Tafseer-e-Baghwi - Al-Maaida : 23
قَالَ رَجُلٰنِ مِنَ الَّذِیْنَ یَخَافُوْنَ اَنْعَمَ اللّٰهُ عَلَیْهِمَا ادْخُلُوْا عَلَیْهِمُ الْبَابَ١ۚ فَاِذَا دَخَلْتُمُوْهُ فَاِنَّكُمْ غٰلِبُوْنَ١ۚ۬ وَ عَلَى اللّٰهِ فَتَوَكَّلُوْۤا اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ
قَالَ : کہا رَجُلٰنِ : دو آدمی مِنَ الَّذِيْنَ : ان لوگوں سے جو يَخَافُوْنَ : ڈرنے والے اَنْعَمَ اللّٰهُ : اللہ نے انعام کیا تھا عَلَيْهِمَا : ان دونوں پر ادْخُلُوْاعَلَيْهِمُ : تم داخل ہو ان پر (حملہ کردو) الْبَابَ : دروازہ فَاِذَا : پس جب دَخَلْتُمُوْهُ : تم داخل ہوگے اس میں فَاِنَّكُمْ : تو تم غٰلِبُوْنَ : غالب اؤ گے وَعَلَي اللّٰهِ : اور اللہ پر فَتَوَكَّلُوْٓا : بھروسہ رکھو اِنْ كُنْتُمْ : اگر تم ہو مُّؤْمِنِيْنَ : ایمان والے
جو لوگ (خدا سے) ڈرتے تھے ان میں سے دو شخص جن پر خدا کی عنایت تھی کہنے لگے کہ ان لوگوں پر دروازے کے راستے سے حملہ کردو۔ جب تم دروازے میں داخل ہوگئے تو فتح تمہاری ہے۔ اور خدا ہی پر بھروسا رکھو بشرطیکہ صاحب ایمان ہو۔
آیت نمبر 26, 25, 24, 23 تفسیر :(قال رجلن من الذین یخافون) (کہا دو مردوں نے اللہ سے ڈرنے والوں میں سے) یعنی اللہ سے ڈرنے والوں نے۔ سعید بن جبیر ؓ نے ” یخافون “ کو یاء کے پیش کے ساتھ پڑھا ہے اور کہا کہ یہ دو آدمی ان جبارین میں سے تھے جو السلام لے آئے اور موسیٰ (علیہ السلام) کے ساتھ چل پڑے۔ (انعم اللہ علیھما) (کہ خدا کی نوازش تھی ان دونوں پر) توفیق اور گناہوں سے بچانے کے ساتھ۔ (ادخلوا علیھم الباب) (گھس جائو ان پر حملہ کرکے دروازہ میں) یعنی جبارین کی بستی میں داخل ہوجائو۔ (فاذا دخلتموہ فانکم غالبون) (پھر جب تم اس میں داخل ہوجائوگے تو تم ہی غالب ہوگے) اس لیے کہ اللہ تعالیٰ اپنے وعدہ کو پورا کرنے والا ہے اور ہم نے ان کو دیکھا ہے کہ ان کے جسم تو بہت بڑے ہیں لیکن دل کمزور ہیں تو ان سے نہ ڈرو۔ ( وعلی اللہ فتوکلوا ان کنتم مومنین ) ( اور اللہ پر بھروسہ کرو اگر تم یقین رکھتے ہو) پھر بنی اسرائیل نے یہ ارادہ کیا کہ ان کو پتھر ماریں۔ (قالوا یموسیٰ انا لن ندخلھا ابداً ماداموا فیھا فاذھب انت وربک فقاتلاً انا ھھنا قعدون) ( بولے اے موسیٰ ! ہم ہرگز نہ جاویں گے ساری عمر جب تک وہ رہیں گے اس میں سو تو جا اور تیر ارب اور تم دونوں لڑو ہم تو یہیں بیٹھے ہیں) ابن مسعود ؓ فرماتے ہیں کہ میں مقداد بن اسود ؓ کے ساتھ ایک واقعہ میں موجود تھا اگر میں ان کا ساتھی ہوتا تو یہ مجھے بہت پسند ہوتا۔ مقداد ؓ حضور ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ (علیہ السلام) مشرکین کے خلاف بددعا کررہے تھے تو مقداد ؓ نے کہا ہم آپ (علیہ السلام) کو وہ جواب نہیں دیں گے جو موسیٰ (علیہ السلام) کو ان کی قوم نے دیا کہ ” تو اور تیرا رب جائو اور لڑو، ہم یہاں بیٹھے ہیں “ لیکن ہم آپ کے دائیں بائیں آگے پیچھے دشمن سے ڈٹ کر مقابلہ کریں گے۔ ابن مسعود ؓ فرماتے ہیں کہ میں نے نبی کریم ﷺ کو دیکھا کہ اس بات سے آپ (علیہ السلام) کا چہرہ انور چمک اٹھا اور بہت خوش ہوئے۔ جب بنی اسرائیل نے اللہ تعالیٰ کے حکم کی مخالفت کی اور یوشع اور کالب کو تکلیف دینے کا ارادہ کیا تو موسیٰ (علیہ السلام) نے ان کے لیے بددعا کی۔ (قال رب انی لااملک الا نفسی واخی) (موسیٰ (علیہ السلام) نے کہا اے میرے رب ! میرے اختیار میں نہیں مگر میری جان اور میرا بھائی؛ بعض نے کہا ہے کہ اس کا معنی ہے کہ میں صرف اپنی ذات کا مالک ہوں اور بعض نے کہا کہ قوم میں میری اطاعت میرے سوا میرا بھائی کررہا ہے۔ (فافرق بیننا) ( سو جدائی کردے تو ہم میں) یعنی ہمارے درمیان فیصلہ کردے۔ (وبین قوم الفاسفین) (اور اس نافرمان قوم میں) گنہگار قوم میں۔ (قال فانھا محرمۃ علیھم) (فرمایا تحقیق وہ زمین حرام کی گئی ہے ان پر) بعض نے کہا ہے کہ یہاں کلام مکمل ہوگئی ہے اور معنی یہ ہے کہ یہ شہر ان پر حرام کردیا گیا ہے ہمیشہ کے لیے ۔ یہاں تحریم تعبدی مراد نہیں ہے بلکہ تحریم منع ہے۔ پس اللہ تعالیٰ نے موسیٰ (علیہ السلام) پر وحی کی کہ میں ان سب پر اس مقدس زمین میں داخلہ حرام کردوں گا۔ سوائے میری بندوں یوشع اور کالب کے اور میں اس جنگل میں ان کو چالیس سال رکھوں گا، ان کی جاسوسی کے چالیس ایام میں سے ہر ایک دن کے بدلہ ایک سال اور میں ان کے مردہ جسموں کو اسی جنگ بیابان میں دال دوں گا ۔ ان کی اولاد نے کیونکہ کوئی برائی نہیں کی تو وہ اس ارض مقدس میں داخل ہوجائیں گے۔ پس یہی مطلب ہے اللہ تعالیٰ کے فرمان (اربعین سنۃ) (تحقیقن وہ زمین حرام کی گئی ہے ان پر چالیس سال)… (یتیھون فی الارض) (سرمارتے پھریں گے) حیران و پریشان پھریں گے۔ (فلا تاس علی القوم الفاسقین) (ملک میں سو تو افسوس نہ کرنا فرمان قوم پر) یعنی ان جیسے لوگوں پر آپ (علیہ السلام) افسوس نہ کریں۔ پس یہ چھے لاکھ جنگجو لوگ صرف چھ فرسخ (تقریباً اٹھارہ میل جگہ) جگہ پر پ چالیس سال رہے اور یہ لوگ ہر روز سفر کرتے تھے اور شا کو اسی جگہ پہنچ جاتے تھے جہاں سے سفر شروع کیا ہوتا تھا اور بعض نے کہا ہے کہ اس وقت موسیٰ و ہارون (علیہما السلام) ان کے ساتھ نہیں تھے اور صحیح بات یہ ہے کہ یہ حضرات بھی ان کے ساتھ تھے لیکن یہ سزا ان حضرات کے لیے نہیں تھی بلکہ قوم کے لیے تھی۔ اسی وادی تیہ میں بیس سال سے زائد کا ہر آدمی مرگیا سوائے حضرت یوشع (علیہ السلام) اور کالب کے اور موسیٰ (علیہ السلام) کو انکار کرنے والوں میں سے کوئی شخص بھی اریحاء مقام میں داخل نہ ہوسکا۔ پھر جب سب منکرین ہلاک ہوگئے اور چالیس سال گزر گئے اور ان کی نئی نسل جوان ہوگئی تو یہ لوگ جبارین سے لڑائی کے لیے چل پڑے۔ علماء کا اس میں اختلاف ہے کہ اس لڑائی کا امیر و کمانڈر کون تھا اور کس کے ہاتھ پر اللہ تعالیٰ نے فتح دی تو ایک قوم نے یہ کہ ہے کہ موسیٰ (علیہ السلام) نے اریحاء کو فتح کیا اور مقدمۃ الجیش کے کمانڈر حضرت یوشع (علیہ السلام) تھے تو موسیٰ (علیہ السلام) بنی اسرائیل کے باقی ماندہ افراد کو لے کر چلے۔ پہلے حضرت یوشع (علیہ السلام) داخل ہوئے اور جبابرۃ سے لڑائی کی۔ پھر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) داخل ہوئے اور کچھ عرصہ قیام فرمایا۔ پھر اللہ تعالیٰ نے ان کی روح قبض کرلی اور موسیٰ (علیہ السلام) کی قبر کسی کو معلوم نہیں ہے۔ یہ سب سے صحیح قول ہے اس لیے کہ علماء اس بات پر متفق ہیں کہ عوج بن عنق کو موسیٰ (علیہ السلام) نے قتل کیا تھا اور دیگر حضرات نے کہا کہ جبارین سے جنگ حضرت یوشع (علیہ السلام) نے کی اور یوشع (علیہ السلام) اس جنگ کے لیے لشکر موسیٰ (علیہ السلام) کی وفات کے بعد لے گئے تھے اور ان حضرات نے یہ بھی کہا کہ موسیٰ و ہارون (علیہما السلام) وادی تیہ میں انتقال کرگئے تھے۔ ہارون (علیہ السلام) کی وفات کا تذکرہ سدی (رح) کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے موسیٰ (علیہ السلام) کو وحی کی کہ میں ہارون (علیہ السلام) کو موت دینا چاہتا ہوں، آپ (علیہ السلام) ان کو فلاں پہاڑ پر لے جائیں تو موسیٰ اور ہارون (علیہما السلام) اس پہاڑ پر تشریف لے گئے وہاں انہوں نے ایک ایسا خوبصورت درخت دیکھا اس جیسا پہلے کبھی نہیں دیکھا اور وہاں ایک خوبصورت گھر بنا ہوا تھا اس میں ایک تخت تھا جس پر بستر بچھا ہوا تھا اور بڑی عمدہ خوشبو آرہی تھی۔ جب ہارون (علیہ السلام) کی اس پر نگاہ پڑی تو وہ سارا منظر ان کو اچھا لگا۔ انہوں نے موسیٰ (علیہ السلام) کو کہا میرا دل چاہتا ہے کہ اس سخت پر سو جائوں ؟ آپ (علیہ السلام) نے فرمایا سو جائو تو ہارون (علیہ السلام) کہنے لگے مجھے خوف ہے کہ اس گھر کا مالک آگیا تو بہت ناراض ہوگا ۔ موسیٰ (علیہ السلام) نے کہا آپ فکر مت کریں اگر مالک آگیا تو میں اس کو سنبھال لوں گا، آپ سوجائیں۔ ہارون (علیہ السلام) کہنے لگے آپ بھی ساتھ لیٹیں تاکہ اگر مالک آئے تو ہم دونوں پر غصہ ہو۔ جب دونوں حضرات سونے کے لیے لیٹے تو ہارون (علیہ السلام) کی روح قبض ہونے لگی تو ان کو جیسے ہی یہ بات محسوس ہوئی کہنے لگے اے موسیٰ (علیہ السلام) آپ نے مجھ سے بات چھپائی جب ان کی روح قبض ہوگئی تو وہ گھر اٹھا لیا گیا اور درخت چلا گیا اور وہ تخت ہارون (علیہ السلام) کو لے کر آسمان کی طرف بلند ہوگیا۔ پھر موسیٰ (علیہ السلام) تنہا بنی اسرائیل کی طرف آئے تو وہ کہنے آپ (علیہ السلام) نے اپنے بھائی کو قتل کردیا۔ بنی اسرائیل کیونکہ ان سے زیادہ محبت کرتے تھے آپ کو حسد ہونے لگا تھا ان سے ۔ موسیٰ (علیہ السلام) نے کہا تمہارا ناس ہو وہ میرے بھائی تھے میں ان کو کیسے قتل کرسکتا ہوں لیکن جب انہوں نے بار بار یہی بات کہی تو موسیٰ (علیہ السلام) نے دو رکعت پڑھ کر دعا کی تو وہ تخت نیچے اتر آیا اور لوگوں نے آسمان و زمین کے درمیان اس تخت پر ہارون (علیہ السلام) کو دیکھ کر موسیٰ (علیہ السلام) کی تصدیق کی۔ حضرت علی بن ابی طالب ؓ سے مروی ہے کہ موسیٰ اور ہارون (علیہم السلام) پہاڑ پر چڑھے تو موسیٰ (علیہ السلام) زندہ بچے اور ہارون (علیہ السلام) انتقال کرگئے تو بنی اسرائیل موسیٰ (علیہ السلام) کو کہنے لگے آپ نے ان کو قتل کیا ہے اور موسیٰ (علیہ السلام) کو تکلیف دینے لگے تو اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کو حکم دیا وہ ہارون (علیہ السلام) کو اٹھا کر بنی اسرائیل پر گزرے اور فرشتوں نے ان کی موت کے بارے میں گفتگو کی تو بنی اسرائیل نے پہچان لیا کہ وہ مرچکے ہیں تو اللہ تعالیٰ نے موسیٰ (علیہ السلام) کو ان کے الزام سے بری کردیا۔ پھر فرشتوں نے ان کو اٹھایا اور دفن کردیا اور رخم کے علاوہ کسی کو بھی ان کی قبر کا پتہ نہ لگ سکا لیکن رخم کو اللہ تعالیٰ نے گونگا بہرہ بنادیا اور عمر بن میمون کہتے ہیں کہ ہارون و موسیٰ (علیہم السلام) کی زندگی میں وادی تیہ میں وفات پا گئے تھے یہ دونوں حضرات پہاڑ کی کسی غار میں گئے وہاں حضرت ہارون (علیہ السلام) وفات پاگئے۔ موسیٰ (علیہ السلام) نے ان کو وہیں دفن کردیا اور بنی اسرائیل کے پاس چلے آئے۔ بنی اسرائیل نے کہا کہ آپ نے ان کو ہماری محبت کی وجہ سے قتل کیا ہے کیونکہ وہ بنی اسرائیل کو بہت محبوب تھے تو موسیٰ (علیہ السلام) نے اللہ تعالیٰ سے آہ و زراری کی تو اللہ تعالیٰ نے وحی بھیجی کہ ان کو ہارون (علیہ السلام) کی قبر پر لے جائیے میں ان کو اٹھا دوں گا تو موسیٰ (علیہ السلام) ان کو لے کر ہارون (علیہ السلام) کی قبر پر گئے وہاں جاکر موسیٰ (علیہ السلام) نے آواز دی تو ہارون (علیہ السلام) قبر سے اپنے سر سے مٹی جھاڑتے ہوئے نکل آئے۔ موسیٰ (علیہ السلام) نے پوچھا کیا میں نے آپ کو قتل کیا ہے ؟ انہوں نے کہا نہیں بلکہ میری موت کا وقت آگیا تھا۔ آپ (علیہ السلام) نے فرمایا آپ اپنی آرام گاہ میں واپس چلے جائیں۔ بنی اسرائیل کی تسلی ہوگئی اور واپس چلے گئے اور موسیٰ (علیہ السلام) کی وفات کے بارے میں ابن اسحاق (رح) فرماتے ہیں کہ موسیٰ (علیہ السلام) موت کو ناپسند سمجھتے تھے تو اللہ تعالیٰ نے ارادہ فرمایا کہ ان کو اس کی رغبت دلائیں تو یوشع بن نن کو خبر دی۔ یوشع بن نون صبح شام موسیٰ (علیہ السلام) کے پاس جاتے تھے تو جب وہ گئے تو موسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا اے اللہ کے نبی اللہ نے کیا نئی وحی آپ کی طرف بھیجی ؟ یوشع نے کہا اے اللہ کے نبی میں آپ کی بحت میں اتنے سال رہا، میں نے آپ سے کبھی اللہ کی بھیجی ہوئی وحی کے بارے پوچھا جب تک آپ (علیہ السلام) نے خود بتانے کی ابتداء نہیں کی، یہ کہہ کر کچھ بھی نہیں بتایا۔ جب موسیٰ (علیہ السلام) نے یہ بات دیکھی تو موت کو پسند کرنے لگے اور زندگی کو ناپسند۔ ھمام بن منبہ (رح) فرماتے ہیں کہ ہمیں ابوہریرہ ؓ نے خبردی کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ ملک الموت موسیٰ بن عمران کے پاس آئے اور کہا کہ اپنے رب کو جواب دیں تو موسیٰ (علیہ السلام) نے موت کے فرشتے کی آنکھ پر طمانچہ مارا جس سے آنکھ پھوٹ گئی تو ملک الموت اللہ تعالیٰ کے پاس گئے اور کہا کہ آپ نے مجھے اپنے ایسے بند کے پاس بھیج دیا جو موت کو نہیں چاہتا اور میری آنکھ پھوڑ دی تو اللہ تعالیٰ نے ان کی آنکھ ٹھیک کردی اور کہا میرے بندے کے پاس واپس جائو اور ان سے پوچھو کیا آپ زندگی چاہتے ہیں ؟ اگر ایسا ہے تو بیل کی پیٹھ پر اپنا ہاتھ رکھ دیں تو آپ کا ہاتھ جتنے بالوں کو چھپالے گا اتنے سال آپ زندہ رہیں گے۔ آپ (علیہ السلام) نے پوچھا اس کے بعد ؟ ملک الموت نے کہا کہ آپ کو موت آجائے گی تو آپ (علیہ السلام) نے فرمایا تو اب ٹھیک ہے۔ اے میرے رب ! مجھے ارض مقدس سے اتنا قریب کردے جتنا ایک پتھر پھینکنے کی مسافت ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اللہ کی قسم ! اگر میں وہاں ہوتا تو میں تم کو موسیٰ (علیہ السلام) کی قبر دکھاتا جو راستے کے ایک طرف سرخ ٹیلے کے پاس ہے اور وہب (رح) فرماتے ہیں کہ موسیٰ (علیہ السلام) کسی ضرورت سے گھر سے نکلے تو فرشتوں کی ایک جماعت پر گزر ہوا جو ایک قبر کھود رہے تھے۔ موسیٰ (علیہ السلام) نے اس سے اچھی اور اس جیسی قبر کبھی نہ دیکھی تھی کیونکہ اس میں سبزہ ، رونق اور ترو تازگی تھی تو موسیٰ (علیہ السلام) نے ان کو کہا اے اللہ کے فرشتو ! اس قبر کو کیوں کھود رہے ہو ؟ انہوں نے کہا کہ اللہ کے ایک معزز بندے کے لیے تو موسیٰ (علیہ السلام) نے کہا اس بندے کا اللہ کے ہاں بہت مرتبہ ہوگا ؟ میں نے آج تک ایسی آرام گاہ نہیں دیکھی تو فرشتوں نے کہا اے اللہ کے چنے ہوئے نبی کیا آپ پسند کرتے ہیں کہ یہ آپ (علیہ السلام) کی ہوجائے۔ موسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایاں ہاں۔ تو فرشتوں نے کہا اس میں اتر کر سو جائیں اور اللہ کی طرف متوجہ ہوجائیں۔ موسیٰ (علیہ السلام) اس میں اللہ کی طرف متوجہ ہوکرسو گئے پھر آسانی سے سانس لیا اور اللہ تعالیٰ نے ان کی روح قبض کرلی اور فرشتوں نے موسیٰ (علیہ السلام) کی قبر بند کردی اور بعض نے کہا کہ ملک الموت موسیٰ (علیہ السلام) کے پاس جنت کا سیب لائے۔ موسیٰ (علیہ السلام) نے اس کو سونگھا تو ان کی روح قبض کرلی اور موسیٰ (علیہ السلام) کی عمر ایک سو بیس سال تھی۔ پھر جب موسیٰ (علیہ السلام) وفات پاگئے اور چالیس سال گزر گئے تو اللہ تعالیٰ نے یوشع (علیہ السلام) کو نبی بنا کر بھیجا۔ انہوں نے بنی اسرائیل کو خبر دی کہ اللہ نے جبابرہ سے جنگ کا حکم دیا ہے تو انہوں نے تصدیق اور اتباع کی تو یوشع (علیہ السلام) بنی اسرائیل کو لے کر ایرحاء کی طرف متوجہ ہوئے اور ان کے ساتھ میثاق کا تابوت تھا۔ انہوں نے اریحاء کا چھ ماہ محاصرہ کیا، ساتویں ماہ سینگوں میں پھ ونک مار کر پورے قبیلے نے ایک ساتھ آواز لگائی اور شور مچایا اور مدینہ کی دیوار گرگئی اور شہر میں داخل ہوئے اور جبارین نے جنگ کی اور ان کو شکست دی اور ان کو گھیر کر قتل کیا اور بنی اسرائیل کی ایک جماعت جبارین کے ایک آدمی کی گردن پر جمع ہوکر وار کرتے اور اس کے کٹنے تک لگے رہتے۔ یہ قتال جمعہ کے دن شروع ہوا تھا اور باقی چند افراد رہ گئے اور سورج غرب ہونے لگا اور ہفتہ کی رات داخل ہونے لگی تو یوشع (علیہ السلام) نے دعا کی اے اللہ ! تو سورج کو واپس کردے اور سورج کو کہا کہ تو بھی اللہ کی اطاعت میں ہے اور ہم بھی تو ٹھہر جا اور چاند کو کہا ہم ہفتہ کا دن آنے سے پہلے اللہ کے دشمنوں سے انتقام لے لیں تو سورج واپس کردیا گیا اور دن میں کچھ گھڑی کا اضافہ کردیا گیا حتیٰ کہ ان سب کو قتل کردیا گیا۔ اور شام کے بادشاہوں کا ارادہ کیا اور ان میں سے اکتیس کو تباہ و برباد کردیا اور تمام ملک شام پر غلبہ حاصل کرلیا اور تمام ملک شام بنی اسرائیل کا ہوگیا۔ حضرت یوشع (علیہ السلام) نے اپنے عاملین کو ملک کے اطراف میں بھیج کر تمام مال غنیمت جمع کرایا لیکن اس پر آسمان سے آگ نہیں اتری تو اللہ تعالیٰ نے یوشع (علیہ السلام) کو وحی بھیجی کہ اس مال میں خیانت ہوئی ہے تو آپ ان سب کو حکم دیں کہ وہ آپ کی بیعت کریں۔ جب سب نے بیعت کی تو اس خائن کا ہاتھ یوشع (علیہ السلام) کے ہاتھ سے جڑ گیا تو حضرت یوشع (علیہ السلام) نے فرمایا کہ جو کچھ چھپایا ہے وہ لے آئو تو سونے کا بنا ہوا بیل کا سر لایا جس پر یاقوت اور ہیرے موتی جڑے ہوئے تھے۔ اس نے اس کی خیانت کی تھی۔ حضرت یوشع (علیہ السلام) نے اس آدمی کو بھی مال غنیمت میں ڈال دیا اور آگ آئی اور اس آدمی سمیت سب مال کو جلا دیا۔ پھر یوشع (علیہ السلام) بھی وفات پاگئے اور جبل افرائیم میں دفن کیے گئے۔ ان کی عمر ایک سو چھبیس سال تھی اور موسیٰ (علیہ السلام) کے بعد ستائیس سال تک بنی اسرائیل کی ذمہ داری سنبھالی۔
Top