Mualim-ul-Irfan - Aal-i-Imraan : 65
یٰۤاَهْلَ الْكِتٰبِ لِمَ تُحَآجُّوْنَ فِیْۤ اِبْرٰهِیْمَ وَ مَاۤ اُنْزِلَتِ التَّوْرٰىةُ وَ الْاِنْجِیْلُ اِلَّا مِنْۢ بَعْدِهٖ١ؕ اَفَلَا تَعْقِلُوْنَ
يٰٓاَھْلَ : اے الْكِتٰبِ : اہل کتاب لِمَ : کیوں تُحَآجُّوْنَ : تم جھگڑتے ہو فِيْٓ : میں اِبْرٰهِيْمَ : ابراہیم وَمَآ : اور نہیں اُنْزِلَتِ : نازل کی گئی التَّوْرٰىةُ : توریت وَالْاِنْجِيْلُ : اور انجیل اِلَّا : مگر مِنْۢ بَعْدِهٖ : اس کے بعد اَفَلَا تَعْقِلُوْنَ : تو کیا تم عقل نہیں رکھتے
اے اہل کتاب ! تم کیوں جھگڑا کرتے ہو ، ابراہیم (علیہ السلام) کے بارے میں حالانکہ نہیں نازل کی گئی تورات اور انجیل مگر ان کے بعد ، کیا تم عقل نہیں رکھتے۔
ربط آیات : گذشتہ ادرس میں اہل کتاب کو اس کلمہ توحید کی دعوت دی گئی تھی ، جو تمام انبیاء (علیہم السلام) ، تمام کتب اور تمام شرائع کا متفق علیہ مسئلہ ہے۔ یعنی خدا کے سوا کسی کی عبادت نہ کی جائے ، اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ بنایا جائے۔ اور ہم ایک دوسرے کو رب نہ بنائیں جس طرح یہود و نصاریٰ نے اپنے احبار اور رہبان کو رب بنا لیا۔ اور رب بنانے سے مراد یہ ہے کہ جس چیز کو مولوی اور درویش حلال قرار دے دیں اسے حلال سمجھ لیا جائے اور جسے حرام کہیں اس کو حرام ہی سمجھ لیں۔ گذشتہ درس میں اس بات کی وضاحت کردی گئی تھی کہ تحلیل و تحریم اللہ تعالیٰ کی صفت مختصہ ہے۔ اس کے سوا کسی کو حلال یا حرام قرار دینے کا اختیار نہیں جب نبی کسی چیز کو حلال یا حرام کہتا ہے۔ تو اس کو قطعی سمجھ لینا چاہئے۔ کیونکہ نبی وہ حکم اللہ تعالیٰ کی طرف سے بیان کرتا ہے۔ آج کے درس میں بھی خطاب اہل کتاب یعنی یہود و نصاریٰ دونوں سے ہے۔ اور ان کے آپس کے جھگڑے کے متعلق ہے ، جو وہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے متعلق کرتے تھے۔ شان نزول : حضرت حسن بصری (رح) اور حضرت عبداللہ بن عباس ؓ سے روایت ہے کہ جب نجران کے عیسائی حضور ﷺ کے ساتھبحث و مناظرہ کرنے کے لیے مدینے آئے ، تو مدینے کے یہودی بھی جمع ہوگئے۔ عیسائیوں کا لاٹ پادری بھی وفد میں شامل تھا ، ادھر یہودیوں کے علماء بھی اکٹھھے ہوگئے اور یہ دونوں گروہ آپس میں جھگرنے لگے۔ یہودی کہتے تھے کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) ہمارے طیرقے پر تھے۔ مگر نصاریٰ یہ بات تسلیم کرنے کو تیار نہ تھے۔ ان کا دعویٰ تھا۔ ابراہیم (علیہ السلام) عیسائیوں کے طریقے پر تھے۔ مگر دوسرا گروہ اسے ماننے کے لیے تیار نہ تھا۔ گویا دونوں گروہ اپنی نسبت ابراہیم (علیہ السلام) کی طرف کرتے تھے۔ یہ معاملہ حضور ﷺ کی خدمت میں بھی پیش ہوا۔ تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیات نازل فرما کر یہود و نصاریٰ دونوں گروہوں کی تردید فرمائی کہ دونوں فریق ابراہیم (علیہ السلام) کے طریقے سے ہٹ چکے ہیں۔ لہذا ان کی خالی نسبت کا کچھ فائدہ نہیں۔ ارشاد ہوتا ہے : یا اھل الکتب ، اے یہودیو اور عیسائیو ! لم تحاجون فی ابراھیم ، تم ابراہیم (علیہ السلام) کے بارے میں کیوں جھگرتے ہو۔ یہودیوں کا دعوی ہے۔ کہ ابراہیم (علیہ السلام) یہودی تھے۔ حالانکہ آپ کو یہودیت سے کیا تعلق۔ یہودیت تو تورات کو مسخ کرنے سے پیدا ہوئی۔ اللہ تعالیٰ نے جس تورات کو نازل فرمایا یہودیوں نے اس میں تحریف کی۔ اس میں قطع برید کرنے کے بعد کچھ چیزیں اپنی طرف سے ملا لیں اور بعض اصلی احکام چھوڑ دیے۔ اس طرح تورات اپنی اصل حالت میں باقی نہ رہی۔ گویا یہودیت موسیٰ (علیہ السلام) کے بگڑے ہوئے دین کا نام ہے۔ اسی طرح عیسائیت انجیل کو بگارنے سے پیدا ہوئی۔ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی زندگی میں آپ کے حواری تو آپ کو مانتے تھے اور آپ کے دین کی تبلیغ بھی کرتے تھے۔ مگر جب آپ کو آسمان کی طرف اٹھا لیا گیا ، تو انجیل میں رد و بدل شروع ہوگیا۔ روم کے مشرک بادشاہ نے عیسائیت قبول کرلی۔ اس کے ساتھ اس کی رعایا بھی اسی دین میں شامل ہوگئی پھر انہوں نے بہت سی مشرکانہ رسوم عیسائیت میں داخل کردیں۔ عقائد بھی بدل دیے۔ پولس کی تعلیم کے ذریعے ابنیت کا عقیدہ وضع کیا گیا۔ یعنی مسیح (علیہ السلام) خدا کا بیٹا ہے۔ اسی طرح تین خداؤں کا عقیدہ ایجاد ہوا۔ غلط عقاید اور مشرکانہ رسوم نے اصل مذہب کو باقی نہ رہنے دیا اور اس طرح عیسائیت یا نصرانیت معرض وجود میں آئی۔ عیسائیوں کے مولویوں اور پادریوں نے انجیل کی تعلیمات کو بگاڑ دیا۔ خنزیر کو حلال قرار دینے کا مسئلہ قسطنتین کے زمانے میں پیدا ہوا۔ امام ابن کثیر (رح) فرماتے ہیں کہ حضرت نوح (علیہ السلام) کے بعد آنے والے تمام انبیاء نے خنزیر کو حرام قرار دیا۔ اور یہ سب کچھ عیسیٰ (علیہ السلام) کے بہت بعد کی بات ہے۔ الغرض ! عیسائیت حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے بگڑئے ہوئے دین کا نام ہے۔ ہندوانہ رسوم : ہمارے ملک میں بھی دین کے ساتھ کم و بیش ایسا ہی ہوا ہے۔ آج کی بیشتر رسوم ہندوؤں سے ماخوذ ہیں۔ خصوصاً موت کی رسوم منجملہ تیسرا ، ساتواں ، دسواں ، چالیسواں ، برسی وغیرہ ہندوانہ رسمیں ہیں۔ آریاؤں کی آمد کے بعد برصغیر میں ہندو مذہب اختیار کرلیا گیا۔ اور ان کی رسوم صدیوں تک اس ملک میں جاری رہیں۔ پھر جب اسلام آیا تو یہی رسوم اسلام میں داخل ہوگئیں۔ شادی بیاہ کے سلسلہ میں گانا ، سہرا ، باجا گا جا ، وغیرہ سب ہندوؤں کی رسمیں ہیں۔ یہ چیزیں اسلام کے ساتھ عرب سے نہیں آئیں۔ بلکہ یہاں پر دین میں داخل کرلی گئیں۔ شب معراج اور دیگر مواقع پر چراغاں کی بیماری مجوسیوں کے راستے سے آئی کیونکہ وہ آگ کو مقدس مانتے تھے۔ ہندو بھی اپنی دیوالی اور دسہرے کے موقع پر چراغاں کرتے تھے۔ مسلمانوں میں بھی جاری ہوگیا الغرض ! جس طرح عیسائیوں اور یہودیوں نے غلط عقیدے اور رسوم اپنے دین میں داخل کرکے اصل دین کو بگاڑ دیا۔ اسی طرح مسلمان بھی اس کام میں ان سے پیچھے نہیں رہے۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) پر تورات کا نزول حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے ایک ہزار سال بعد ہوا۔ اور انجیل کے نزول کے وقت تو دو ہزار سال سے بھی زیادہ عرصہ گزر چکا تھا۔ تو ابراہیم (علیہ السلام) پر ہزاروں سال بعد پیدا ہونے والی یہودیت یا نصرانیت کیسے چسپاں کی جاسکتی ہے۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا۔ اے اہل کتاب ! تم ابراہیم (علیہ السلام) کے متعلق کیوں جھگڑتے ہو حالانکہ وما انزلت التوراۃ والانجیل الا من بعدہ افلا تعقلون۔ تورات اور انجیل تو ابراہیم (علیہ السلام) کے ہزاروں سال بعد نازل ہوئیں۔ تو جو کتابیں ان کے بعد نازل ہوئیں تم ان کی نسبت ان کتابوں کی طرف کیسے کرتے ہو۔ عقل کی بات کرو۔ پھر تنبیہ کے طور پر فرمایا ، ھا انتم ھوء حاججتم فیما لکم بہ علم ، تم نے اس چیز میں تو جھگڑا کیا جس کا تمہیں کچھ علم تھا۔ یعنی حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے متعلق تو تمہیں کچھ تھوڑا بہت علم تھا۔ کہ ان پر نازل شدہ کتابیں کسی نہ کسی شکل میں تمہارے پاس موجود تھیں۔ لہذا ان کے متعلق تمہارا اختلاف رائے کسی حد تک قبول کیا جاسکتا ہے۔ فلم تحاجون فیما لیس لکم بہ علم۔ مگر تم اس چیز کے متعلق جھگڑا کیوں کرتے ہو۔ جس کا تمہیں سرے سے علم ہی نہیں۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو کوئی صحیح صحیفہ تمہارے پاس نہیں۔ ان کی کسی تعلیم پر تمہارا عمل نہیں۔ لہذا ان کی طرف غلط باتیں کیوں منسوب کرتے ہو۔ کہ وہ یہودی تھے یا نصرانی تھے۔ حقیقت یہ ہے کہ ، واللہ یعلم وانتم لا تعلمون ، اس بارے میں اللہ ہی بہتر جانتا ہے اور تم نہیں جانتے۔ فرمایا : ماکان ابراہیم یھودیا ولا نصرانیا۔ ابراہیم (علیہ السلام) نہ یہودی تھے اور نہ نصرانی ، ولکن کان حنیفا مسلمان۔ بلکہ وہ تو حنیف اور مسلمان تھے۔ حنیف اس کو کہتے ہیں۔ جو سب طرف سے ہٹ کر ایک طرف لگ جائے۔ اور اللہ تعالیٰ نے اسی بات کی تعلیم دی۔ حنفاء للہ ، اللہ کیلیے حنیف بن جاؤ۔ ہر طرف سے کٹ کر صرف اسی کی اطاعت میں آجاؤ اور مشرک نہ بنو۔ چناچہ ابراہیم (علیہ السلام) تو حنیفہ ہیں ، جنہوں نے اللہ تعالیٰ کے سامنے عرض کیا۔ انی وجھت وجھی للذی فطر السموات والارض حنیفا وما انا من المشرکین۔ میں نے ہر طرف سے منہ موڑ کر اپنا رشتہ اس اللہ ل جلالہ سے جوڑ لیا ہے۔ جو آسمان و زمین کا خالق ہے۔ اور میں مشرکوں میں سے نہیں ہوں۔ شاہ ولی اللہ (رح) فرماتے ہیں کہ حنیف سے مراد وہ شخص ہے۔ جو ابراہیم کو ماننے والا ہے۔ فارسی تفسیر فتح الرحمن کے حاشیے پر لکھا ہے کہ حنیف وہ شخص ہے جو کعبے کی طرف منہ کرکے نماز پڑھتا ہے۔ جو بیت اللہ کا حج کرتا ہے۔ جو ختنہ کرتا ہے ، جو شعائر اللہ کی تعظیم کرتا ہے۔ اور خدا تعالیٰ کی وحدانیت کو تسلیم کرتا ہے۔ یہ سب حنیف کی علامتیں ہیں۔ تو کوئی مشرک آدمی حنیف کیسے ہوسکتا ہے۔ مشرک اور حنیف تو متضاد صفات ہیں۔ فرمایا ، ابراہیم (علیہ السلام) حنیف بھی تھے اور مسلمان بھی۔ در اصل حنیف اور مسلمان ہونا ایک ہی چیز ہے۔ اسلام کا معنی اطاعت اور فرمانبرداری ہے ، جب اللہ تعالیٰ نے ابراہیم (علیہ السلام) سے فرمایا۔ اسلم فرمانبردار ہوجاؤ اسلام قبول کرلو۔ قال اسلمت لرب العلمین۔ ابراہیم (علیہ السلام) نے جواب دیا۔ ہاں مولا کریم ! میں نے تیری فرمانبرداری قبول کرلی۔ میرا تو مقصد حیات ہی تیری اطاعت ہے۔ یہ لوگ جھوٹے ہیں۔ جو کہتے ہیں کہ ابراہیم (علیہ السلام) نے جواب دیا۔ ہاں مولا کریم ! مٰں نے تیری فرمانبرداری قبول کرلی۔ میرا تو مقصد حیات ہی تیری اطاعت ہے۔ یہ لوگ جھوٹے ہیں۔ جو کہتے ہیں کہ ابراہیم (علیہ السلام) یہودی یا نصرانی تھے۔ یہ اپنی نسبت غلط طور پر ابراہیم (علیہ السلام) کی طرف کرتے ہیں۔ و ما کان من المشرکین ، ابراہیم (علیہ السلام) مشرکوں میں سے نہیں تھے۔ بزرگوں کی طرف نسبت : بزرگوں کی طرف خالی نسبت کی وبا مسلمانوں میں بھی پائی جاتی ہے۔ اپنے آپ کو سلفی کہلانے والے کیا واقعی اسلاف کے طریقے پر چل رہے ہیں۔ محض دعوی ہے ، کام الٹ ہیں۔ اسی طرح آجکل حنفیوں کی اکثریت امام ابوحنیفہ (رح) کے عقیدے سے بالکل مختلف عقیدہ رکھتی ہے۔ قادری اپنی نسبت شیخ عبدلقادر جیلانی (رح) کی طرف کرتے ہیں مگر ان کا معاملہ آپ کے ساتھ ایسا ہی ہے جیسے یہود و نصاری کا حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے ساتھ تھا۔ شیخ جیلانی کا عقیدہ پاک تھا ، ان کا عمل پاکیزہ تھا۔ اعلی درجے کی روحانیت کے مالک تھے مگر ان کی طرف سبت رکھنے والے شرک و بدعت کے مرتکب ہو رہے ہیں۔ یہی حال نقشبندیوں اور چشتیوں کا ہے۔ آجکل چشتی گانے بجانے والے کو سمجھا جاتا ہے۔ کیا خواجہ معین الجمیری کی یہی تعلیم تھی۔ خواجہ فرید الدین شکر گنج کا دروازہ سال کے بعد کھولو۔ لاکھ دو لاکھ آدمی اس میں سے گذر گئے تو چشتی اور جنتی ہوگئے۔ العیاذ باللہ ، یہ بزرگ اعلی درجے کی روحانیت کے مالک تھے۔ پکے توحید پرست اور متبع سنت تھے۔ حضرت مولانا شاہ اشرف علی تھانوی (رح) فرماتے ہیں کہ چشتیوں کی طرف یہ منسوب کرنا کہ وہ گانے بجانے کے قائل تھے ، بالکل غلط ہے۔ اس برصغیر میں جس قدر اتباع سنت چشتیوں میں پایا گیا ہے ، کسی اور مسلک میں نہیں ملتا۔ اسی مہینے میں حضرت علی ہجویری (رح) کا عرس منایا جا رہا ہے۔ مزار کو عرق گلاب سے غسل دیا جاتا ہے۔ حکوتم کے نمائندے چادریں چرھاتے ہیں۔ اب ان مزاروں پر گنبد بن گئے ہیں۔ چپس لگ گئے ہیں۔ عرس ہوتے ہیں۔ یہ سب کچھ کیا ہے۔ ؎ چوں کفر از کعبہ برخیزد کجا ماند مسلمانی۔ ۔۔ اوقاف میں آنے کا مقصد تو یہ تھا کہ لوگوں کی اصلاح کی جائے۔ شرک و بدعات سے منع کیا جائے۔ مگر اب خود مسلمان ہی یہ کام انجام دے رہے ہیں۔ ان کو اس برائی سے کون روکے گا۔ یہاں تو آمدنی سے غرض ہے۔ چڑھاوے کی آمدنی کھانے پینے اور ملازموں کی تنخواہوں پر خرچ ہوتی ہے۔ جو شخص اپنی نسبت حضرت علی ہجویری کی طرف کرتا ہے اور پھر شرک و بدعت کا ارتکاب بھی کرتا ہے۔۔ وہ خود بھی جھوٹا ہے اور اس کی نسبت بھی غلط ہے۔ خواجہ گیسو دراز (رح) گلبرگہ دکن میں رہنے والے بڑے اعلیٰ پایہ کے بزرگ تھے ان کی کم و بیش سو کتابیں ہیں۔ ان میں قرآن پاک کی تفسیر بھی ہے۔ تصوف پر کتابیں ہیں۔ مکتوبات بھی ہیں۔ ان کتابوں میں شرک کی واضح تردید موجود ہے کہتے ہیں کہ آپ کے پاس ایک جوگی کوئی عمل بتانے کے لیے آیا۔ مگر ہزار منت کے باوجود آپ نے وہ عمل نہیں سیکھا۔ فرمایا مجھے تمہارے عمل کی کوئی ضرورت نہیں۔ ہمارے پاس اللہ کا قرب دلانے والے عمل موجود ہیں۔ ہم سونا بنانے کا عمل سیکھ کر کیا کریں گے آپ متوکل علی اللہ اور معلم تھے ، خواجہ بختیار کا کی (رح) عبادت و ریاضت کے شیدائی تھے۔ دو رکعت میں پورا قرآن کریم اور چار پارے تلاوت فرماتے تھے۔ خواجہ بختیار کا کی (رح) کا مجاہدہ تھا کہ بیس برس تک زمین پر پشت لگا کر نہیں سوئے۔ نیند کا غلبہ ہوا تو بیٹھے بیٹھے ہی آرام کرلیا۔ حضرت مجدد الف ثانی (رح) کا حال دیکھو۔ ان کے ماننے والوں نے عرس منانے پر ہی اکتفا کرلیا ہے۔ اور سمجھتے ہیں کہ وہ دنیا میں مجددیت کو ترقی دے رہے ہیں۔ یہ سب غلط نسبتیں ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ یہودیت یا نصرانیت کی محض ابراہیم (علیہ السلام) کی طرف نسبت کچھ فائدہ نہیں دے گی۔ ان تمام بزرگوں کی طرف نسبت اسی وقت مفید ہوسکتی ہے۔ جب ان کا عقیدہ اور عمل بھی اپنایا جائے۔ آجکل تو محض مزار بنا لینا اس پر عمارت بنا کر قوالی کرالینا اور عرس منا لینا ہی کافی سمجھ لیا گیا ہے۔ عقیدے اور عمل کو کون جانچتا ہے۔ یہاں گوجرانوالہ مٰں ایک پاگل یا فاتر العقل کا مزار بنا دیا گیا ہے۔ کسی نے نہیں روکا کہ کیا کر رہے ہو۔ اتنے متمدن شہر میں اس دیوانے کی قبر پر چڑھاوے چڑھنے لگے ہیں۔ وہ بیچارہ مجنون تھا یا مجذوب تھا ، بہرحال غیر مکلف تھا۔ اس کو خدا کا ولی بنا کر پوجا پاٹ شروع کردی۔ کیا ایمان اور توحید اسی چیز کا نام ہے ؟ حضرت ابراہیم کے متبعین : فرمایا یاد رکھو ! ان اولی الناس بابراہیم للذین اتبعوہ ، بیشک ابراہیم (علیہ السلام) کے زیادہ قریب وہ لوگ ہیں جنہوں نے ان کے دور میں ان کا صحیح اتباع کیا۔ ایسے ہی لوگوں کی نسبت آپ کے ساتھ درست ہے۔ ان کے علاوہ ، وھذا النبی والذین امنوا ، یہ خاتم النبیین اور آپ پر ایمان لانے والے جو درحقیقت ابراہیم (علیہ السلام) کے متبع ہیں ، یہ بھی ان سے مناسبت رکھتے ہیں۔ ان کو یہ حق پہنچتا ہے کہ اپنی نسبت ابراہیم (علیہ السلام) کی طرف کریں۔ یہود و نصاری کو یہ حق قطعاً نہیں پہنچتا۔ فرمایا ، واللہ ولی المومنین ، اللہ ہی مومنوں کا کارساز ہے۔ ولی کا معنی رفیق ، سرپرست ، دوست اور کارساز ہے۔ جو کوئی اللہ پر ایمان لائے پھر وہ اس کا کارساز بن جاتا ہے۔ پھر اسے کسی دوسرے دروازے پر جانے کی ضرورت باقی نہیں رہتی۔
Top