Tafseer-e-Baghwi - An-Nahl : 48
اَوَ لَمْ یَرَوْا اِلٰى مَا خَلَقَ اللّٰهُ مِنْ شَیْءٍ یَّتَفَیَّؤُا ظِلٰلُهٗ عَنِ الْیَمِیْنِ وَ الشَّمَآئِلِ سُجَّدًا لِّلّٰهِ وَ هُمْ دٰخِرُوْنَ
اَوَ : کیا لَمْ يَرَوْا : انہوں نے نہیں دیکھا اِلٰى : طرف مَا خَلَقَ : جو پیدا کیا اللّٰهُ : اللہ مِنْ شَيْءٍ : جو چیز يَّتَفَيَّؤُا : ڈھلتے ہیں ظِلٰلُهٗ : اس کے سائے عَنِ : سے الْيَمِيْنِ : دائیں وَالشَّمَآئِلِ : اور بائیں سُجَّدًا : سجدہ کرتے ہوئے لِّلّٰهِ : اللہ کے لیے وَهُمْ : اور وہ دٰخِرُوْنَ : عاجزی کرنے والے
کیا ان لوگوں نے خدا کی مخلوقات میں سے ایسی چیزیں نہیں دیکھیں جن کے سائے دائیں سے (بائیں کو) اور بائیں سے (دائیں کو) لوٹتے رہتے ہیں (یعنی) خدا کے آگے عاجز ہو کر سجدہ میں پڑے رہتے ہیں۔
تفسیر (48)” اولم یروا الی ما خلق اللہ من شئی “ حمزہ اور کسائی نے ” تروا “ تاء کے ساتھ پڑھا ہے۔ اسی طرح سورة عنکبوت میں ذکر کیا ہے اور دوسرے قراء نے یاء کے ساتھ پڑھا ہے۔ ” یتفیوا “ ابو عمر اور یعقوب نے تاء کے ساتھ پڑھا ہے اور دوسرے قراء نے یاء کے ساتھ پڑھا ہے۔ ” ظلالہ “ اس کی طرف مائل ہوتے ہیں اور ایک طرف سے دوسری طرف وہ چکر لگاتے ہیں، دن کے اول حصے میں ایک طرف کو جھکتے ہیں اور دن کے آخری وقت میں دوسری جانب جھکتے ہیں اور یہ دونوں طرف بحکم الٰہی جھکتے ہیں۔ ان کا ایک طرف سے دوسری طرف میلان ہونا گویا اللہ تعالیٰ کو سجدہ کرنا ہے اور اسی سے کہاجاتا ہے شام کے وقت سایہ مغرب سے مشرق کی طرف لوٹتا ہے۔ اس سایہ کا لوٹنا اور سجدہ کا میل کرنا جیسا کہ کہا جاتا ہے ” سجدت التخلہ “ کھجور کا درخت سجدہ کرنے لگا۔ یعنی پھلوں کا زیادہ بار پڑنے کی وجہ سے جھک گیا۔ ” عین الیمین والشمائل سجداً للہ “ قتادہ اور ضحاک رحمہما اللہ کا قول ہے یمین سے مراد دن کا اول حصہ اور شمال سے دن کا آخری حصہ مراد ہے۔ اس کا سایہ اللہ تعالیٰ کو سجدہ کرتا ہے۔ کلبی (رح) کا قول ہے کہ وہ سایہ جو طلوع شمس سے پہلے ہوتا ہے خواہ وہ دائیں طرف سے ہو یا بائیں طرف سے یا سامنے سے یا پیچھے سے۔ اسی طرح جب وہ طلوع ہو یا غروب ہو۔ جب یہ طلوع ہوتا ہے تو سامنے سے اور تھوڑا اوپر آجائے تو دائیں طرف سے اور اگر اس کے اوپر آجائے تو پیٹھ کے پیچھے اور غروب شمس سے پہلے اس کا سایہ بائیں طرف ہوتا ہے تو یہ ان کے سائے کبھی ایک طرف کبھی دوسری طرف متوجہ ہوتے ہیں۔ اور مجاہد (رح) کا قول ہے کہ جب سورج زوال ہوتا ہے تو ہر چیز سجدہ کرتی ہے۔ بعض نے کہا کہ ظلال سے مراد اشخاص کا سجدہ کرنا۔ اگر سوال کیا جائے کہ یمین کو واحد اور شمال کو جمع کے ساتھ ذکر کیوں کیا ؟ جواب دیا گیا کہ کلام عرب میں ایک چیز کی دو علامت کو ایک ہی چیز کی طرف بیان کرتے ہیں۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ” ختم اللہ علی قلوبھم وعلی سمعھم “ اور اللہ تعالیٰ کا فرمان ” یخرجھم من الظمات الی لنور “ اور بعض کا قول ہے کہ یمین لوٹتی ہے اللہ کے اس فرمان کی طرف ” ما خلق اللہ “ اور لفظ ماواحد ہے اور الشمائل جمع ہے جو معنی کی طرف لوٹتی ہے۔ ” وھم داخرون “ اور وہ بھی عاجز ہیں۔
Top