Mufradat-ul-Quran - Al-Ahzaab : 69
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَكُوْنُوْا كَالَّذِیْنَ اٰذَوْا مُوْسٰى فَبَرَّاَهُ اللّٰهُ مِمَّا قَالُوْا١ؕ وَ كَانَ عِنْدَ اللّٰهِ وَجِیْهًاؕ
يٰٓاَيُّهَا : اے الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا : ایمان والو لَا تَكُوْنُوْا : تم نہ ہونا كَالَّذِيْنَ : ان لوگوں کی طرح اٰذَوْا : انہوں نے ستایا مُوْسٰى : موسیٰ فَبَرَّاَهُ : تو بری کردیا اس کو اللّٰهُ : اللہ مِمَّا : اس سے جو قَالُوْا ۭ : انہوں نے کہا وَكَانَ : اور وہ تھے عِنْدَ اللّٰهِ : اللہ کے نزدیک وَجِيْهًا : باآبرو
مومنو ! تم ان لوگوں جیسے نہ ہونا جنہوں نے موسیٰ کو (عیب لگا کر) رنج پہنچایا تو خدا نے ان کو بےعیب ثابت کیا اور وہ خدا کے نزدیک آبرو والے تھے
يٰٓاَيُّہَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تَكُوْنُوْا كَالَّذِيْنَ اٰذَوْا مُوْسٰى فَبَرَّاَہُ اللہُ مِمَّا قَالُوْا۝ 0 ۭ وَكَانَ عِنْدَ اللہِ وَجِيْہًا۝ 69ۭ أیمان يستعمل اسما للشریعة التي جاء بها محمّد عليه الصلاة والسلام، وعلی ذلك : الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هادُوا وَالصَّابِئُونَ [ المائدة/ 69] ، ويوصف به كلّ من دخل في شریعته مقرّا بالله وبنبوته . قيل : وعلی هذا قال تعالی: وَما يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللَّهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ [يوسف/ 106] . وتارة يستعمل علی سبیل المدح، ويراد به إذعان النفس للحق علی سبیل التصدیق، وذلک باجتماع ثلاثة أشياء : تحقیق بالقلب، وإقرار باللسان، وعمل بحسب ذلک بالجوارح، وعلی هذا قوله تعالی: وَالَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ أُولئِكَ هُمُ الصِّدِّيقُونَ [ الحدید/ 19] . ( ا م ن ) الایمان کے ایک معنی شریعت محمدی کے آتے ہیں ۔ چناچہ آیت کریمہ :۔ { وَالَّذِينَ هَادُوا وَالنَّصَارَى وَالصَّابِئِينَ } ( سورة البقرة 62) اور جو لوگ مسلمان ہیں یا یہودی یا عیسائی یا ستارہ پرست۔ اور ایمان کے ساتھ ہر وہ شخص متصف ہوسکتا ہے جو تو حید کا اقرار کر کے شریعت محمدی میں داخل ہوجائے اور بعض نے آیت { وَمَا يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ } ( سورة يوسف 106) ۔ اور ان میں سے اکثر خدا پر ایمان نہیں رکھتے مگر ( اس کے ساتھ ) شرک کرتے ہیں (12 ۔ 102) کو بھی اسی معنی پر محمول کیا ہے ۔ أذي الأذى: ما يصل إلى الحیوان من الضرر إمّا في نفسه أو جسمه أو تبعاته دنیویاً کان أو أخرویاً ، قال تعالی: لا تُبْطِلُوا صَدَقاتِكُمْ بِالْمَنِّ وَالْأَذى [ البقرة/ 264] ، قوله تعالی: فَآذُوهُما [ النساء/ 16] إشارة إلى الضرب، ونحو ذلک في سورة التوبة : وَمِنْهُمُ الَّذِينَ يُؤْذُونَ النَّبِيَّ وَيَقُولُونَ : هُوَ أُذُنٌ [ التوبة/ 61] ، وَالَّذِينَ يُؤْذُونَ رَسُولَ اللَّهِ لَهُمْ عَذابٌ أَلِيمٌ [ التوبة/ 61] ، ولا تَكُونُوا كَالَّذِينَ آذَوْا مُوسی [ الأحزاب/ 69] ، وَأُوذُوا حَتَّى أَتاهُمْ نَصْرُنا [ الأنعام/ 34] ، وقال : لِمَ تُؤْذُونَنِي [ الصف/ 5] ، وقوله : يَسْئَلُونَكَ عَنِ الْمَحِيضِ قُلْ : هُوَ أَذىً [ البقرة/ 222] ( ا ذ ی ) الاذیٰ ۔ ہرا س ضرر کو کہتے ہیں جو کسی جاندار کو پہنچتا ہے وہ ضرر جسمانی ہو یا نفسانی یا اس کے متعلقات سے ہو اور پھر وہ ضرر دینوی ہو یا اخروی چناچہ قرآن میں ہے : ۔ { لَا تُبْطِلُوا صَدَقَاتِكُمْ بِالْمَنِّ وَالْأَذَى } ( سورة البقرة 264) اپنے صدقات ( و خیرات ) کو احسان جتا کر اور ایذا دے کر برباد نہ کرو ۔ اور آیت کریمہ ۔ { فَآذُوهُمَا } ( سورة النساء 16) میں مار پٹائی ( سزا ) کی طرف اشارہ ہے اسی طرح سورة تو بہ میں فرمایا ۔ { وَمِنْهُمُ الَّذِينَ يُؤْذُونَ النَّبِيَّ وَيَقُولُونَ هُوَ أُذُنٌ } ( سورة التوبة 61) اور ان میں بعض ایسے ہیں جو خدا کے پیغمبر کو ایذا دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ شخص نرا کان ہے ۔ { وَالَّذِينَ يُؤْذُونَ رَسُولَ اللهِ لَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ } ( سورة التوبة 61) اور جو لوگ رسول خدا کو رنج پہنچاتے ہیں ان کے لئے عذاب الیم ( تیار ) ہے ۔ { لَا تَكُونُوا كَالَّذِينَ آذَوْا مُوسَى } ( سورة الأحزاب 69) تم ان لوگوں جیسے نہ ہونا جنہوں نے موسیٰ کو تکلیف دی ( عیب لگا کر ) رنج پہنچایا ۔ { وَأُوذُوا حَتَّى أَتَاهُمْ نَصْرُنَا } ( سورة الأَنعام 34) اور ایذا ( پر صبر کرتے رہے ) یہاں تک کہ ان کے پاس ہماری مدد پہنچتی رہی ۔ { لِمَ تُؤْذُونَنِي } ( سورة الصف 5) تم مجھے کیوں ایذا دیتے ہو۔ اور آیت کریمہ : ۔ { وَيَسْأَلُونَكَ عَنِ الْمَحِيضِ } ( سورة البقرة 222) میں حیض ( کے دنوں میں عورت سے جماع کرنے ) کو اذی کہنا یا تو از روئے شریعت ہے یا پھر بلحاظ علم طب کے جیسا کہ اس فن کے ماہرین بیان کرتے ہیں ۔ اذیتہ ( افعال ) ایذاء و اذیۃ و اذی کسی کو تکلیف دینا ۔ الاذی ۔ موج بحر جو بحری مسافروں کیلئے تکلیف دہ ہو ۔ موسی مُوسَى من جعله عربيّا فمنقول عن مُوسَى الحدید، يقال : أَوْسَيْتُ رأسه : حلقته . برأ أصل البُرْءِ والبَرَاءِ والتَبَرِّي : التقصّي مما يكره مجاورته، ولذلک قيل : بَرَأْتُ من المرض وبَرِئْتُ من فلان وتَبَرَّأْتُ وأَبْرَأْتُهُ من کذا، وبَرَّأْتُهُ ، ورجل بَرِيءٌ ، وقوم بُرَآء وبَرِيئُون . قال عزّ وجلّ : بَراءَةٌ مِنَ اللَّهِ وَرَسُولِهِ [ التوبة/ 1] ، ( ب ر ء ) البرء والبراء والتبری کے اصل معنی کسی مکردہ امر سے نجات حاصل کرتا کے ہیں ۔ اس لئے کہا جاتا ہے ۔ برءت من المریض میں تندرست ہوا ۔ برءت من فلان وتبرءت میں فلاں سے بیزار ہوں ۔ ابررتہ من کذا وبرء تہ میں نے اس کو تہمت یا مرض سے بری کردیا ۔ رجل بریء پاک اور بےگناہ آدمی ج برآء بریئوں قرآن میں ہے ؛۔ { بَرَاءَةٌ مِنَ اللهِ وَرَسُولِهِ } ( سورة التوبة 1) اور اس کے رسول کی طرف سے بیزاری کا اعلان ہے ۔ عند عند : لفظ موضوع للقرب، فتارة يستعمل في المکان، وتارة في الاعتقاد، نحو أن يقال : عِنْدِي كذا، وتارة في الزّلفی والمنزلة، وعلی ذلک قوله : بَلْ أَحْياءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ آل عمران/ 169] ، ( عند ) ظرف عند یہ کسی چیز کا قرب ظاہر کرنے کے لئے وضع کیا گیا ہے کبھی تو مکان کا قرب ظاہر کرنے کے لئے آتا ہے اور کبھی اعتقاد کے معنی ظاہر کرتا ہے جیسے عندی کذا اور کبھی کسی شخص کی قرب ومنزلت کے متعلق استعمال ہوتا ہے جیسے فرمایا : بَلْ أَحْياءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ آل عمران/ 169] بلکہ خدا کے نزدیک زندہ ہے ۔ وَجِيهاً وفلان وجِيهٌ: ذو جاه . قال تعالی: وَجِيهاً فِي الدُّنْيا وَالْآخِرَةِ [ آل عمران/ 45] وأحمق ما يتوجّه به : كناية عن الجهل بالتّفرّط، وأحمق ما يتوجّه بفتح الیاء وحذف به عنه، أي : لا يستقیم في أمر من الأمور لحمقه، والتّوجيه في الشّعر : الحرف الذي بين ألف التأسيس وحرف الرّويّ فلان وجہ القوم کے معنی رئیس قوم کے ہیں جیسا کہ قوم کے رئیس اور سردارکو را وجیہ اوذوجاہ فلاں صاحب وجاہت ہے قرآن میں ہے ۔ وَجِيهاً فِي الدُّنْيا وَالْآخِرَةِ [ آل عمران/ 45] اور جو دینا اور آخرت میں با آبر و ہوگا ۔ ایک محاورہ ہے ۔ احمق مایتوجہ بہ یعنی وہ انتہائی درجہ کا احمق ہے اور کبھی بہ کو حذف کرکے بھی بولتے ہیں ۔ اور مطلب یہ ہے کہ حماقت کی وجہ سے وہ کوئی کام بھی صحیح طور پر نہیں کرسکتا ۔ التوجیہ علم عروض میں اس حرف کو کہتے ہیں جو ایف تاسیس اور حرف روی کے درمیان ہو ۔
Top