Asrar-ut-Tanzil - Al-Ghaafir : 51
اِنَّا لَنَنْصُرُ رُسُلَنَا وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا فِی الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا وَ یَوْمَ یَقُوْمُ الْاَشْهَادُۙ
اِنَّا : بیشک ہم لَنَنْصُرُ : ضرور مدد کرتے ہیں رُسُلَنَا : اپنے رسول (جمع) وَالَّذِيْنَ : اور جو لوگ اٰمَنُوْا : ایمان لائے فِي : میں الْحَيٰوةِ : زندگی الدُّنْيَا : دنیا وَيَوْمَ : اور جس دن يَقُوْمُ : کھڑے ہوں گے الْاَشْهَادُ : گواہی دینے والے
یقینا ہم اپنے پیغمبروں اور ایمان لانے والوں کی دنیا کی زندگی میں بھی مدد فرماتے ہیں اور جس دن گواہ کھیڑ ہوں گے (تب بھی)
رکوع نمبر 6: آیات 51 تا 60: اسرار و معارف : اقوام سابقہ کے حالات بھی شاہد ہیں کہ اللہ اپنے رسولوں کی اور ان پر ایمان لانے والون کی دار دنیا میں بھی مدد فرماتے ہیں اور ہمیشہ آخری کامیابی بھی انہی کی ہوتی ہے اور عزت و آرام بھی انہی کو نصیب ہوتا ہے۔ یہ بات آج کے حالات میں بھی بالکل واضح ہے اور آخرت میں جب اعمال کا حساب ہوگا اور سب پر گواہیاں پیش ہوں گی تو یہ کفار و مشرکین سب اکڑ بھول کر معذرت کرنے لگیں گے لیکن تب یہ سب منظور نہ ہوسکے گا اور ان پر لعنت و پھٹکار ہوگی نیز انہیں بہت برا ٹھکانہ نصیب ہوگا۔ ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) کو ہدایت کی راہ دکھائی انہیں بھی آسمانی کتاب ملی پھر بہت بڑی کافر طاقت نے سخت مخالفت کی مگر ان کا کچھ بگاڑ سکے نہ کتاب کا بلکہ کافر تباہ ہوگئے اور کتاب اور دین حق بنی اسرائیل میں نسلوں تک باقی رہا اہل دانش کے لیے اس میں بہت بڑی نصیحت ہے۔ یہاں ایک طرح سے مثال دے کر پیشگوئی فرمائی جا رہی ہے کہ فرعونیوں کی طرح یہ کفار بھی ناکام ہوں گے اور صحابہ کرام اور بعد کے مسلمانوں میں دین حق وراثت کے طور پر ضرور قائم رہے گا آپ صبر کیجیے ان کی وقتی اور لمحاتی کامیابی اور ایذا پر کہ اللہ کا وعدہ حق ہے غلبہ آپ کو اور آپ کے متبعین ہی کو نصیب ہوگا ہاں اللہ سے بخشش اور مغفرت طلب کرتے رہیے جس کا طریق یہ ہے کہ صبح شام یعنی ہر لمحہ ہر آن اللہ کا ذکر کیا کیجیے اس کی تسبیح اور حمد کرتے رہا کیجیے۔ صبح و شام سے مراد مفسرین کرام کے مطابق ذکر دوام ہے کہ یہی وہ کیفیت پیدا کرتا جسے حضوری یا معیت کہا جائے اور معیت باری ہی سب مشکلات کا حل اور سارے سوالوں کا جواب ہے۔ جو لوگ اللہ کی بات یا ارشاد سن کر اس کی مخالفت کرتے ہیں ان کے پاس اس پر کوئی دلیل نہیں اور نہ ہوسکتی ہے در حقیقت ان کے دلوں میں غرور وتکبر اور اپنی بڑائی کا وہم گھر گیا ہے وہ سمجھتے ہیں کہ اگر نبی کا ارشاد مان لیا تو ہماری حیثیت اور بڑائی ختم ہوجائے گی لہذا انکار کر کے اپنی ذاتی ریاست اور من مانی قائم رکھنا چاہتے ہیں مگر وہ ایسا بھی نہ کرسکیں گے انہیں اپنا زور لگانے دیجیے مگر آپ اللہ سے پناہ طلب کیجیے کہ وہی سب کچھ سنتا ہے اور سب دیکھتا ہے لہذا کفار کے پراپیگنڈہ اور ان کی چالوں کے جواب میں مومن کے پاس بہت بڑا ہتھیار ہے کہ خود کو اللہ کی پناہ میں رکھے زبانی بھی اللہ سے پناہ طلب کرے اور عملاً بھی اللہ کی اطاعت اور اتباع سنت خیر الانام اختیار کرے ان کفار کو یہ تک سجھائی نہیں دیتا کہ جس خالق کائنات نے آسمانوں کو زمین اور اس کی مخلوق اور سارے نظام کو پیدا فرمایا اسے کیا مشکل ہے کہ انسانوں کو پھر سے زندہ کردے مگر یہ علم سے بےبہرہ ہیں اور حقائق کو جاننے سے محروم کہ ان میں نور ایمان نہیں ہے لہذا ایسے اندھے کبھی اس کے برابر ہوسکتے ہیں جس کو اللہ نے نظر عطا کی ہو اور جسے نور ایمان نہیں ہے لہذا ایسے اندھے کبھی اس کے برابر ہوسکتے ہیں جس کو اللہ نے نظر عطا کی ہو اور جسے نور ایمان عطا ہوا ہو اور اللہ کی اطاعت کی توفیق ارزاں ہو بھلا یہ بدکار اس کے مقابل آسکتے ہیں ہرگز نہیں مگر یہ ایسی باتوں کو سمجھ ہی نہیں پاتے ان کی سوچ ہی بہت کمزور ہے۔ قیامت کا آنا یقینی ہے اس میں رائی برابر شک نہیں کہ ان کے نہ ماننے سے اس پر کوئی اثر پڑے یہ نہ ہوگا بلکہ اکثر لوگ انکار کرکے خود ایمان سے محروم ہیں حالانکہ تمہارے پروردگار کا تو اعلان ہے مجھ سے دعا کرو میں تمہاری دعا قبول کروں گا لہذا وہ قبول فرماتا ہے کہ دعا خالص اللہ سے کی جائے آپ ﷺ کی سنت کے مطابق کی جائے تو یقینا قبول ہوتی ہے۔ محققین کے مطابق مومن کی دعا کبھی رد نہیں ہوتی۔ اول تو جیسے مانگتا ہے مل جاتا ہے کبھی وقت میں تاخیر ہوجاتی ہے یا پھر وہ شئے اس کے حق میں بہتر نہ ہو تو اللہ بہتر شئے سے تبدیل کردیتے ہیں یا پھر اس کے ذخیرہ آخرت میں رکھ دی جاتی ہے کہ روز حشر اجر پا لے گا نیز دعا میں یہ کیا کم ہے کہ بندہ اللہ سے ہمکلام تو ہوتا ہے اور جو لوگ میری اطاعت سے اپنے تکبر کی وجہ سے دور رہے ایسے لوگ ذلیل ہو کر دوزخ میں داخل ہوں گے۔
Top