Tadabbur-e-Quran - Al-Ahzaab : 69
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَكُوْنُوْا كَالَّذِیْنَ اٰذَوْا مُوْسٰى فَبَرَّاَهُ اللّٰهُ مِمَّا قَالُوْا١ؕ وَ كَانَ عِنْدَ اللّٰهِ وَجِیْهًاؕ
يٰٓاَيُّهَا : اے الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا : ایمان والو لَا تَكُوْنُوْا : تم نہ ہونا كَالَّذِيْنَ : ان لوگوں کی طرح اٰذَوْا : انہوں نے ستایا مُوْسٰى : موسیٰ فَبَرَّاَهُ : تو بری کردیا اس کو اللّٰهُ : اللہ مِمَّا : اس سے جو قَالُوْا ۭ : انہوں نے کہا وَكَانَ : اور وہ تھے عِنْدَ اللّٰهِ : اللہ کے نزدیک وَجِيْهًا : باآبرو
اے ایمان والو، ان لوگوں کے مانند نہ بنو جنہوں نے موسیٰ کو ایذاپہنچائی تو اللہ نے اس کو ان لوگوں کی تہمتوں سے بری کیا اور وہ اللہ کے نزدیک باوقار ٹھہرا۔
یایھا الذین امنوا لا تکونا کالذین اذوا موسیٰ فبراہ اللہ مما قالوا وکان عند اللہ وجیھار (69) قیامت کا ذکر بیچ میں تذکیر و تنبیہ کے طور پر آگیا تھا اوپر سے ذکر ان منافقین کا چل رہا تھا جو نبی ﷺ اور مومنین و مومنات کو اپنی ریشہ دوانیوں اور تہمت تراشیوں سے روحانی و قلبی اذیتیں پہنچانے میں سرگرم تھے۔ اس تنبیہ کے بعد اسی مضمون کو ازسر نو لے لیا اور مسلمانوں کو متنبہ فرمایا کہ ان یہودیوں کی روش کی تقلید نہ کرو جنہوں نے قدم قدم پر حضرت موسیٰ ؑ کو اپنی تہمتوں، شکایتوں اور در پردہ سازشوں سے اذیتیں پہنچائیں لیکن اللہ نے ان کو ہر الزام و تہمت سے بری، نہایت عزت و آبرو کے ساتھ، اس دنیا سے اٹھایا یا البتہ وہ لوگ دنیا اور آخرت دونوں میں ذلیل و خوار ہوئے جنہوں نے ان کو ایذا پہنچانے کی کوشش کی۔ یہ خطاب اگرچہ عام ہے لیکن روئے سخن خاص طور پر منافقین کی طرف ہے۔ حضرت موسیٰ ؑ کو بنی اسرائیل نے جو اذیتی پہنچائی ہیں اس کا شکوہ خود حضرت موسیٰ ؑ کی زبانی بھی قرآن مجید میں مذکور ہے۔ واز قال موسیٰ لقومہ یقوم لم توذوننی وقد تعلمون انی رسول اللہ الیکم (الصف۔ 5) اور یاد کرو جب موسیٰ نے اپنی قوم سے کہا، اے میری قوم کے لوگو ! تم مجھے کیوں دھ پہنچاتے ہو درآنحالیکہ تمہیں اچھی طرح علم ہے کہ میں تمہاری طرف اللہ کا رسول ہو کر آیا ہوں۔ تورات کی کتاب تثنیہ باب 9 میں ہے حضرت موسیٰ ؑ نے جب بنی اسرائیل کو فلسطین پر چڑھائی کے لئے ابھارا اور انہوں نے اپنی روایت کے مطابق بزدلی دکھائی تو حضرت موسیٰ ؑ نے ان کو ان الفاظ میں ملامت کی۔ ’ تو (خطاب بنی اسرائیل سے ہے) اس بات کو یاد رکھ اور کبھینہ بھول کہ تو نے خداوند اپنے خدا کو بیابان میں کس کس طرح غصہ دلایا بلکہ جب سے تم ملک مصر سے نکلے ہو تب سے اس جگہ پہنچنے تک تم برابر خداوند سے بغاوت ہی کرتے رہے ہو۔ تورات میں بار بار اس بات کا ذکر آتا ہے کہ بنی اسرائیل کو جب کوئی آزمائش پیش آتی تو وہ اس کا الزام حضرت موسیٰ ؑ پر ڈال کر ان کو ہدفِ ملامت بناتے۔ مثال کے طور پر ہم یہاں بعض واقعات کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔ مصر میں حضرت موسیٰ ؑ کی دعوت کے بعد جب بنی اسرائیل کو آزمائشوں سے سابقہ پیش آیا تو انہوں نے ان سب کو سبب حضرت موسیٰ ؑ کو ٹھہرایا اور کہا کہ اس شخص کی بدولت ہم اس کی پیدائش سے پہلے بھی آفتوں میں مبتلا رہے اور اس کی پیدائش کے بعد بھی ہدفِ مصائب رہے۔ حضرت موسیٰ ؑ جب ان کو ملک ِ مصر سے لے کر نکلے اور مصریوں نے ان کا تعاقب کیا تو ساری قوم نے بڑبڑانا شروع کیا کہ یہ دیکھو، اس شخص نے ہمیں کہاں لا کر ہمارے مروانے کا سامان کیا ہے۔ دریا پار کرنے کے بعد جب حضرت موسیٰ ؑ طور پر تورات لینے گئے تو قوم کے ایک بہت بڑے حصہ نے کہنا شروع کیا کہ یہ شخص تو ہمیں یہاں چھوڑ کر معلوم نہیں کہاں غائب ہوگیا اور اب وہ آنے والا نہیں ہے۔ چناچہ انہوں نے سامری سے ایک بچھڑا بنوایا اور اس کی پرستش شروع کردی۔ قارون نے اپنی ایک پارٹی بنائی اور لوگوں میں یہ فتنہ پھیلایا کہ یہ شخص (حضرت موسیٰ ؑ تنہا سارے دین کے جاننے اور لوگوں کی پیشوائی کا جارہ دار بن بیٹھا ہے حالانکہ خداوند کی نظر میں سب برابر ہیں۔ اس شخص کو ہم پر کوئی امتیاز حاصل نہیں ہے۔ بیابان کی زندگی کے دور میں جب کھانے پینے کی تکلیف ہوئی تو انہوں نے علانیہ حضرت موسیٰ ؑ کو ملامت کی کہ کیا مصر میں ہمارے لئے قبروں کی جگہ نہیں تھی کہ تو نے ہمیں بھوک پیاس سے مرنے کے لئے یہاں بیابان میں لا کر ڈال دیا ہے۔ بیابان میں جب کھانے کے لئے من وسلویٰ اور پانی کے لئے اکٹھے بارہ چشموں کا انتظام ہوگیا تو انہوں نے پھر بڑبڑانا شروع کیا کہ اس من وسلویٰ سے تو ہماری جن سوکھ گئی، ہمیں تو مصر کے کھیرے، ککڑیاں اور لہسن پیاز یاد آتے ہیں۔ حضرت موسیٰ ؑ نے جب ان کو فلسطین پر حملہ کرنے کے لئے ابھارا تو انہوں نے کہا کہہ تم وہاں کے زور آور اور جبار باشدنوں کی تلواروں سے ہمارا قیمہ کرانا چاہتے ہو۔ ہم اس کے لئے تیار نہیں ہیں۔ لڑنا ہے تو تم اور تمہارا خدا دونوں جا کر لڑ ﷺ۔ ہم توی ہیں بیٹھتے ہیں۔ بنی اسرائیل کی اس روش پر حضرت موسیٰ ؑ نے جن درد انگیز الفاظ میں بار بار اپنے رنج و غم کا اظہار فرمایا ہے ان کو تورات میں پڑھیے تو کچھ اندازہ ہوگا کہ انہیں اپنی قوم کے ہاتھوں کیا کیا دکھ جھیلنے پڑے ہیں۔ بنی اسرائیل کی اسی طرح کی ایذارسانیوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے یہاں مسلمانوں کو نصیحت فرمائی ہے کہ تم اپنے رسول کے ساتھ اس طرح کا معاملہ نہ کرو جس طرح کا معاملہ بنی اسرائیل نے حضرت موسیٰ ؑ کے ساتھ کیا ورنہ اسی انجام سے دو چار ہوگے جس انجام سے وہ دو چار ہوئے۔ ’ فتجاہ اللہ مما قالا وکان عند اللہ وجیھا ‘ یعنی اللہ تعالیٰ نے بالآکر حضرت موسیٰ ؑ کو ہر الزام سے بری کیا۔ ہر تہمت کے مقابلے میں ان کی سچائی، نیک نیتی اور راست بازی آشکارا ہوئی اور ان کے دشمن ذلیل و رسوا ہوئے۔ وہ اللہ کے نزدیک باوقار، باآبرو اور سرخ رو ٹھہرے۔ ان کی وجاہت دنیا میں بھی چمکی اور آکرت میں بھی روشن ہوگی۔ یہ آنحضرت ﷺ کے لئے بالواسطہ بشارت ہے۔
Top