Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Ruh-ul-Quran - Al-Ahzaab : 69
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَكُوْنُوْا كَالَّذِیْنَ اٰذَوْا مُوْسٰى فَبَرَّاَهُ اللّٰهُ مِمَّا قَالُوْا١ؕ وَ كَانَ عِنْدَ اللّٰهِ وَجِیْهًاؕ
يٰٓاَيُّهَا
: اے
الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا
: ایمان والو
لَا تَكُوْنُوْا
: تم نہ ہونا
كَالَّذِيْنَ
: ان لوگوں کی طرح
اٰذَوْا
: انہوں نے ستایا
مُوْسٰى
: موسیٰ
فَبَرَّاَهُ
: تو بری کردیا اس کو
اللّٰهُ
: اللہ
مِمَّا
: اس سے جو
قَالُوْا ۭ
: انہوں نے کہا
وَكَانَ
: اور وہ تھے
عِنْدَ اللّٰهِ
: اللہ کے نزدیک
وَجِيْهًا
: باآبرو
اے ایمان والو ! ان لوگوں کی طرح نہ بن جائو جنھوں نے موسیٰ کو ایذا پہنچائی، تو اللہ نے انھیں ان باتوں سے بری کردیا جو وہ لوگ کہتے تھے اور وہ اللہ کے نزدیک باوقار تھا
یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لاَ تَـکُوْنُوْا کَالَّذِیْنَ اٰذَوْا مُوْسٰی فَبَرَّاَہُ اللّٰہُ مِمَّا قَالُوْا ط وَکَانَ عِنْدَاللّٰہِ وَجِیْھًا۔ (الاحزاب : 69) (اے ایمان والو ! ان لوگوں کی طرح نہ بن جاؤ جنھوں نے موسیٰ کو ایذا پہنچائی، تو اللہ نے انھیں ان باتوں سے بری کردیا جو وہ لوگ کہتے تھے اور وہ اللہ کے نزدیک باوقار تھا۔ ) مسلمانوں کی تین قسمیں مسلمان کہلانے والوں میں تین طرح کے لوگ شامل تھے۔ 1 نہایت مخلص مسلمان، 2 ضعیف الایمان لوگ 3 منافقین۔ یٰٓـاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْاسے ہر طرح کے مسلمانوں کو خطاب کیا جاتا ہے۔ البتہ سیاق وسباق سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ یہاں مسلمانوں کی کون سی قسم مراد ہے۔ ممکن ہے کسی کے ذہن میں یہ خیال آئے کہ ان تینوں قسم کے مسلمانوں کے لیے الگ الگ الفاظ استعمال کیوں نہیں کیے گئے جس سے آسانی سے اندازہ ہوجاتا کہ یہاں فلاں قسم کے مسلمان مراد ہیں۔ لیکن جو شخص بھی تدبر کرے گا اسے یہ بات معلوم ہوجائے گی کہ تربیت کے نقطہ نگاہ سے کمزوریوں کی طرف اشارے کرنا تو مفید ہوتا ہے لیکن کمزوریوں کو نمایاں کرنا یا کمزوریوں کے حامل لوگوں کو متعارف کرانا ہمیشہ نقصان کا باعث ہوتا ہے۔ ایک ہی جیسے الفاظ سے سب کو خطاب سے یہ فائدہ ہوتا ہے کہ مخلص مسلمان دوسروں کی کمزوریوں پر توجہ دینے لگتے ہیں۔ اور ضعیف الایمان لوگوں کو اپنی کمزوری کو دور کرنے کی فکر لاحق ہوجاتی ہے۔ اور منافقین یہ جان کر محتاط ہوجاتے ہیں کہ ہم سے چشم پوشی کی جارہی ہے لیکن معاملہ کسی وقت بھی دگرگوں ہوسکتا ہے۔ پیشِ نظر آیت کریمہ میں معلوم ہوتا ہے کہ ان لوگوں کو توجہ دلانا مقصود ہے کہ جن کے اندر نفاق کے جراثیم تو نہیں لیکن ابھی تک ایمان میں وہ پختگی نہیں آئی جس سے نفاق اور کفر مایوس ہوجاتا ہے۔ اور ابھی تک وہ منافقین کی باتیں توجہ سے سنتے ہیں اور بعض دفعہ ان کا اثر بھی قبول کرتے ہیں۔ چناچہ ان سے ارشاد فرمایا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے دین میں جس طرح اللہ تعالیٰ سے ایسی وابستگی ضروری ہے جو شرک کی ہر آلائش سے پاک ہو۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ کے رسول سے ایسی محبت اور عقیدت لازم ہے جس پر بدگمانیوں کا سایہ نہ پڑ سکے۔ کیونکہ قافلہ حق کے آگے بڑھنے کے لیے یہ بات ازبس ضروری ہے کہ اللہ تعالیٰ کا رسول ان کے لیے اسوہ بھی ہو اور اس کی حیثیت قلب و دماغ کی ہر پرواز سے بلند بھی ہو، ورنہ اس کی مرجعیت اور محبت و عقیدت کو ہمیشہ نقصان پہنچنے کا اندیشہ رہتا ہے۔ چناچہ ہر دور کے منافقین اور دشمنانِ دین نے ہمیشہ اللہ تعالیٰ کے رسول کے معاملے میں ایمان لانے والوں کی یکسوئی کو پراگندہ کرنے کی کوششیں کی ہیں۔ یہود نے ایسی ہی حرکتوں سے ہمیشہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو پریشان کرنے کی کوشش کی۔ اور جو لوگ تعلیم و تربیت کے لیے آپ کے زیادہ قریب ہوتے تھے انھیں یکسو ہونے سے روکنے کے لیے عجیب و غریب بدگمانیوں اور اتہامات سے کام لیا جاتا تھا۔ حالانکہ وہ اس بات کو تسلیم کرتے تھے کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی تشریف آوری بنی اسرائیل کی قسمت بدلنے کا باعث ہوئی ہے اور یہ بھی آپ کے احسانات کی برکت تھی کہ وہ ایک نئی قومی زندگی سے آشنا ہوئے۔ ورنہ ان کا انجام بھی مصر میں وہی ہوتا جو ہندوستان میں شودروں کا انجام ہوا۔ باایں ہمہ ان کے اندر ہمیشہ مفسدوں کا ایک گروہ موجود رہا جس نے ہمیشہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور ان پر ایمان لانے والوں کے لیے مسائل پیدا کیے۔ مسلمانوں کو ان کی مثال دے کر یہ سمجھایا گیا ہے کہ تمہیں بنی اسرائیل سے کہیں زیادہ ذمہ داریوں سے گراں بار کیا گیا ہے۔ تمہارے اندر ابھی تک منافقین کا ایک گروہ موجود ہے جو وقتاً فوقتاً کمزور مسلمانوں کو پریشان کرنے کے لیے مختلف قسم کی باتیں اڑاتا رہتا ہے۔ تمہیں بہرصورت بنی اسرائیل کے طرز عمل سے بچنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ اور آنحضرت ﷺ کے معاملے میں اس طرزعمل کو کبھی قریب نہ آنے دینا چاہیے جس نے بنی اسرائیل کو اجتماعی طور پر نقصان پہنچایا۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو پہنچائی جانے والی بعض اذیتوں کا تذکرہ بنی اسرائیل نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) جو اذیتیں پہنچائی ہیں، قرآن کریم نے ایک سے زیادہ دفعہ ان کا ذکر فرمایا ہے۔ اور تورات نے بعض ایسے واقعات کا ذکر بھی کیا ہے جس سے بنی اسرائیل کے اس مجموعی طرزعمل کا اندازہ ہوتا ہے جو وہ مختلف وقتوں میں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے ساتھ اختیار کرتے رہے۔ کسی بھی غلام قوم کو غلامی کی زنجیریں توڑنے کے لیے جس قدر محنت کرنا پڑتی اور قربانیاں دینا پڑتی ہیں تاریخ کے مختلف ادوار اس پر شاہد ہیں۔ بالخصوص ایسی قوم جو آزادی کی خواہش اور اولولعزمی کی امنگ سے محروم ہوچکی ہو اس میں ازسرنو آزادی کی خوبو پیدا کرنا صوراسرافیل پھونکنے سے کم نہیں ہوتا۔ اور جو لوگ اقتدار پہ قابض ہوتے ہیں وہ کبھی کسی ایسے رہنما کو پنپنے نہیں دیتے جس کے اندر انھیں ایک آزادی پسند رہنما کی جھلک دکھائی دیتی ہے۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے جب انھیں قومی شعور سے بہرہ ور کرنے کی کوشش کی اور دشمن نے اسے سونگھتے ہوئے ان راستوں پر پہرہ بٹھایا جو راستے عرفانِ ذات اور حفظ خودی کی طرف لے جاتے ہیں تو بنی اسرائیل نے بجائے کسی جذبے کے اظہار کے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو کوسنا شروع کردیا کہ اس شخص کی بدولت ہم اس کی پیدائش سے پہلے بھی مصیبتوں میں مبتلا رہے اور اس کی پیدائش کے بعد بھی ہدف مصائب بنے ہوئے ہیں۔ اسی طرح حضرت موسیٰ (علیہ السلام) جب اپنی قوم کو ملک مصر سے لے کر نکلے اور مصریوں نے ان کا تعاقب کیا تو قوم نے بڑبڑانا شروع کردیا کہ دیکھو اس شخص نے کہاں لا کر ہمیں مروانے کا سامان کیا ہے۔ حتیٰ کہ بحرقلزم کے کنارے پہنچ کر جب سامنے سمندر کی اٹھتی ہوئی موجیں دکھائی دیں اور خبر ملی کہ فرعون کی فوجیں چڑھی چلی آرہی ہیں تو بجائے اس کے کہ وہ اللہ تعالیٰ پر اعتماد اور قومی توانائی کا ثبوت دیتے ہوئے حضرت موسیٰ علیہ اسلام کا ساتھ دیتے، انھوں نے چیخنا شروع کردیا کہ ہم تو پکڑ لیے گئے۔ اور حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو الزام دیا کہ تم ہمیں چوہوں کی طرح مروانے کے لیے یہاں لے آئے ہو۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) صحرائے سینا میں کوہ طور پر تورات لینے کے لیے گئے، تو ان کے سرداروں نے کہنا شروع کردیا کہ یہ شخص ہمیں چھوڑ کر نہ جانے کہاں چلا گیا ہے، وہ اب آنے والا نہیں۔ چناچہ انھوں نے سامری سے ایک بچھڑا بنوایا اور اس کی پرستش شروع کردی۔ قارون نے باقاعدہ آپ کے خلاف محاذ قائم کرلیا۔ ایک پیشہ ور فاحشہ کو آپ پر الزام لگانے کے لیے خریدا اور اجتماعِ عام میں لے آیا۔ اور ایک ہنگامہ کھڑا کرنے کی کوشش کی جس کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ نے اسے سزا دی اور زندہ حالت میں زمین میں دھنسا دیا۔ مختصر یہ کہ بنی اسرائیل نے ہر ایسے موقع پر جہاں ان سے کسی قربانی کا مطالبہ کیا گیا ہمیشہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو مطعون کیا۔ چاہے وہ غذائی قلت کا معاملہ ہو یا پانی کی کمیابی کا، کسی شہر پر حملہ کرنے کا حکم ہو یا راہ حق میں سرفروشی کا، انھوں نے ہر موقع پر نہایت کمزوری دکھائی اور حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو اپنی کمزوریوں کا ذمہ دار ٹھہرایا۔ چناچہ مسلمانوں کو اس قوم کی تاریخ سے سبق سیکھنے کا حکم دیا جارہا ہے کیونکہ اس وقت بنی اسرائیل ہی ایک ایسی قوم تھے جو صدیوں تک حامل دعوت امت کی حیثیت سے نشیب و فراز کے مختلف مراحل سے گزرتی ر ہی ہے۔ لیکن انھوں نے چونکہ اپنی کمزوریوں پر قابو نہ پایا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ وہ اللہ تعالیٰ کے رسول پر وہ اعتماد پیدا نہ کرسکے جو کسی بھی حامل دعوت امت کو اپنا فرض انجام دینے کے لیے انتہائی ضروری ہے۔ بلاشبہ قربانی و ایثار اور آنحضرت ﷺ سے محبت و عقیدت کے حوالے سے مسلمانوں کی تاریخ نہایت قابل فخر ہے لیکن ان کو جس عظیم ذمہ داری سے گراں بار کیا گیا ہے اس کے پیش نظر کوئی معمولی کوتاہی بھی امت کو ایک بڑے صدمے سے دوچار کرسکتی تھی۔ اس لیے جب کبھی کوئی ایسا واقعہ پیش آیا تو نبی کریم ﷺ نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو یاد فرمایا، اور ان کے حوالے سے امت کو متنبہ کیا کہ یہ کمزوریاں ہمیشہ قوموں کے لیے تباہ کن ثابت ہوتی ہیں۔ چناچہ ایک دفعہ نبی کریم ﷺ مسلمانوں میں کچھ مال تقسیم فرما رہے تھے۔ اس مجلس سے جب لوگ باہر نکلے تو ایک شخص نے کہا محمد ﷺ نے اس تقسیم میں خدا اور آخرت کا کچھ بھی لحاظ نہ رکھا۔ یہ بات حضرت عبداللہ ابن مسعود ( رض) نے سن لی، اور جا کر آنحضرت ﷺ سے عرض کیا کہ آج اس طرح کی باتیں کہی گئی ہیں۔ آپ ﷺ نے جواب میں فرمایا رحمۃ اللّٰہ علی موسیٰ فانہ اوذی باکثرمن ھذا فصبر ” اللہ کی رحمت ہو موسیٰ پر انھیں اس سے زیادہ اذیتیں دی گئیں، انھوں نے صبر کیا۔ “ (مسند، احمد، ترمذی، ابودائو) فَبَرَّاَہُ اللّٰہُ مِمَّا قَالُوْا ط وَکَانَ عِنْدَاللّٰہِ وَجِیْھًا ” پس اللہ نے موسیٰ کو ان باتوں سے بری کردیا جو لوگ ان کے بارے میں کہتے تھے۔ ، وہ اللہ کے نزدیک بڑا با وقار تھا۔ “ یعنی تبلیغ و دعوت اور تعلیم و تربیت کے دوران منافقین اور دشمنانِ دین مسلمانوں کی ذہنی یکسوئی کو ختم کرنے اور اللہ تعالیٰ کے رسول کی مرکزیت کو نقصان پہنچانے کی ہمیشہ کوشش کرتے ہیں۔ اور ایسی ہی کوششیں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے بارے میں بھی ہوتی رہیں لیکن اللہ تعالیٰ کا قانون یہ ہے کہ وہ اپنے پیغمبروں کو ہمیشہ بےگناہ ثابت کرتا ہے اور ہر تہمت کے مقابلے میں ان کی سچائی، نیک نیتی اور راست بازی کو آشکار کردیتا ہے۔ اور دشمن ہمیشہ ان کے مقابلے میں ذلیل اور رسوا ہوتے ہیں۔ چناچہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو بھی اسی طرح ہر الزام سے پاک ثابت کیا۔ اور یا وہ گوئی کرنے والی زبانیں آخرکار بند ہوگئیں۔ اور حضرت موسیٰ (علیہ السلام) جس طرح اللہ تعالیٰ کے نزدیک باوقار اور عزت دار تھے، اسی طرح اپنی قوم میں سرخرو ٹھہرے اور تاریخ انھیں نہایت احترام سے یاد کرتی ہے۔ اسی طرح آنحضرت ﷺ کے بارے میں بھی اگر کچھ بدباطن ایسی ویسی باتیں اڑا کر منزل کھوٹی کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو آخر وہ بھی ناکام ہوں گے اور اللہ تعالیٰ آنحضرت ﷺ کی ذات گرامی اور آپ ﷺ کے پیغامِ حق کو باوقار ٹھہرائے گا اور سرفراز فرمائے گا۔ چناچہ اب صدیوں سے تاریخ اس حقیقت کی گواہی دے رہی ہے۔
Top