Tafseer-e-Baghwi - Al-Anfaal : 17
فَلَمْ تَقْتُلُوْهُمْ وَ لٰكِنَّ اللّٰهَ قَتَلَهُمْ١۪ وَ مَا رَمَیْتَ اِذْ رَمَیْتَ وَ لٰكِنَّ اللّٰهَ رَمٰى١ۚ وَ لِیُبْلِیَ الْمُؤْمِنِیْنَ مِنْهُ بَلَآءً حَسَنًا١ؕ اِنَّ اللّٰهَ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌ
فَلَمْ تَقْتُلُوْهُمْ : سو تم نے نہیں قتل کیا انہیں وَلٰكِنَّ : بلکہ اللّٰهَ : اللہ قَتَلَهُمْ : انہیں قتل کیا وَ : اور مَا رَمَيْتَ : آپ نے نہ پھینکی تھی اِذْ : جب رَمَيْتَ : آپ نے پھینکی وَلٰكِنَّ : اور بلکہ اللّٰهَ : اللہ رَمٰى : پھینکی وَلِيُبْلِيَ : اور تاکہ وہ آزمائے الْمُؤْمِنِيْنَ : مومن (جمع) مِنْهُ : اپنی طرف سے بَلَآءً : آزمائش حَسَنًا : اچھا اِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ سَمِيْعٌ : سننے والا عَلِيْمٌ : جاننے والا
تم لوگوں نے ان (کفار) کو قتل نہیں کیا بلکہ خدا نے انہیں قتل کیا۔ اور (اے محمد ﷺ جس وقت تم نے (کنکریاں) پھینکی تھیں تو وہ تم نے نہیں پھینکی تھیں بلکہ اللہ نے پھینکی تھیں۔ اس سے یہ غرض تھی کہ مومنوں کو اپنے (احسانوں) سے اچھی طرح آزما لے۔ بیشک خدا سنتا جانتا ہے۔
تفسیر 17 (فلم تقتلوھم ولکن اللہ قتلھم ) مجاہد (رح) فرماتے ہیں کہ آیت کا سبب نزول یہ ہے کہ جنگ بدر کے بعد کوئی شخص کہتا میں نے فلاں کو مارا ہے، دو سرا کہتا میں نے فلاں کو مارا ہے تو یہ آیت نازل ہوئی۔ مطلب یہ ہے کہ تم نے اپنی قوت سے ان کو قتل نہیں کیا بلکہ اللہ تعالیٰ نے ان کو تمہاری مدد کر کے قتل کیا ہے اور بعض نے کہا کہ اللہ نے ان کو فرشتوں کی مدد بھیج کر قتل کیا ہے (وما رمیت اذ رمیت ولکن اللہ رمی) اہل تفسیر رحمہما اور اہل مغازی رحمہم اللہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے لوگوں کو لڑائی کی طرف متوجہ کیا تو وہ چلے اور بدر میں پڑائو ڈالا تو ان پر قریش کے چرواہے گزرے، ان میں اسلم بنو حجاج کا سیاہ غلام اور ابویسار بن عاص بن سعید کا غلام تھا۔ ان کو رسول اللہ ﷺ کے پاس لایا گیا تو آپ (علیہ السلام) نے فرمایا کہ قریش کہاں ہیں ؟ تو ان دونوں نے کہا کہ اس ٹیلے کے پیچھے اس ٹیلہ کا نام عقنقل تھا۔ رسول اللہ ﷺ نے پوچھا کتنے لوگ ہیں ؟ انہوں نے کہا بہت زیادہ۔ آپ (علیہ السلام) نے پوچھا ان کی تعداد کتنی ہے ؟ انہوں نے کہا معلوم نہیں۔ آپ (علیہ السلام) نے پوچھا کہ ہر دن کتنے جانر ذبح کئے جاتے ہیں ؟ انہوں نے کہا ایک دن دس اونٹ، ایک دن نو تو آپ (علیہ السلام) نے فرمایا کہ وہ نو سو سے ہزار کے درمیان ہیں۔ پھر آپ (علیہ السلام) نے ان دونوں کو فرمایا کہ قریش کے سرداروں میں سے کون کون ہیں ؟ ان دونوں نے کہا کہ عتبہ بن ربیعہ، شیبہ بن ربیعہ، ابوالجنتری بن ہشام، حکیم بن حزام، حارث بن عامر، طعیمہ بن عدی، نضر بن حارث، ابوجہل بن ہشام، امیہ بن خلف اور حجاج کے بیٹے نبیہ اور منبہ سہیل بن عمرو تو آپ (علیہ السلام) نے فرمایا کہ یہ مکہ ہے کہ اس نے تمہاری طرف اپنے اہم لوگ (اپنے جگر کے ٹکڑے) ڈال دیئے ہیں۔ جب قریش سامنے آئے اور ان کو رسول اللہ ﷺ نے دیکھا کہ وہ عقتقل ٹیلہ سے آ رہے ہیں۔ تو آپ (علیہ السلام) نے فرمایا کہ یہ قریش اپنے تکبر اور فخر کے ساتھ آ رہے ہیں انہوں نے تمہارے رسول ﷺ کو جھٹلایا۔ اے اللہ ! تو اپنی مدد بھیج جس کا تو نے وعدہ کیا ہے تو جبرئیل (علیہ السلام) آئے اور کہا کہ آپ (علیہ السلام) اپنی مٹھی میں مٹی پکڑ کر ان کی طرف پھینکیں۔ جب دونوں لشکر آمنے سامنے ہوگئے تو آپ (علیہ السلام) نے کنکریوں کی مٹھی پکڑی، اس پر مٹی تھی تو اس کو کفار کے چہروں کی طرف پھینکا تو کوئی مشرک ایسا نہ بچا جس کی آنکھوں اور منہ اور ناک میں وہ مٹی نہ گئی ہو تو ان کو شکست ہوئی اور مسلمان ان کو پیچھے جا کر قتل کرنے لگے اور قیدی بنانے لگے۔ قتادہ بن زید (رح) فرماتے ہیں کہ ہمیں یہ بات ذکر کی گئی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے بدر کے دن تین کنکریاں پکڑیں، ایک کنکری لشکر کے میمنہ پر ایک میسرہ پر ایک ان کے درمیان میں پھینکی تو اسی کو اللہ تعالیٰ نے فرمایا (اور آپ نے نہیں پھینکی مٹھی خاک کی جس وقت کہ پھینکی تھی لیکن اللہ نے پھینکی) کیونکہ کسی انسان کی طاقت میں نہیں ہے کہ کنکریوں کی ایک مٹھی لشکر کی طرف پھینکے اور وہ سب کی آنکھوں میں جا پڑے اور بعض نے کہا ہے کہ مطلب یہ ہے کہ آپ نے کنکریوں کو نہیں پہنچایا، جب آپ نے پھینکا لیکن اللہ نے پہنچایا اور بعض نے کہا کہ جب آپ نے کنکریاں پھینکیں تو ان کے دل میں رعب آپ (علیہ السلام) نے نہیں ڈالا بلکہ اللہ تعالیٰ نے ان کے دل میں رعب ڈالا حتی کہ ان کو شکست ہوئی (ولبیلی المومنین منہ بلآء حسناً ) (ان اللہ سمیع علیم) تمہاری نیتوں کو
Top