص کہلائے گا جو ہر باطل اور گمراہی سے منہ موڑ کر، ہر ماسوا اللہ سے کٹ کر ہمہ تن حق و صداقت سے وابستہ اور اللہ کی ذات سے لو لگانے والا ہو۔ قرآن کریم نے متعدد مواقع پر حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے لیے حنیف کا لفظ بطور صفت استعمال کیا ہے۔ ان کی ذات میں ایک ایسے شخص نے ظہور کیا تھا جس کا راستہ صراط مستقیم، جس کا دل محبت الٰہی سے سرشار، جس کے تمام تعلقات تعلق باللہ کی نذر، جس کی تمام خواہشات اعلائے کلمتہ الحق سے وابستہ اور جس کی زندگی کا ایک ایک لمحہ اللہ کی تائید و نصرت کے نور سے روشن تھا۔ وہ ازسرتا پامسلم تھا۔ اس میں یہودیت یا نصرانیت کی پرچھائیوں کو کیسے جگہ مل سکتی تھی ؟ اسی طرح اس موحد کی زندگی میں کسی ایسے شرک کو کیسے بار مل سکتا تھا جسے اللہ کی ذات اور صفات قبول نہ کرسکتی ہوں۔ اس لیے نہ وہ یہودی تھا نہ نصرانی اور نہ وہ مشرک تھا۔ یہاں روئے سخن اگرچہ اہل کتاب کی طرف ہے، لیکن مشرکین بھی چونکہ اسی مرض میں مبتلا تھے اور اس لیے ساتھ ہی اس کی بھی تردید فرما دی گئی۔ اس کے بعد فرمایا کہ ابراہیم سے اگر کسی کو سچی نسبت ہوسکتی ہے تو وہ صرف وہ لوگ ہیں جنھوں نے ان کی دعوت کو قبول کیا اور ان کی ذات کی پیروی کی۔ اگر یہ نسبت نسب سے ملتی تو آزر سے رشتہ نہ ٹوٹتا اور اگر اس کے لیے وطن کافی ہوتا تو آپ وطن سے نکل کر مختلف ملکوں کو اپنی دعوت کی آماجگاہ نہ بناتے۔ آپ کے ساتھ ان لوگوں کا رشتہ رہا جو آپ کی دعوت میں آپ کے دست وبازو اور اللہ کے دین میں آپ کے متبع تھے اور آج اگر کوئی آنحضرت ﷺ کی بعثت کے بعد ان سے تعلق کا دعویٰ کرسکتا ہے تو وہ آنحضرت ﷺ کی ذات گرامی ہے جنھوں نے ملت ِ ابراہیمی کو زندہ کیا اور یا آپ پر ایمان لانے والے ہیں جنھوں نے آنحضرت ﷺ کا اتباع کرتے ہوئے دین ابراہیم کو نئی زندگی اور تازہ قوت بخشی اور ان کی ایک ایک سنت کو از سر نو زندہ کیا۔ ہر سال عید قربان کے موقع پر پوری امت مسلمہ اللہ کے حضور جانوروں کی قربانی پیش کرتی ہے اور ساتھ یہ دعا بھی کرتی ہے کہ یا اللہ ! اسے اسی طرح قبول فرما جس طرح تو نے اپنے خلیل حضرت ابراہیم (علیہ السلام) سے اسے قبول کیا تھا کیونکہ یہ اسی عظیم شخصیت کی سنت ہے۔ جسے ہم پر ہمارے رسول پاک ﷺ نے لازم ٹھہرایا ہے۔ رہے وہ لوگ جو نام لیتے ہیں ملت ِ ابراہیم کا لیکن وابستہ ہیں یہودیت یا نصرانیت یا عرب کی مشرکانہ زندگی سے تو ان کا تعلق آخر حضرت ابراہیم (علیہ السلام) سے کیا ہوسکتا ہے اور آیت کریمہ کے آخر میں یہ نوید بھی سنا دی گئی کہ اب ملت ابراہیم کو جو عزت ملنے والی ہے اور جو برگ و بار پھوٹنے والے ہیں وہ نبی آخر الزماں ﷺ کے اتباع کے نتیجہ میں پھوٹیں گے اور انھیں پر ایمان لانے والے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے بھی نام لیوا ہوں گے اور یہی لوگ ہیں کہ قیامت تک اللہ تعالیٰ ان کا ساتھی اور حامی ہوگا۔
Top