Ruh-ul-Quran - Al-Ahzaab : 69
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَكُوْنُوْا كَالَّذِیْنَ اٰذَوْا مُوْسٰى فَبَرَّاَهُ اللّٰهُ مِمَّا قَالُوْا١ؕ وَ كَانَ عِنْدَ اللّٰهِ وَجِیْهًاؕ
يٰٓاَيُّهَا : اے الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا : ایمان والو لَا تَكُوْنُوْا : تم نہ ہونا كَالَّذِيْنَ : ان لوگوں کی طرح اٰذَوْا : انہوں نے ستایا مُوْسٰى : موسیٰ فَبَرَّاَهُ : تو بری کردیا اس کو اللّٰهُ : اللہ مِمَّا : اس سے جو قَالُوْا ۭ : انہوں نے کہا وَكَانَ : اور وہ تھے عِنْدَ اللّٰهِ : اللہ کے نزدیک وَجِيْهًا : باآبرو
اے ایمان والو ! ان لوگوں کی طرح نہ بن جائو جنھوں نے موسیٰ کو ایذا پہنچائی، تو اللہ نے انھیں ان باتوں سے بری کردیا جو وہ لوگ کہتے تھے اور وہ اللہ کے نزدیک باوقار تھا
یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لاَ تَـکُوْنُوْا کَالَّذِیْنَ اٰذَوْا مُوْسٰی فَبَرَّاَہُ اللّٰہُ مِمَّا قَالُوْا ط وَکَانَ عِنْدَاللّٰہِ وَجِیْھًا۔ (الاحزاب : 69) (اے ایمان والو ! ان لوگوں کی طرح نہ بن جاؤ جنھوں نے موسیٰ کو ایذا پہنچائی، تو اللہ نے انھیں ان باتوں سے بری کردیا جو وہ لوگ کہتے تھے اور وہ اللہ کے نزدیک باوقار تھا۔ ) مسلمانوں کی تین قسمیں مسلمان کہلانے والوں میں تین طرح کے لوگ شامل تھے۔ 1 نہایت مخلص مسلمان، 2 ضعیف الایمان لوگ 3 منافقین۔ یٰٓـاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْاسے ہر طرح کے مسلمانوں کو خطاب کیا جاتا ہے۔ البتہ سیاق وسباق سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ یہاں مسلمانوں کی کون سی قسم مراد ہے۔ ممکن ہے کسی کے ذہن میں یہ خیال آئے کہ ان تینوں قسم کے مسلمانوں کے لیے الگ الگ الفاظ استعمال کیوں نہیں کیے گئے جس سے آسانی سے اندازہ ہوجاتا کہ یہاں فلاں قسم کے مسلمان مراد ہیں۔ لیکن جو شخص بھی تدبر کرے گا اسے یہ بات معلوم ہوجائے گی کہ تربیت کے نقطہ نگاہ سے کمزوریوں کی طرف اشارے کرنا تو مفید ہوتا ہے لیکن کمزوریوں کو نمایاں کرنا یا کمزوریوں کے حامل لوگوں کو متعارف کرانا ہمیشہ نقصان کا باعث ہوتا ہے۔ ایک ہی جیسے الفاظ سے سب کو خطاب سے یہ فائدہ ہوتا ہے کہ مخلص مسلمان دوسروں کی کمزوریوں پر توجہ دینے لگتے ہیں۔ اور ضعیف الایمان لوگوں کو اپنی کمزوری کو دور کرنے کی فکر لاحق ہوجاتی ہے۔ اور منافقین یہ جان کر محتاط ہوجاتے ہیں کہ ہم سے چشم پوشی کی جارہی ہے لیکن معاملہ کسی وقت بھی دگرگوں ہوسکتا ہے۔ پیشِ نظر آیت کریمہ میں معلوم ہوتا ہے کہ ان لوگوں کو توجہ دلانا مقصود ہے کہ جن کے اندر نفاق کے جراثیم تو نہیں لیکن ابھی تک ایمان میں وہ پختگی نہیں آئی جس سے نفاق اور کفر مایوس ہوجاتا ہے۔ اور ابھی تک وہ منافقین کی باتیں توجہ سے سنتے ہیں اور بعض دفعہ ان کا اثر بھی قبول کرتے ہیں۔ چناچہ ان سے ارشاد فرمایا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے دین میں جس طرح اللہ تعالیٰ سے ایسی وابستگی ضروری ہے جو شرک کی ہر آلائش سے پاک ہو۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ کے رسول سے ایسی محبت اور عقیدت لازم ہے جس پر بدگمانیوں کا سایہ نہ پڑ سکے۔ کیونکہ قافلہ حق کے آگے بڑھنے کے لیے یہ بات ازبس ضروری ہے کہ اللہ تعالیٰ کا رسول ان کے لیے اسوہ بھی ہو اور اس کی حیثیت قلب و دماغ کی ہر پرواز سے بلند بھی ہو، ورنہ اس کی مرجعیت اور محبت و عقیدت کو ہمیشہ نقصان پہنچنے کا اندیشہ رہتا ہے۔ چناچہ ہر دور کے منافقین اور دشمنانِ دین نے ہمیشہ اللہ تعالیٰ کے رسول کے معاملے میں ایمان لانے والوں کی یکسوئی کو پراگندہ کرنے کی کوششیں کی ہیں۔ یہود نے ایسی ہی حرکتوں سے ہمیشہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو پریشان کرنے کی کوشش کی۔ اور جو لوگ تعلیم و تربیت کے لیے آپ کے زیادہ قریب ہوتے تھے انھیں یکسو ہونے سے روکنے کے لیے عجیب و غریب بدگمانیوں اور اتہامات سے کام لیا جاتا تھا۔ حالانکہ وہ اس بات کو تسلیم کرتے تھے کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی تشریف آوری بنی اسرائیل کی قسمت بدلنے کا باعث ہوئی ہے اور یہ بھی آپ کے احسانات کی برکت تھی کہ وہ ایک نئی قومی زندگی سے آشنا ہوئے۔ ورنہ ان کا انجام بھی مصر میں وہی ہوتا جو ہندوستان میں شودروں کا انجام ہوا۔ باایں ہمہ ان کے اندر ہمیشہ مفسدوں کا ایک گروہ موجود رہا جس نے ہمیشہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور ان پر ایمان لانے والوں کے لیے مسائل پیدا کیے۔ مسلمانوں کو ان کی مثال دے کر یہ سمجھایا گیا ہے کہ تمہیں بنی اسرائیل سے کہیں زیادہ ذمہ داریوں سے گراں بار کیا گیا ہے۔ تمہارے اندر ابھی تک منافقین کا ایک گروہ موجود ہے جو وقتاً فوقتاً کمزور مسلمانوں کو پریشان کرنے کے لیے مختلف قسم کی باتیں اڑاتا رہتا ہے۔ تمہیں بہرصورت بنی اسرائیل کے طرز عمل سے بچنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ اور آنحضرت ﷺ کے معاملے میں اس طرزعمل کو کبھی قریب نہ آنے دینا چاہیے جس نے بنی اسرائیل کو اجتماعی طور پر نقصان پہنچایا۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو پہنچائی جانے والی بعض اذیتوں کا تذکرہ بنی اسرائیل نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) جو اذیتیں پہنچائی ہیں، قرآن کریم نے ایک سے زیادہ دفعہ ان کا ذکر فرمایا ہے۔ اور تورات نے بعض ایسے واقعات کا ذکر بھی کیا ہے جس سے بنی اسرائیل کے اس مجموعی طرزعمل کا اندازہ ہوتا ہے جو وہ مختلف وقتوں میں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے ساتھ اختیار کرتے رہے۔ کسی بھی غلام قوم کو غلامی کی زنجیریں توڑنے کے لیے جس قدر محنت کرنا پڑتی اور قربانیاں دینا پڑتی ہیں تاریخ کے مختلف ادوار اس پر شاہد ہیں۔ بالخصوص ایسی قوم جو آزادی کی خواہش اور اولولعزمی کی امنگ سے محروم ہوچکی ہو اس میں ازسرنو آزادی کی خوبو پیدا کرنا صوراسرافیل پھونکنے سے کم نہیں ہوتا۔ اور جو لوگ اقتدار پہ قابض ہوتے ہیں وہ کبھی کسی ایسے رہنما کو پنپنے نہیں دیتے جس کے اندر انھیں ایک آزادی پسند رہنما کی جھلک دکھائی دیتی ہے۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے جب انھیں قومی شعور سے بہرہ ور کرنے کی کوشش کی اور دشمن نے اسے سونگھتے ہوئے ان راستوں پر پہرہ بٹھایا جو راستے عرفانِ ذات اور حفظ خودی کی طرف لے جاتے ہیں تو بنی اسرائیل نے بجائے کسی جذبے کے اظہار کے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو کوسنا شروع کردیا کہ اس شخص کی بدولت ہم اس کی پیدائش سے پہلے بھی مصیبتوں میں مبتلا رہے اور اس کی پیدائش کے بعد بھی ہدف مصائب بنے ہوئے ہیں۔ اسی طرح حضرت موسیٰ (علیہ السلام) جب اپنی قوم کو ملک مصر سے لے کر نکلے اور مصریوں نے ان کا تعاقب کیا تو قوم نے بڑبڑانا شروع کردیا کہ دیکھو اس شخص نے کہاں لا کر ہمیں مروانے کا سامان کیا ہے۔ حتیٰ کہ بحرقلزم کے کنارے پہنچ کر جب سامنے سمندر کی اٹھتی ہوئی موجیں دکھائی دیں اور خبر ملی کہ فرعون کی فوجیں چڑھی چلی آرہی ہیں تو بجائے اس کے کہ وہ اللہ تعالیٰ پر اعتماد اور قومی توانائی کا ثبوت دیتے ہوئے حضرت موسیٰ علیہ اسلام کا ساتھ دیتے، انھوں نے چیخنا شروع کردیا کہ ہم تو پکڑ لیے گئے۔ اور حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو الزام دیا کہ تم ہمیں چوہوں کی طرح مروانے کے لیے یہاں لے آئے ہو۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) صحرائے سینا میں کوہ طور پر تورات لینے کے لیے گئے، تو ان کے سرداروں نے کہنا شروع کردیا کہ یہ شخص ہمیں چھوڑ کر نہ جانے کہاں چلا گیا ہے، وہ اب آنے والا نہیں۔ چناچہ انھوں نے سامری سے ایک بچھڑا بنوایا اور اس کی پرستش شروع کردی۔ قارون نے باقاعدہ آپ کے خلاف محاذ قائم کرلیا۔ ایک پیشہ ور فاحشہ کو آپ پر الزام لگانے کے لیے خریدا اور اجتماعِ عام میں لے آیا۔ اور ایک ہنگامہ کھڑا کرنے کی کوشش کی جس کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ نے اسے سزا دی اور زندہ حالت میں زمین میں دھنسا دیا۔ مختصر یہ کہ بنی اسرائیل نے ہر ایسے موقع پر جہاں ان سے کسی قربانی کا مطالبہ کیا گیا ہمیشہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو مطعون کیا۔ چاہے وہ غذائی قلت کا معاملہ ہو یا پانی کی کمیابی کا، کسی شہر پر حملہ کرنے کا حکم ہو یا راہ حق میں سرفروشی کا، انھوں نے ہر موقع پر نہایت کمزوری دکھائی اور حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو اپنی کمزوریوں کا ذمہ دار ٹھہرایا۔ چناچہ مسلمانوں کو اس قوم کی تاریخ سے سبق سیکھنے کا حکم دیا جارہا ہے کیونکہ اس وقت بنی اسرائیل ہی ایک ایسی قوم تھے جو صدیوں تک حامل دعوت امت کی حیثیت سے نشیب و فراز کے مختلف مراحل سے گزرتی ر ہی ہے۔ لیکن انھوں نے چونکہ اپنی کمزوریوں پر قابو نہ پایا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ وہ اللہ تعالیٰ کے رسول پر وہ اعتماد پیدا نہ کرسکے جو کسی بھی حامل دعوت امت کو اپنا فرض انجام دینے کے لیے انتہائی ضروری ہے۔ بلاشبہ قربانی و ایثار اور آنحضرت ﷺ سے محبت و عقیدت کے حوالے سے مسلمانوں کی تاریخ نہایت قابل فخر ہے لیکن ان کو جس عظیم ذمہ داری سے گراں بار کیا گیا ہے اس کے پیش نظر کوئی معمولی کوتاہی بھی امت کو ایک بڑے صدمے سے دوچار کرسکتی تھی۔ اس لیے جب کبھی کوئی ایسا واقعہ پیش آیا تو نبی کریم ﷺ نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو یاد فرمایا، اور ان کے حوالے سے امت کو متنبہ کیا کہ یہ کمزوریاں ہمیشہ قوموں کے لیے تباہ کن ثابت ہوتی ہیں۔ چناچہ ایک دفعہ نبی کریم ﷺ مسلمانوں میں کچھ مال تقسیم فرما رہے تھے۔ اس مجلس سے جب لوگ باہر نکلے تو ایک شخص نے کہا محمد ﷺ نے اس تقسیم میں خدا اور آخرت کا کچھ بھی لحاظ نہ رکھا۔ یہ بات حضرت عبداللہ ابن مسعود ( رض) نے سن لی، اور جا کر آنحضرت ﷺ سے عرض کیا کہ آج اس طرح کی باتیں کہی گئی ہیں۔ آپ ﷺ نے جواب میں فرمایا رحمۃ اللّٰہ علی موسیٰ فانہ اوذی باکثرمن ھذا فصبر ” اللہ کی رحمت ہو موسیٰ پر انھیں اس سے زیادہ اذیتیں دی گئیں، انھوں نے صبر کیا۔ “ (مسند، احمد، ترمذی، ابودائو) فَبَرَّاَہُ اللّٰہُ مِمَّا قَالُوْا ط وَکَانَ عِنْدَاللّٰہِ وَجِیْھًا ” پس اللہ نے موسیٰ کو ان باتوں سے بری کردیا جو لوگ ان کے بارے میں کہتے تھے۔ ، وہ اللہ کے نزدیک بڑا با وقار تھا۔ “ یعنی تبلیغ و دعوت اور تعلیم و تربیت کے دوران منافقین اور دشمنانِ دین مسلمانوں کی ذہنی یکسوئی کو ختم کرنے اور اللہ تعالیٰ کے رسول کی مرکزیت کو نقصان پہنچانے کی ہمیشہ کوشش کرتے ہیں۔ اور ایسی ہی کوششیں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے بارے میں بھی ہوتی رہیں لیکن اللہ تعالیٰ کا قانون یہ ہے کہ وہ اپنے پیغمبروں کو ہمیشہ بےگناہ ثابت کرتا ہے اور ہر تہمت کے مقابلے میں ان کی سچائی، نیک نیتی اور راست بازی کو آشکار کردیتا ہے۔ اور دشمن ہمیشہ ان کے مقابلے میں ذلیل اور رسوا ہوتے ہیں۔ چناچہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو بھی اسی طرح ہر الزام سے پاک ثابت کیا۔ اور یا وہ گوئی کرنے والی زبانیں آخرکار بند ہوگئیں۔ اور حضرت موسیٰ (علیہ السلام) جس طرح اللہ تعالیٰ کے نزدیک باوقار اور عزت دار تھے، اسی طرح اپنی قوم میں سرخرو ٹھہرے اور تاریخ انھیں نہایت احترام سے یاد کرتی ہے۔ اسی طرح آنحضرت ﷺ کے بارے میں بھی اگر کچھ بدباطن ایسی ویسی باتیں اڑا کر منزل کھوٹی کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو آخر وہ بھی ناکام ہوں گے اور اللہ تعالیٰ آنحضرت ﷺ کی ذات گرامی اور آپ ﷺ کے پیغامِ حق کو باوقار ٹھہرائے گا اور سرفراز فرمائے گا۔ چناچہ اب صدیوں سے تاریخ اس حقیقت کی گواہی دے رہی ہے۔
Top