Maarif-ul-Quran - Al-Ahzaab : 69
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَكُوْنُوْا كَالَّذِیْنَ اٰذَوْا مُوْسٰى فَبَرَّاَهُ اللّٰهُ مِمَّا قَالُوْا١ؕ وَ كَانَ عِنْدَ اللّٰهِ وَجِیْهًاؕ
يٰٓاَيُّهَا : اے الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا : ایمان والو لَا تَكُوْنُوْا : تم نہ ہونا كَالَّذِيْنَ : ان لوگوں کی طرح اٰذَوْا : انہوں نے ستایا مُوْسٰى : موسیٰ فَبَرَّاَهُ : تو بری کردیا اس کو اللّٰهُ : اللہ مِمَّا : اس سے جو قَالُوْا ۭ : انہوں نے کہا وَكَانَ : اور وہ تھے عِنْدَ اللّٰهِ : اللہ کے نزدیک وَجِيْهًا : باآبرو
مومنو ! تم ان لوگوں جیسے نہ ہونا جنہوں نے موسیٰ کو (عیب لگا کر) رنج پہنچایا تو خدا نے ان کو بےعیب ثابت کیا اور وہ خدا کے نزدیک آبرو والے تھے
خاتمہ سورت بر ترغیب از ایذاء رسول وترغیب اطاعت رسول ﷺ قال اللہ تعالیٰ یایھا الذین امنوا لا تکونوا کالذین اذوا۔۔۔ الی۔۔۔ فقد فاز فوزا عظیما۔ (ربط) ابتداء سورت سے لے کر یہاں تک منافقین کی انواع و اقسام کی ایذاؤں کا ذکر تھا اور گذشتہ آیات میں ایذا رسول کو موجب لعنت قرار دیا اب سورت کو اسی مضمون پر ختم کرتے ہیں اور اس سورت کے متفرق مضامین کا خلاصہ ہے کہ رسول خدا کو ایذا پہنچانا موجب ہلاکت ولعنت ہے اور تقویٰ اور رسول کی اطاعت موجب صلاح اور فلاح اور باعث رحمت اور کیمیاء سعادت ہے۔ ابتداء سورت میں نبی کریم ﷺ کو تقویٰ کا حکم تھا اب آخر سورت میں اہل ایمان کو تقویٰ کا حکم دیا جس درجہ کا تقویٰ ہوگا اسی درجہ کا ایمان ہوگا اور ایمان اور تقویٰ کا ادنیٰ درجہ یہ ہے کہ نبی کو اور اس کی ازواج مطہرات اور بنات طاہرات کو کسی قسم کی ایذا نہ پہنچائے نبی کو اپنا روحانی باپ جانے اور ازواج مطہرات کو اپنی روحانی مائیں سمجھے۔ نبی پر طعن کرنا اور اس کو ایذا پہنچانا یہ منافقین کا شیوہ ہے۔ چناچہ فرماتے ہیں اے ایمان والو تم ان لوگوں کی طرح مت ہوجاؤ جنہوں نے موسیٰ (علیہ السلام) کو ایذا دی تھی پس اللہ تعالیٰ نے موسیٰ (علیہ السلام) کو تو اس بات سے بری کردیا اور ایذاء پہنچانے والے ہمیشہ کے لئے ملعون اور مغضوب ہوئے۔ اور وہ یعنی موسیٰ (علیہ السلام) اللہ کے یہاں بڑے آبرو والے تھے اللہ کے نزدیک ان کا بڑ مرتبہ تھا اور رسول اللہ ﷺ کا مرتبہ تو اللہ کے یہاں سب سے بڑھ کر ہے آپ ﷺ کو اذیت پہنچانے سے آپ ﷺ کی وجاہت اور عزت میں کوئی فرق نہیں آئے گا بنی اسرائیل نے موسیٰ (علیہ السلام) کو طرح طرح سے ایذائیں پہنچائیں ایک مرتبہ عورت کو رشوت دے کر الزام لگایا جیسا کہ قارون کے قصہ میں گذرا اور اس کے علاوہ اور بھی واقعات ہیں۔ اے ایمان والو اللہ سے ڈرتے رہو۔ اور ہمیشہ درست بات کہو زبان سے کوئی لفظ ایسا نہ نکالو کہ جو نبی کی ایذا کا سبب بنے اور کوئی بات خلاف شرع تمہاری زبان سے نہ نکلے ایسی بات خدا اور اس کے رسول کی ایذا کا سبب ہے اللہ تمہارے اعمال کو درت کر دے گا اور تمہارے گناہوں کو بخش دے گا اور جس نے اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کی وہ بڑی کامیابی کو پہنچا خوب سمجھ لو کہ کامیابی کو دارو مدار اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت پر ہے۔ نکتہ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے اصلاح کے دو طریقے ذکر فرمائے ایک تقویٰ اور ایک قول سدید۔ تقویٰ کے معنی خوف خداوندی کے ہیں جس کا تعلق قلب سے ہے اور قول سدید یعنی ٹھیک بات کہنا اس کا تعلق زبان سے ہے مطلب یہ ہے کہ اگر تم ان باتوں کو اختیار کرو گے تو اللہ تعالیٰ تمہارے اعمال کی اصلاح فرما دیں گے جب قلب درست ہوجائے اور زبان درست ہوجائے تو لا محالہ باقی اعمال درست ہوجائیں گے۔ اعمال کا دارومدار تر انہی دو چیزوں پر ہے ایک دل اور ایک زبان جب یہ دونوں درست ہوجائیں گے تو باقی بھی درست ہوجائیں گے۔ تمام اعضا میں سب سے زیادہ تیز اور رواں زبان ہے ہر عضو تھک جاتا ہے مگر زبان بولنے سے نہیں تھکتی حدیث میں ہے۔ اذا اصبح ابن ادم فالاعضا کلھا تکفر اللسان فتقول اتق اللہ فینا فنحن بک فان استقمت استقمنا وان اعن ججت اعو ججنا۔ جب ابن آدم صبح کرتا ہے تو تمام اعضا زبان کو قسم دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اے زبان ہمارے بارے میں اللہ سے ڈر کیونکہ ہم تیری ساتھ ہیں پس اگر تو درست ہوگی تو ہم سب درست رہیں گے اور اگر تو کج ہوگی تو ہم سب کج رہیں گے (ماخوذ از تسہیل الاصلاح وعظ پنجم از دعوات عبدیت حصہ دوم )
Top