Tafseer-e-Baghwi - Al-Ahzaab : 69
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَكُوْنُوْا كَالَّذِیْنَ اٰذَوْا مُوْسٰى فَبَرَّاَهُ اللّٰهُ مِمَّا قَالُوْا١ؕ وَ كَانَ عِنْدَ اللّٰهِ وَجِیْهًاؕ
يٰٓاَيُّهَا : اے الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا : ایمان والو لَا تَكُوْنُوْا : تم نہ ہونا كَالَّذِيْنَ : ان لوگوں کی طرح اٰذَوْا : انہوں نے ستایا مُوْسٰى : موسیٰ فَبَرَّاَهُ : تو بری کردیا اس کو اللّٰهُ : اللہ مِمَّا : اس سے جو قَالُوْا ۭ : انہوں نے کہا وَكَانَ : اور وہ تھے عِنْدَ اللّٰهِ : اللہ کے نزدیک وَجِيْهًا : باآبرو
مومنو ! تم ان لوگوں جیسے نہ ہونا جنہوں نے موسیٰ کو (عیب لگا کر) رنج پہنچایا تو خدا نے ان کو بےعیب ثابت کیا اور وہ خدا کے نزدیک آبرو والے تھے
، یایھا الذین امنوالا تکونواکالذین اذواموسیٰ قبراہ اللہ مما قالوا، اللہ تعالیٰ نے ان کو پاک کردیا جو انہوں نے کیا ۔ ، وکان عند اللہ وجیھا، وہ آبرو والا ہے۔ حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اللہ کے نزدیک اس مقام پر تھے کہ جو مانگتے تھے اللہ عطاء فرمادیتا تھا۔ بعض نے کہا کہ وجیہ ہونے سے مراد یہ ہے کہ وہ اللہ کے مجبوب اور مقبول بارگاہ تھے۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی برأت کا واقعہ کہا گیا ہے کہ یہ واقعہ وہی تھا جو حضرت ابوہریرہ ؓ کی روایت میں آیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : موسیٰ (علیہ السلام) بڑے حیاوار، شریف النفس اور اپنے (اندرونی ) جسم کو چھپا نے والے تھے، انتہائی شرم کی وجہ سے وہ اپنی (اندورنی) جلد بھی ظاہر نہیں کرتے تھے ۔ بنی اسرائیل میں سے بعض لوگوں نے کہا : موسیٰ (علیہ السلام) جو اتنا اپنے بدن کو چھپائے رکھتے ہیں ، ضروران کو کوئی جلدی اندرونی بیماری ہے یابرص ہے یاخصیوں میں پانی آگیا ہے ، یا کوئی اور مرض ہے۔ اللہ نے موسیٰ (علیہ السلام) کو اس غلط بات سے پاک ظاہر کرنا چاہا جس کی صورت یہ ہوئی کہ ایک روز غسل کرنے کے لیے موسیٰ (علیہ السلام) نے تنہائی میں کپڑے اتار کر ایک پتھر پر رکھے پھر غسل کیا ۔ غسل کے بعد جب کپڑے لینے کے لیے ہاتھ بڑھا یا تو پتھر آپ کے کپڑے لے کربھاگا، آپ لاٹھی لے کر پتھر کے تعاقب میں دوڑی اورکہنے لگے : پتھر میرے کپڑے پتھر میرے کپڑے ا اخرپتھر بنی اسرائیل کی ایک جماعت تک پہنچ کر ٹھہر گیا لوگوں نے آپ کو برہنہ دیکھ لیا، آپ کا اندرونی بدن بہت خوبصورت اور بےعیب پایا، اس طرح اللہ نے ان لوگوں کی بدگمانی سے موسیٰ (علیہ السلام) کی برأت ظاہرکردی ۔ موسیٰ (علیہ السلام) نے کپڑے لے کر پہن لیے اور لاٹھی سے پتھر کو مارنے لگے۔ خدا کی قسم ! موسیٰ (علیہ السلام) کی لاٹھی کی ضرب سے پتھر پر تین چاریاپانچ نشان پڑگئے۔ آیت ، یایھا الذین امنو الا تکونواکالذین اذواموسی قبراہ اللہ مماقالوا، سے یہی مراد ہے۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ موسیٰ (علیہ السلام) کو اذیت دینے سے یہ مراد ہے کہ حضرت ہارون (علیہ السلام) نے جب تیہ میں وفات پائی تو لوگوں نے موسیٰ (علیہ السلام) پر تہمت لگائی کہ آپ نے ہارون (علیہ السلام) کو قتل کیا ہے۔ اللہ نے فرشتوں کو حکم دیا فرشتے جب حضرت ہارون (علیہ السلام) کا جنازہ لوگوں کے (بنی اسرائیل کے) سامنے لائے اس وقت لوگوں کو یقین آیا کہ موسیٰ (علیہ السلام) نے ہارون کو قتل نہیں کیا۔ (اخرجہ ابن منیع وابن جریر وابن المنذروابن ابی حاتم وابن مردویہ الحاکم عن ابن عباس علی بن ابی طالب) بخاری نے حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ کی روایت سے لکھا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے کچھ مال (حنین کی جنگ کا) لوگوں کو تقسیم کیا۔ ایک شخص کہنے لگا : یہ تقسیم لوجہ اللہ نہیں ہوئی۔ میں نے حضور ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوکر اس بات کی اطلاع پہنچادی ، سنتے ہی حضور گرامی اتنے ناراض ہوئے کہ غصہ کی علامت چہرئہ مبارک پر نمودار ہوگئی ، پھر فرمایا : اللہ موسیٰ (علیہ السلام) پر اپنی رحمت فرمائے ، ان کو اس سے زیادہ ایذاء پہنچائی گئی اور انہوں نے صبر کیا۔
Top