Asrar-ut-Tanzil - Aal-i-Imraan : 92
لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّ حَتّٰى تُنْفِقُوْا مِمَّا تُحِبُّوْنَ١ؕ۬ وَ مَا تُنْفِقُوْا مِنْ شَیْءٍ فَاِنَّ اللّٰهَ بِهٖ عَلِیْمٌ
لَنْ تَنَالُوا : تم ہرگز نہ پہنچو گے الْبِرَّ : نیکی حَتّٰى : جب تک تُنْفِقُوْا : تم خرچ کرو مِمَّا : اس سے جو تُحِبُّوْنَ : تم محبت رکھتے ہو وَمَا : اور جو تُنْفِقُوْا : تم خرچ کروگے مِنْ شَيْءٍ : سے (کوئی) چیز فَاِنَّ : تو بیشک اللّٰهَ : اللہ بِهٖ : اس کو عَلِيْمٌ : جاننے والا
جب تک تم اپنی محبوب چیز کو (اللہ کی راہ میں) خرچ نہ کرو تم ہرگز بھلائی نہ پاسکو گے اور جو کچھ تم خرچ کرتے ہو تو یقینا اللہ اس کو جانتے ہیں
آیات 92- 101 اسرارومعارف لن تنالو البر……………فان اللہ بہ علیم۔ بر سے مراد نیکی ہے اور نیکی کی اصل قرب رسول ہے کہ نبوت ایک ایسی نعمت ہے جس کی وجہ سے نبی معصوم ہوتا ہے یعنی مکالمہ باری کی برکات میں سے عصمت بھی ہے جو تمام انبیاء (علیہم السلام) کو نصیب ہوتی ہے۔ حصول بر قرب رسالت کا نام ہے : اسی طرح نبی کے قرب سے ایک خاص وصف ، جو مومن میں پیدا ہوتا ہے وہ گناہ سے نفرت اور نیکی کی محبت ہے جس کے باعث مومن گناہ سے محفوظ ہوجاتا ہے۔ اسی درجے کو حصول بر کہہ سکتے ہیں۔ اب اگر کسی شخص کو کسی طرح کا مال یا منافع اتنا عزیز ہو کہ وہ اسے حاصل کرنے کے لئے اپنے مسلمان ہونے کا اعلان کرے تو وہ اسلام کو کیسے پاسکتا ہے ؟ یا مال وجاہ اتنے عزیز ہوں کہ وہ اللہ اور رسول ﷺ کی راہ میں رکاوٹ بنیں تو ایسا آدمی نیکی کو یعنی قرب رسالت کو نہیں پاسکتا۔ جس طرح یہود نے دنیا کمانے اور اقتدار حاصل کرنے کے لئے دین کا ذریعہ بنارکھا تھا۔ ایمان لانے کی توفیق تو کیا نصیب ہوتی۔ الٹے بدترین دشمن ثابت ہوئے۔ اس لئے مومن کو چاہیے کہ جب ایمان لایا ہے تو سب سے محبوب اللہ کی ذات اور اس کے رسول ﷺ کو رکھے اور اس راہ میں بڑی سے بڑی قربانی دے حتیٰ کہ جان بھی جائے اسے سعادت جانے اور صدقات واجبہ ہوں یا نافلہ ، یہ خیال رکھے کہ اللہ کی راہ میں اچھی اور محبوب چیز خرچ کرے۔ آثار صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین اس پر شاہد ہیں کہ حضرت ابوطلحہ ؓ انصاری کو ان کا ایک باغ بہت محبوب تھا جسے ” بیئرحائ “ کہا جاتا تھا۔ نزول آیت پر خدمت اقدس میں حاضر ہو کر عرض کی ، ” یا رسول اللہ ﷺ ! میں یہ باغ اللہ کی راہ میں خرچ کرتا ہوں ، آپ جس طرح پسند فرمائیں اس میں تصرف فرمائیں ! “ تو ارشا ہوا کہ یہ تو بہت قیمتی اور منافع بخش باغ ہے مناسب یہ ہے کہ اسے اپنے اقرباء میں تقسیم کردیں۔ چناچہ انہوں نے اپنے اقرباء میں بانٹ دیا۔ اسی طرح حضرت زید بن حارثہ ؓ اپنا محبوب گھوڑا لے آئے جو آپ ﷺ نے اسامہ بن زید ؓ کو عطا فرمادیا تھا حضر ت زید ؓ کچھ دلگیر ہوئے تو فرمایا اللہ نے تمہارا صدقہ قبول فرمالیا ہے۔ سیدنا فاروق اعظم ؓ نے اپنی محبوب کنیز اللہ کی راہ میں آزاد فرمادی۔ اس کا مفہوم عام ہے ، کافر کے لئے تو اسے حب جاہ ایمان سے مانع ہے یا کوئی دنیوی منافع راہ کی رکاوٹ ہے تو اللہ کے لئے چھوڑ دے تب ایمان پاسکے گا اور مومن کے لئے یہ ہے کہ اللہ کی راہ میں بہترین شے خرچ کرے صدقات کو تاوان سمجھ کر ادا نہ کرے کہ فالتو اور بےکار اشیاء دے کر جان چھڑا لے۔ نیز یہ مراد نہیں کہ گھر ہی لٹا دے بلکہ مقصد یہ ہے کہ جس قدر بھی خرچ کرنا چاہتا ہے۔ صدقات نافلہ میں اور جس قدر اس کے ذمہ بنتا ہے صدقات واجبہ میں اس کے لئے اچھی اور پیاری شے کا انتخاب کرے تاکہ مکمل ثواب اور حضور ﷺ کا قرب حاصل کرسکے جو نیکی کی اصل ہے۔ غریب آدمی کا انفاق فی سبیل اللہ : یہ بھی ضروری نہیں کہ یہ کمال مالدار ہی پاسکتے ہیں بلکہ انانیت وغیرہ تک کو یہ خرچ شامل ہے۔ غریب آدمی بھی اس خیر عظیم کو اصل کرسکتا ہے ، جذبات قربان کرکے ، اوقات قربان کرکے کہ اپنے اوقات کا ذکر اللہ میں لگا لے۔ عبادت کا خاص اہتمام کرے اور پورے خلوص کے ساتھ ایک ایک رکن ادا کرے۔ نیز یہ بھی مناسب نہیں کہ زائد اور فالتو شے سرے سے اللہ کی راہ میں خرچ ہی نہ کرے مثلاً بچا ہوا کھانا یا پرانا کپڑا وغیرہ اگر ایسی چیزیں ہوں تو ضرور دے ثواب حاصل کرلے گا۔ مگر یہ وطیرہ نہ بنالے کہ جب بھی اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کا وقت آئے تو بےکار اشیاء ہی دے کہ جو شے بھی وہ خرچ کرے گا اللہ اس سے خوب واقف ہے کہ کیسی چیز خرچ کررہا ہے کس جذبے سے کررہا ہے کس مقصد کے لئے کررہا ہے ؟ محض شہرت کا خواہاں ہے یا اللہ کی رضا کا طالب۔ یہ اصول سامنے آیا کہ حضور ﷺ پر ایمان لانے کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ انسان کی پسندیدہ خواہشات ہیں اور اگر ایمان نصیب بھی ہو تو اس کے بعد وہی شخص فسق میں مبتلا ہوگا۔ جو اپنی پسند حضور ﷺ کے ارشاد پر قربان نہ کرسکا۔ اگر کسی کو یہ ہمت نصیب ہوئی تو اپنی حیثیت کے مطابق قرب نبوی ﷺ سے ضرور نوازا جائے گا (انشاء اللہ) ۔ کلا الطعام کان حلا……………وماکان من المشرکین۔ یہ خواہشات ہی اہل کتاب کو ایمان سے مانع تھیں تو ارشاد ہوا کہ انہیں قربان کرکے ہی فلاں پاسکتے ہو اور ساتھ ان کے اعتراضات کے جوابات بھی ارشاد ہوئے مثلاً انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ نسخ احکام جائز نہیں۔ یہ ممکن نہیں کہ اللہ ایک حکم دے اور پھر اس کو تبدیل کرے۔ کیا پہلے جو ارشاد ہوا وہ صحیح نہیں تھا ؟ حالانکہ نسخ کی وجہ یہ نہیں بلکہ وجہ یہ ہوتی ہے کہ یہ اللہ کی مرضی ہے کہ اسے کس وقت کون سا کام پسند ہے جب تک یہ حکم تھا درست تھا اور جب اس کی جگہ دوسرا حکم آیا تو وہ بھی درست ہے اور اس میں اس حکیم مطلق کی بیشمار حکمتیں پوشیدہ ہوتی ہیں۔ یہود نے اعتراض کیا کہ آپ ﷺ اونٹ کا گوشت اور بکری کا دودھ استعمال فرماتے ہیں اور ملت ابراہیمی کا دعویٰ رکھتے ہیں حالانکہ یہ تو ان پر حرام تھا۔ ہم تک یہ حکم ان ہی سے پہنچاتو ارشاد ہوا کہ تم درست نہیں کہتے بلکہ کھانے کی سب چیزیں تو بنی اسرائیل پر حلال تھیں۔ سوائے اس کے (یعنی اونٹ کا گوشت اور دودھ) جو حضرت یعقوب (علیہ السلام) نے خود اپنے اوپر حرام کرلی تھیں اور یہ نزول تورات سے پہلے کی بات ہے یعنی احکام کا نسخ تمہاری شریعت میں بھی ثابت ہے اور پیغمبر کی درخواست پہ ثابت ہے کہ حضرت یعقوب (علیہ السلام) کو عرق النساء کا مرض تھا۔ انہوں نے نذر مانی کہ اگر صحت نصیب ہو تو سب سے پسندیدہ غذا ترک کردوں گا۔ چناچہ صحت ہوگئی تو انہوں نے اونٹ کا گوشت کھانا اور دودھ پینا بند کردیا۔ ان کی درخواست پر ان کی اولاد پر بھی حرام کردیا گیا۔ اب اگر تمہیں یہ بات تسلیم نہیں تو تورات لے کر آئو اور پڑھو ! اگر تمہارا قول درست ہے تو ثابت کرو۔ یہود تورات نہ لائے اور ان کا جھوٹ ثابت ہوگیا۔ تو ارشاد ہوا کہ جو بھی شخص اس قدر قوی ثبوت کے بعد غلط بیانی کرے تو وہ ایسا ہے کہ وہ اللہ پر جھوٹ باندھ رہا ہے جو بہت بڑا ظلم ہے اور ایسے لوگ بڑے بےانصاف ہیں۔ آپ ﷺ انہیں فرما دیجئے کہ اللہ نے سچ فرمایا اللہ کی طرف غلط بیانی یا جھوٹ کا گمان بھی ممکن نہیں۔ اور قرآن اللہ کا کلام ہے اس لئے یہ سراسر حق ہے اور اسی کی اطاعت ملت ابراہیمی ہے۔ ملت اس اتباع کا نام ہے جو خلوص کے ساتھ کیا جائے۔ اس لئے ملت کو اللہ کی طرف منسوب نہیں کیا جاتا بلکہ انبیاء کے ساتھ مختص ہے۔ ملت موسیٰ (علیہ السلام) ، ملت عیسیٰ (علیہ السلام) یا ملت محمد ﷺ۔ حضور ﷺ امام الانبیاء ہیں آپ ﷺ کسی تابع نہ تھے۔ بلکہ خود اکمل ترین شریعت لائے جو ساری انسانیت کے لئے اور ہمیشہ کے لئے تھی اور ہے۔ ملت ابراہیمی : ملت ابراہیمی سے مراد یہ ہے کہ جس طرح انہوں نے تمام عمر خلوص دل سے اللہ کے احکام کی پابندی فرمائی اسی طرح تم بھی اطاعت کرو کہ وہ بھی اسلام تھا اور یہ بھی اسلام ہے اسی لئے ملت ابراہیمی کو اپنانے کا حکم ہے خود ابراہیم (علیہ السلام) کی اطاعت کا حکم نہیں کہ اطاعت تو محمد ﷺ کی ہوگی۔ ہاں ! ملت ابراہیمی کیا شے ہے ؟ فرمایا حنیفا وہو ایک کے ہو کے رہے اور وہ زندگی بھر صرف اور صرف اللہ کی رضا طلب کرتے رہے اور وہ ہرگز ہرگز شرک کرنے والوں میں سے نہ تھے کہ کسی کو اللہ کے برابر جانتے یا ان کی پسند یا خواہش کبھی اللہ کی اطاعت میں رکاوٹ نہ بنتی۔ ان اول بیت وضع للناس للذی ببکۃ مبارکا وھدی للعلمین۔ سب سے پہلا گھر جو بیک وقت تمام انسانوں کے لئے تعمیر کیا گیا بیت اللہ شریف ہے۔ بعض حضرات کے نزدیک دنیا میں تعمیر ہونے والا پہلا مکان بھی یہی ہے حضرت آدم (علیہ السلام) جب زمین پر تشریف لائے تو ملائکہ کرام نے نشاندہی کی اور اس جگہ اللہ کا گھر تعمیر ہوا تاآنکہ طوفان نوح میں منہدم ہوا۔ پھر انہیں بنیادوں پر حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے تعمیر فرمایا اس کے بعد قبیلہ جرہم نے اور ان کے بعد عمالقہ نے انہی بنیادوں پر تعمیر کیا۔ پھر عمارت مخدوش ہوئی تو قریش نے حضور ﷺ کے ابتدائی زمانہ میں تعمیر کیا جس میں آپ ﷺ کی شرکت اور آپ ﷺ کا حجراسود کو نصب فرما کر قریش میں جھگڑے کو ختم کرنا بڑا مشہور واقعہ ہے لیکن اس تعمیر میں کچھ تبدیلیاں کی گئیں ، سب سے پہلی یہ کہ بناء ابراہیمی میں سے کچھ جگہ چھوڑ دی گئی جسے حطیمہ کہا جاتا ہے جس کا سبب یہ ہوا کہ قریش نے اعلان کیا تھا کہ تعمیر کعبہ پر جو رقم خرچ ہو اس کا خالص اور حلال ہونا ضروری ہے۔ چناچہ ان کے نزدیک سارے مکہ سے جو حلال رقم جمع ہوئی وہ جملہ تعمیر کے لئے کفالت نہ کرتی تھی۔ چناچہ طے یہ پایا کہ کچھ حصہ چھوڑ دیا جائے۔ اے کاش ! آج کے مسلمان مساجد کی تعمیر میں ان لوگوں سے ہی سبق حاصل کرلیتے ۔ یہاں تو زنان بازاری تک سے چندہ لیا بھی جاتا ہے اور چندہ جمع بھی کرایا جاتا ہے۔ دوسری تبدیلی یہ کی گئی کہ بناء ابراہیمی میں دو دروازے تھے ایک داخلے کے لئے اور دوسرا اسی کے مقابل جانب پشت باہر جانے کے لئے ۔ پر یش نے دوسرا دروازہ بند کردیا اور تیسری تبدیلی یہ کی کہ دروازہ سطح زمین سے کافی بلند کردیا تاکہ لوگ آسانی سے داخل نہ ہوسکیں نیز جس کو چاہیں داخل ہونے کی اجازت دیں یا روک دیں۔ قریش کے بعد حضرت عبداللہ ابن زبیر ؓ نے جب ان کی حکومت مکہ مکرمہ پر تھی ، بیت اللہ کو بنا ابراہیمی پر تعمیر کروایا جیسا کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے کیا تھا کہ ان کے پیش نظروہ حدیث مبارکہ تھی کہ جس میں حضور اکرم ﷺ نے حضرت عائشہ صدیقہ ؓ سے فرمایا ” میرا دل چاہتا ہے کہ موجودہ تعمیر کو منہدم کرکے بنا ابراہیمی کے مطابق بنا دوں لیکن ناواقف اور نو مسلم لوگوں میں غلط فہمی پیدا ہونے کا خطرہ ہے۔ “ یہ حدیث پاک کا مفہوم ہے۔ اس کے بعد جلدہی حضور ﷺ دار بقا تشریف فرما ہوئے۔ چنانچہ حضرت عبداللہ ابن زبیر ؓ نے یہ تعمیر درست کردی۔ لیکن جب حجاج بن یوسف نے آل مروان کے زمانہ میں مکہ فتح کیا اور حضرت ابن زبیر ؓ شہید ہوئے تو اس نے آپ ؓ کی تعمیر کو شہید کرکے پھر سے اس طرز پر بنادیا جس طرز پر قریش کی تعمیر تھی جو آج تک موجود ہے حالانکہ خود والید بن عبدالملک بن مروان نے چاہا تھا کہ اسے بنا ابراہیمی پر ہی بنایا جائے ، حجاج نے غلطی کی ہے۔ مگر امام مالک بن انس ؓ نے فتویٰ دیا کہ بار بار منہدم کرنا اور بنانا جائز نہیں ، اس طرح تو آنے والے اکثر حکمران گراتے اور بناتے رہیں گے اب جس حال میں ہے اسی پہ چھوڑ دیا جائے اور یہ فتوے تمام امت نے قبول کرلیا۔ ابھی تک وہی تعمیر موجود ہے صرف مرمت وغیرہ کا کام جاری رہتا ہے اندر کے ستون اور چھت کی لکڑی وہی ہے جو قریش نے جدہ سے ایک بحری جہاز خرید کر اور اسے توڑ کر حاصل کی تھی جس کی تعمیر میں آپ ﷺ بھی شریک تھے بندہ کے پاس اس کا ایک ٹکڑا تبرک کے طور پر موجود ہے جو مرمت میں کاریگروں نے کاٹ کے پھینک دیا تو کسی دوست نے مجھے لادیا تھا۔ بعض روایات میں یہ بھی ہے کہ مکان تو پہلے بھی تھے لیکن عبادت کے لئے سب سے پہلے جمیع مخلوق کے لئے بننے والا پہلا مکان خانہ کعبہ ہے اور یہ بھی موجود ہے کہ سب سے پہلے سطح آب پر جھاگ کی شکل میں جگہ رکھی گئی اور پھر ساری زمین یہاں سے پھیلائی گئی۔ وان الارض وحیث من مکۃ واول من طاف بالبیت الملائکۃ ۔ اوکماقال۔ اور یہ روایت بھی موجود ہے کہ حضرت ابوذر ؓ نے حضور اکرم ﷺ کی خدمت اقدس میں عرض کیا کہ سب سے پہلی مسجد کونسی ہے ؟ فرمایا ، ” مسجد حرام ! “ انہوں نے عرض کیا ، ” اس کے بعد کون سی ہے ؟ “ فرمایا ” بیت المقدس ! “ پھر عرض کیا ، ان کی تعمیر میں کتنی مدت کا فرق ہے ؟ ارشاد ہوا ، ” چالیس سال “۔ اس روایت سے ثابت ہے کہ بیت المقدس بھی تعمیر ابراہیمی ہے حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے بناء ابراہیمی پر نئی مسجد تعمیر فرمائی۔ وضع للناس سے ظاہر ہے کہ دنیا میں ہمیشہ یہ مرجع خلائق رہا ہے اور اس گھر کی تعظیم و تکریم ہر قوم نے کی ہے علامہ سمہودی (رح) نے ” وفاء الوفائ “ میں عجب واقعات نقل فرمائے ہیں جن کی گنجائش یہاں نہیں ، ہاں ! اگر کوئی چاہے تو اس کی طرف رجوع کرسکتا ہے۔ اللہ نے اس کی تعمیر میں ایک ہیبت ودبدبہ بھی رکھا ہے اور دلوں کو جذب کرلینے کی صلاحیت بھی۔ اس کی برکات کا احاطہ نہیں کیا جاسکتا جو صوری بھی ہیں اور معنوی بھی۔ ایک لق ودق صحرا میں گھرا ہوا شہر ، بیشمار اور بےحساب مخلوق کو اپنے دامن میں سمولیتا ہے اس کی شفقت بھری گود سارا سال وارہتی ہے اور خصوصاً حج کے وقت کس قدر ہجوم بیک وقت جمع ہوتا ہے یہ صرف دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے۔ مگر کیا مجال ، جو کوئی بھوکا رہ جائے یا کسی کو ٹھکانہ نہ ملے یا کوئی شے بازار میں دستیاب نہ ہو۔ حتیٰ کہ سبزی تر کاری ، پھل دودھ ، دہی اور لسی تک ہر وقت موجود۔ کبھی قربانی کے جانور تک نایات نہیں ہوئے حالانکہ بعض لوگ سو سو تک ذبح کرتے ہیں اور حاجی کم از کم ایک قربانی ضرور دیتا ہے۔ اس کے ساتھ برکات معنوی کا شمار بھی ممکن نہیں۔ یہاں کی ایک نماز ایک لاکھ نمازوں کا درجہ رکھتی ہے اور ایک درہم کا صدقہ ایک لاکھ دراہم کا ثواب حاصل کرتا ہے۔ یہ بہت مشہور حدیث ہے کہ حج کرنے والا گناہوں سے اس پاک ہوجاتا ہے جیسے آج ماں کے پیٹ سے پیدا ہوا ہو۔ یہ دلوں کو نہ صرف سرور بلکہ نور عطا فرماتا ہے اور مومن کا دل اس کی طرف پروانہ وار آتا ہے۔ اگرچہ طوفان نوح (علیہ السلام) میں یہ عمارت منہدم ہوگئی مگر اس کے باوجود وہ انبیاء جن کی قومیں ہلاک ہوئیں ترک وطن کرکے یہیں تشریف فرما ہوتے یہیں رہتے فوت ہوتے اور ہوائیں خاک اڑا اڑا کر انہیں دفن کردیتی تھیں ، جیسے ارشاد ہے۔ مامن نبی ھرب من قومہ الی الکعبۃ یعبد اللہ فیھا حتیٰ یموت۔ او کما قال صلی اللہ والہ وسلم۔ (کشف الاسرار) حضرت قلزم فیوضات وبحرا العلوم ، استاذی المحترنے ” اسرار الحرمین “ میں تحریر فرمایا ہے کہ صرف مطاف کے نیچے انہوں نے ننانوے انبیائ (علیہ السلام) کی زیارت کی ہے جو اس عہد میں دفن ہوئے۔ مطاف سے باہر بھی تو ہوں گے ۔ نیز حج جیسی عبادات تو اسی کے ساتھ مختص بھی ہے۔ معنوی برکات کا تذکرہ بڑی حد تک اس عاجز نے دوسرے پارے کے شروع میں بھی کیا ہے وہاں سے بھی دیکھ لیا جائے۔ یہ مرکز فلاح ونجات ہے اور اس کی برکات عالمین کے لئے ہیں نہ صرف انسانوں کے لئے۔ کیونکہ ذاتی تجلی جو اس مکان سے متعلق ہے دراصل عرش عظیم سے نیچے ساری مخلوق کی بقا کا سبب ہے ، بلکہ عالم امر سے نیچے ہر طرح کی مخلوق اس کے طفیل باقی ہے۔ جب یہ ڈھا دیا جائے گا اور عبادت منقطع ہوگی تو وقت قیام قیامت کا ہوگا جس کی خبر حدیث پاک میں دی گئی ہے اور قیامت کا زلزلہ ہر شے کہ تہہ وبالا کردے گا۔ عالم امر سے نیچے اگر عرش باقی رہے گا تو اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ خود بھی مہبط تجلیات ذاتی ہے۔ اسی طرح جنت مظہر لطف وکرم ہے تو دوزخ مظہر غضب الٰہی ہے یہ مظاہر صفات باری ہیں اور روح کا تعلق براہ راست عالم امر سے ہے اس لئے یہ مراکز تجلیات یا متعلق عالم امر باقی رہیں گے ان میں وہ اجساد مبارکہ جو اللہ کی ذاتی تجلیات کو حاصل کرکے مراد کو پہنچے وہ بھی باقی رہیں گے۔ بقائے اجساد کا سبب : جیسے انبیاء (علیہ السلام) کے اجساد مبارکہ یا ان لوگوں کے اجساد جنہوں نے انبیائ (علیہ السلام) کے طفیل اپنے قلوب مہبط تجلیات بنا لئے۔ صحابہ شہداء اور اہل اللہ۔ برکت کا لغوی معنی وہ تالاب ہے جس کے گرد بہت سی وادیاں ہوں اور اس میں سب کا پانی جمع ہوتا ہو تو اس بارہ میں صاحب تفسیر کبیر کا ارشاد جو برکات کعبہ کے بارہ میں فرمایا ہے عجیب ہے کہ ذہن میں کعبۃ اللہ کو ایک نقطہ تصور کرلے اور اس کے گرد اس کی طرف متوجہ ہونے والے لوگوں کی صفوف کو اس کے نقطے کے گرد بصورت دائرہ خیال کرے تو یہ کس قدر دائرے بنیں گے جو ساری دنیا میں پھیلے ہوں گے اور حال یہ ہوگا کہ سب نماز میں مشغول ہوں گے اب یہ بات تو شبہ سے بالا تر ہے کہ اس بیشمار مخلوق میں کتنے ایسے عظیم انسان ہوں گے جن کی ارواح علوی یعنی اعلیٰ منازل کی حامل اور قلوب قدسی اسرارنورانی اور ضمائر ربانی ہوں گے۔ جب یہ ارواح صافیہ کعبہ معرفت کی طرف متوجہ ہوں گی اور ان کے اجسام کعبہ حسی کی طرف متوجہ ہوں گے تو جو لوگ کعبہ میں ہوں گے وہ انورات و تجلیات سے کس قدر دلوں میں نور حاصل کریں گے۔ جو ان کی ارواح و توجہ کے باعث نازل ہوگا۔ یقینا اپنی اپنی استعداد کے مطابق سب لوگوں کے دل منور ہوں گے ایسے ہی دور والے بھی۔ نیز نماز باجماعت کے دیگر فوائد کے ساتھ یہ بھی یاد رکھنے کے قابل ہے کہ فرماتے ہیں ، ھذا بحر عظیم ومقام شریف۔ فیہ ایات بینت……………فان اللہ عنی عن العلمین۔ کو بیت اللہ میں کھلی اور واضح نشانیاں موجود ہیں۔ برکات کعبہ : جن میں خوف سے امن کہ جب سے بیت اللہ قائم ہوا ہے اللہ نے اسے اور اس کی برکت سے اہل مکہ کو مخالفین کے حملوں سے پناہ دی ہے ابرہہ کا واقعہ کس قدر معروف ہے کہ اللہ نے اس کے ہاتھیوں کو پرندوں سے تباہ کرادیا۔ ایسی ہی نشانی ہے کہ کوئی پرندہ اڑا کر اوپر سے نہیں گزرتا۔ یا رمی جمار ، کہ ارشاد ہے حاجیوں کی پھینکی ہوئی کنکریاں فرشتے اٹھا لیتے ہیں۔ سوائے اس کے کہ کسی وجہ سے کسی کا حج قبول نہ ہو ، اسی لئے وہاں سے پڑی ہوئی کنکریاں اٹھا کر رمی کرنا منع ہے کہ وہ غیر مقبول ہوتی ہیں۔ یہ بہت بڑا معجزہ ہے کہ نہ حکومت اٹھواتی ہے نہ عوام مگر سوائے معمولی کنکریوں کے وہاں کچھ نہیں ہوتا اگر سب زمین پر جمع ہوتیں تو ایک دن میں پہاڑ بن جاتا۔ اب سنا ہے کہ حکومت اٹھوانے کا اہتمام کرتی ہے شاید اس لئے کہ لوگوں کی اکثریت حج کے نام پر پکنک مناتی ہے اور ارکان حج تک کی پرواہ نہیں کی جاتی۔ ظاہر ہے ایسے لوگوں کی کنکریاں تو حکومت ہی اٹھائے گی۔ اسی طرح زمزم ، حلیم ، صفاومروہ غرض ہر ایک ذرہ اپنے اندر نشانیاں رکھتا ہے جو الوہیت وقدرت باری پر بھی دال ہیں اور صداقت پیغمبر ﷺ کی گواہ بھی۔ ان میں ایک بہت بڑی نشانی مقام ابراہیم (علیہ السلام) ہے۔ یہ وہ پتھر ہے جس پر حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے نقوش پاثبت ہیں۔ ایک روایت میں ہے کہ تعمیر کعبہ کے وقت ابراہیم (علیہ السلام) پتھر گارا دیتے اور حضرت ابراہیم (علیہ السلام) تعمیر فرماتے تھے تو اس پتھر پر آپ کے قدم مبارک ٹخنوں تک دھنس گئے۔ یہ بجائے خود بہت بڑی نشانی ہے کہ سخت اور مضبوط پتھر موم کی طرح نرم ہو کر قدمین شریف کا نقش مبارک لے لے اور پتھر اسی طرح کا سخت اور مضبوط ہوجائے۔ اور تاحال اسے اس جگہ قائم رکھنا بھی اللہ کی عظمت پر دال ہے کس قدر مشرکین و مخالفین کے زمانے گزرے یہود و نصاریٰ یا کوئی اور دشمن بھی اسے ضائع نہ کرسکا۔ آج بھی ایک شیشے کے خول میں زیارت کے لئے رکھا ہے نیز جو اس کے اندر داخل ہوا وہ امن پا گیا ، مامون ہوگیا ، اصل امن تو عذاب سے ہے جو وہاں حاصل ہوتا ہے مگر صوری اعتبار سے حرم کے اندر ہر شے مامون ہے حتیٰ کہ درندے شکار تک نہیں کرتے اگر بھاگتا ہو شکار حرم میں داخل ہوجائے تو چھوڑ دیتے ہیں۔ ایسے ہی تشریعی طور پر حکم ہے کہ نہ کسی کو قتل کیا جائے اور نہ ستایا جائے۔ حتیٰ کہ اگر مجرم اندر چلا جائے ، اسے خوراک وغیرہ بند کرکے باہر آنے پر مجبور کیا جائے اندر سزا نہ دی جائے نہ پکڑا جائے اور تکوینی طور پر اللہ نے ہر دور میں ، ہر قوم کے دلوں کے اندر اس کی عظمت ڈال دی ہے۔ تاریخ میں ملتا ہے کہ جاہلیت کے کفار بھی حرم کی عزت بحال رکھتے تھے اور حرم میں جھگڑا یا قتل و غارت نہیں کرتے تھے یا اگر کسی سے کوئی فعل خلاف ادب سرزدہوجاتا تو بہت برا جانتے تھے حتیٰ کہ فتح مکہ کے موقع پر صرف حضور ﷺ کے لئے بھی چند گھنٹوں کے لئے قتال کی اجازت ہوئی کہ بیت اللہ کی تطہیر کردی گئی۔ پھر ہمیشہ کے لئے اس کی حرمت ویسی ہی ہے۔ یا اگر کسی نے اس کی حرمت کو پامال کیا سیاسی یا حکومتی مصالح کی غرض سے ، جیسے حجاج بن یوسف نے ، تو باجماع امت اس کے فعل کو حرام اور سخت گناہ قرار دیا گیا۔ حتیٰ کہ وہ خود بھی اس کے حلال ہونے کا عقیدہ نہیں رکھتا تھا۔ اس کی خصوصیات میں اس کے حج کا فرض ہونا بھی ہے کہ اللہ نے تمام انسانوں پر بشرط استطاعت حج فرض کردیا ہے۔ استطاعت سے مراد صحت کا ہونا یا اس قدر خرچ کہ آنے جانے ، وہاں قیام کرنے کے لئے کافی ہو اور واپسی تک ان افراد (بیوی بچوں) کو جن کا نفقہ اس کے ذمہ ہے خرچ کے لئے رقم دے سکے جو لوگ معذور ہوں آنکھوں وغیرہ یا ہاتھ یا ہاتھ پائوں سے تو وہ بھی عدم استطاعت کے زمرے میں آتے ہیں یا پھر اپنے خرچ پر کوئی ملازم وغیرہ ساتھ رکھ سکیں۔ اسی طرح وہ عورت جس کے ساتھ محرم نہ ہو معذور ہوگی۔ بغیر محرم کے عورت کے لئے سفر کرنا شرعاً جائز نہیں۔ کوئی محرم اپنے خرچ پر جائے یا عورت خرچ ادا کرے۔ بہرحال ساتھ ضرور ہو ورنہ عدم استطاعت ثابت ہوگی حج کے معنی تو قصد کرنے کے ہیں مگر شرعی معنی کی تفصیل خود قرآن مجید میں بھی موجود ہے اور تعلیمات نبوی ﷺ میں بھی۔ طواف اور وقوف ، عرفہ ومزدلفہ وغیرہ۔ اس کے بعد ارشاد ہوا کہ اگر کوئی اس کا انکار کرے ، جیسے کافر کرتے ہیں تو اللہ تمام جہانوں سے بےنیاز ہے ، اللہ کو احتیاج نہیں ہے بلکہ حج کرنے والوں کی اپنی بہتری اس میں ہے۔ اس کی فرضیت کا منکر تو کافر ہے ہی ، اگر کوئی باوجود استطاعت کے حج نہ کرے تو اس کا یہ فعل کافرانہ ہے۔ ہاں ! کوئی عذر ہو جیسے حکومت اجازت نہ دے یاراستے کا خطرہ یا صحت کی خرابی وغیرہ تو اور بات ہے ورنہ سیدنا فاروق اعظم ؓ کا قول اور در منشور میں ملتا ہے فرمایا کہ میں چاہتا ہوں کہ کوئی آدمی مقرر کروں جوان لوگوں کا پتہ کرے جو استطاعت کے باوجود حج نہیں کرتے تو ان پر جزیہ لگایا جائے کہ وہ مسلمان نہیں ہیں۔ یاد رہے کہ حج بشرط استطاعت زندگی میں ایک بار فرض ہے یہ ہر سال تشریف لے جانے والے حضرات اگر وہی رقم احیاء دین پر خرچ کرتے یا معذور مسلمانوں کی مدد میں خرچ کرتے تو کس قدر بہتر ہوتا۔ قل یا اھل الکتاب ……………وما اللہ بغافل عما تعملون۔ چونکہ بات اہل کتاب سے چل رہی ہے اور یہ درمیان میں بیت اللہ کا ذکر ، اس کے فضائل ، حج اور اس کے ارکان و احکام اور برکات سب کا بیان بجائے خودایک بہت بڑی دلیل ہے کہ بیت اللہ کی عظمت وہیبت ضرورموجود تھی مگر کسی کو عبادت کا صحیح طریقہ تک معلوم نہ تھا اور نہ ہی برکات کعبہ کی خبر تھی۔ نیز حج کی رسم ضرور موجود تھی مگر یاجاد بندہ قسم کی۔ حتیٰ کہ برہنہ طواف ہوتے اور گرداگرد ناچتے اور سیٹیاں بجاتے۔ اس ظلمت میں احقاق حق اور فضائل وبرکات کے ساتھ جملہ احکام کا بیان ان دلائل کے ساتھ جو پہلے سے بھی ان کی کتابوں موجود تھے ایک بہت مضبوط دلیل بن گئی۔ ارشاد ہوا ان سے فرمائیے کہ اس قدر دلائل باہرہ کا کیوں انکار کرتے ہو ؟ یادرکھو ! تمہارے ان اعمال کو خود اللہ جل شانہ دیکھ رہے ہیں۔ حق تو یہ تھا کہ تم خود ایمان لاتے مگر تم ایسے بدبخت ہو کہ دوسروں کی راہ میں بھی رکاوٹ بنے ہوئے ہو اور جانتے بوجھتے ہوئے بھی حیلہ جوئی اور بہانہ سازی کرتے ہو کہ لوگ گمراہ ہوجائیں مگر یادرکھو ! اللہ تمہارے کرتوتوں سے بیخبر نہیں ہے۔ یا ایھا الذین امنوا……………الی صراط مستقیم۔ ان اگلی دو آیات میں مسلمانوں سے خطاب ہے کہ اگر یہ لوگ اپنی فطرت بد سے باز نہیں آتے تو تمہیں ہرگز ان کی بات پہ توجہ نہ دینی چاہیے کہ اگر تم ان کی باتوں میں آگئے تو یہ تمہیں ایمان کے بعد بھی کفر کی طرف لانے کی کوشش ہی کریں گے حالانکہ تمہارے پاس تو ایسے اسباب جو مانع کفر ہیں بدرجہ اتم موجود ہیں کہ تمہیں اللہ کی آیات پڑھ کر سنائی جاتی ہیں ، جو قاطع کفر وضلال ہے۔ دلائل حقہ میں وجود رسالت (علیہ السلام) بڑی دلیل ہے : پھر سب سے بڑی خوش نصیبی یہ ہے کہ تم میں اللہ کا رسول ﷺ موجود ہے۔ گویا وجودرسول ﷺ ابدالآباد کفر کو مٹانے والا اور حق کو پھیلانے والا ہے اور تلاوت آیات کا سبب بھی ذات رسول اکرم ﷺ ہی تو ہے کہ آپ ہی کے قلب اطہر پر قرآن نازل ہوا۔ اور آپ ﷺ سے مخلوق کو پہنچا۔ نیز نہ صرف الفاظ بلکہ مفاہیم بھی۔ یہ آپ ﷺ ہی کا مقام ہے کہ ارشاد ہوا لتبین للناس مانزل الیھم۔ کہ لوگوں کو قرآن کا مفہوم بھی ارشاد فرمائیں ، ان معنی ومفاہیم ہی کو حدیث رسول ﷺ کہا جاتا ہے اور ظاہر ہے کہ جب اس کو فرائض نبوت میں شمار کیا گیا تو کوئی دوسرا از خود معانی تعین کرنے کی اہلیت نہیں رکھتا۔ اگر ایسا ہو تو بعثت رسول ﷺ تحصیل حاصل ٹھہرے گی جو باطل ہے۔ حفاظت حدیث نبوی ﷺ: حفاظت الٰہیہ کا وعدہ صرف قرآنی الفاظ تک محدود نہیں بلکہ مقاہیم کو الفاظ سے زیادہ ضرورت حفاظت ہے اسی لئے حفاظت حدیث کا وہ عظیم الشان کام ہوا جو بجز توفیق باری ممکنات میں سے نظر نہیں آتا کہ کم وبیش سترہ فنون صرف حفاظت حدیث کے لئے مدون ہوئے۔ اور اسمائے رجال جیسا عظیم کارنامہ صرف مسلمان اکابر نے انجام دیا ، دنیا کی کوئی قوم اس کی نظیر پیش نہیں کرسکتی کہ ایک لفظ ارشاد رسول ﷺ کا جس نے نقل کیا وہ کون تھا ؟ کیسا تھا ؟ کس زمانے میں تھا ؟ حتیٰ کہ دودھ اور پانی علیحدہ کردیا جو کوشش کفر نے آمیزش کے لئے کی تھی ، مانند تلچھٹ نکال کر پھینک دی۔ علمائے ربانیین نے عمریں اسی سعادت کے حصول میں صرف فرمادیں۔ آج اگر کوئی کہے کہ حدیث پہ اعتبار نہیں تو اس کے پاس قرآن کی صداقت کے ذرائع بھی وہی ہیں جو حدیث کے ہیں۔ اس کی صداقت بھی مجروع ٹھہرے گی۔ نیز یہ سب برکات رسول ﷺ سے متعلق ہے۔ وفیکم رسولہ سے مراد نہ صرف جسم ہے اور نہ صرف روح مبارک بلکہ وہ ذات جو جسم وجان کو جامع ہے اور ہمیشہ اسی حال پر رہے گی۔ خواہ اس دنیا میں ہو یا برزخ میں حیات جسمانی تسلیم نہ کی جائے تو لازم آئے گا کہ جسم اطہر روح سے خالی ہے تو لامحالہ رسالت ونبوت جو اوصاف روح کے ہیں ان سے بھی خالی ہوگا جب ایسا ہے تو وہ برکات جو وجود رسول ﷺ سے متعلق ہیں ان سے خالی ہوگا۔ اگر یہ سب درست ہو تو پھر مانع کفر کوئی شے باقی نہ رہی اور دنیا پہ کسی شخص کا اسلام پہ قائم رہنا ممکن نہ رہا۔ منکرین حیات کو یہاں سے سبق حاصل کرنا چاہیے۔ قرآن کریم کوئی فسانہ آزاد نہیں بلکہ اس کے ساتھ خاص کیفیات بھی نازل ہوئیں۔ جن کا امین وجود رسول ﷺ تھا ، ہے اور رہے گا۔ حیات دنیا میں جو ایمان لایا قرب وجودی حاصل کرکے مرتبہ صحابیت پر فائز ہوا۔ اب اگر وجود اقدس روح اطہر سے خالی ہوتا تو ان برکات سے بھی خالی ہوتا اور ولایت خاصہ تو کجا ولایت عامہ یعنی صرف ایمان بھی کسی کو نصیب نہ ہوتا کہ کفر سے کوئی شے مانع نہ رہتی۔ اور جو کوئی بھی اللہ کو مضبوط پکڑے یعنی اللہ کے رسول ﷺ سے ایسارابطہ اور ایسا تعلق جوڑے کہ کمال اطاعت کو پالے یعنی اس کی حرکت و سکون اللہ کے حکم کے مطابق ہوجائے۔ گویا اس کا ہاتھ اللہ کے ہاتھ میں ہے اٹھاتا ہے تو اٹھتا ہے اور بٹھاتا ہے تو بیٹھ جاتا ہے۔ اگر یہ بات ہے تو جان لو کہ یہ شخص ہدایت کو پا گیا اور سیدھے راستے پر چلنا نصیب ہوگیا کہ یہی مقصد تخلیق ہے۔ اب اس سے اگلے رکوع میں مزید برکات رسول ﷺ کا ذکر ہے یاد رہے کہ بعثت کے وقت بھی جو ایمان لایا اس نے ان ہی برکات کو پایا جو آج ایمان لانے والا حاصل کرسکتا ہے سوائے اس کے کہ دنیا سے پردہ فرمانے کے بعد کوئی صحابیت کو نہیں پاسکتا چونکہ عالم ایک نہیں رہا۔ یہ وجہ نہیں کہ معاذ اللہ حیات باقی نہیں رہی ، اگر ایسا ہوتا تو پھر کوئی ایمان بھی نہ پاسکتا کہ وفیکم رسول سے محروم ہوجاتا۔ سید عبدالعزیز دباغ (رح) فرماتے ہیں کہ ہر مومن کے دل سے ایک نور کی تار جڑی ہوتی ہے ، جو قلب اطہر رسول ﷺ سے نکلتی ہے اتباع سنت اس کو مضبوط کرتا چلا جاتا ہے کہ نہر اور دریا کی مثل بھی بن جاتی ہے اور عدم اطاعت سے کمزور ہوتی چلی جاتی ہے حتیٰ کہ ٹوٹ بھی سکتی ہے جس کی یہ تار ٹوٹ جائے وہ شخص اسلام پہ نہیں رہتا اور آج کل تو یہ کٹے ہوئے پتنگ ہر طرف نظر آتے ہیں۔
Top