Tafseer-e-Baghwi - Al-Insaan : 9
اِنَّمَا نُطْعِمُكُمْ لِوَجْهِ اللّٰهِ لَا نُرِیْدُ مِنْكُمْ جَزَآءً وَّ لَا شُكُوْرًا
اِنَّمَا : اس کے سوا نہیں نُطْعِمُكُمْ : ہم تمہیں کھلاتے ہیں لِوَجْهِ اللّٰهِ : رضائے الہی کیلئے لَا نُرِيْدُ : ہم نہیں چاہتے مِنْكُمْ : تم سے جَزَآءً : کوئی جزا وَّلَا شُكُوْرًا : اور نہ شکریہ
اور باوجود یہ کہ ان کو خود طعام کی خواہش (اور حاجت) ہے فقیروں اور یتیموں اور قیدیوں کو کھلاتے ہیں
8 ۔” ویطعمون الطعام علی حبہ “ یعنی کھانے کی محبت اور قلت اور ان کے کھانے کی چاہت کرنے اور ضرورت ہونے کے باوجود اور کہا گیا ہے اللہ کی محبت میں۔ ” مسکینا “ فقیر کو جس کا کوئی مال نہ ہو۔ ” ویتیما “ بچہ جس کا باپ نہ ہو۔ ” واسیرا “ مجاہد، سعید بن جبیر اور عطاء رحمہما اللہ فرماتے ہیں وہ اہل قبلہ میں سے قید کیا ہوا شخص اور قتادہ (رح) فرماتے ہیں اللہ تعالیٰ نے امراء کو ان کے ساتھ احسان کرنے کا حکم دیا ہے۔ اگرچہ ان دنوں ان کے قدی مشرک ہوتے تھے اور کہا گیا ہے الاسیر مملوک غلام اور کہا گیا ہے عورت۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا تم اللہ سے عورتوں کے معاملہ میں ڈرو کیوں کہ وہ تمہارے پاس عوان یعنی قیدی ہیں اور اس آیت کے سبب نزول میں اختلاف کیا ہے۔ مقاتل (رح) فرماتے ہیں یہ ایک انصاری شخص کے بارے میں نازل ہوئی ہے اس نے ایک دن مسکین، یتیم اور قیدی کو کھانا کھلایا۔ مجاہد اور عطاء عن ابن عباس ؓ سے روایت کیا گیا ہے یہ علی بن ابی طالب ؓ کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔ انہوں نے ایک یہودی کے پاس تھوڑے سے جو کے بدلے مزدوری کی، پھر جو لیے اس کے تہائی پیسا، پھر اس سے کوئی چیز بنائی تاکہ وہ اس کو کھا سکیں پھر جب وہ پک گئی تو مسکین آیا اور سوال کیا تو انہونے اس کو سارا کھانا دے دیا۔ پھر دوسرے تہائی کے ساتھ یہی معاملہ کیا۔ پس جب یہ پکا تو یتیم آیا سوال کیا تو انہوں نے اس کو کھلا دیا، پھر باقی تہائی کے ساتھ وہی معاملہ کیا۔ پس جب وہ پک گیا تو مشرکین میں سے ایک قیدی آیا سوال کیا تو انہوں نے اس کو کھلا دیا اور اپنا دن بھوکے گزارا اور یہ حسن اور قتادہ رحمہما اللہ کا قول ہے کہ قیدی اہل شرک میں سے تھا اور اس میں دلیل ہے کہ قیدیوں کو کھانا کھلانا اگرچہ وہ مشرک ہوں اچھا کام ہے اس کے ثواب کی امید ہے۔
Top