Tafseer-e-Madani - Al-Anfaal : 17
فَلَمْ تَقْتُلُوْهُمْ وَ لٰكِنَّ اللّٰهَ قَتَلَهُمْ١۪ وَ مَا رَمَیْتَ اِذْ رَمَیْتَ وَ لٰكِنَّ اللّٰهَ رَمٰى١ۚ وَ لِیُبْلِیَ الْمُؤْمِنِیْنَ مِنْهُ بَلَآءً حَسَنًا١ؕ اِنَّ اللّٰهَ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌ
فَلَمْ تَقْتُلُوْهُمْ : سو تم نے نہیں قتل کیا انہیں وَلٰكِنَّ : بلکہ اللّٰهَ : اللہ قَتَلَهُمْ : انہیں قتل کیا وَ : اور مَا رَمَيْتَ : آپ نے نہ پھینکی تھی اِذْ : جب رَمَيْتَ : آپ نے پھینکی وَلٰكِنَّ : اور بلکہ اللّٰهَ : اللہ رَمٰى : پھینکی وَلِيُبْلِيَ : اور تاکہ وہ آزمائے الْمُؤْمِنِيْنَ : مومن (جمع) مِنْهُ : اپنی طرف سے بَلَآءً : آزمائش حَسَنًا : اچھا اِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ سَمِيْعٌ : سننے والا عَلِيْمٌ : جاننے والا
، پس درحقیقت ان کو تم نے قتل نہیں کیا تھا، بلکہ ان کو اللہ ہی نے قتل کیا تھا اور جو آپ نے پھینکی تھی وہ درحقیقت آپ نے نہیں پھینکی تھی بلکہ وہ اصل میں اللہ ہی نے پھینکی تھی اور تاکہ وہ تم کو نواز دے ایمان والوں کو اپنی طرف سے ایک بڑے ہی عمدہ اجر سے، بیشک اللہ بڑا ہی سننے والا، (سب کچھ) جانتا ہے1
23 عنایت خداوندی کے ایک نتیجے کا ذکر وبیان : سو ارشاد فرمایا گیا کہ پس درحقیقت ان دشمنان حق کو تم لوگوں نے نہیں قتل کیا تھا (اے ایمان والو) بلکہ ان کو اصل میں اللہ ہی نے قتل کیا تھا۔ یعنی دشمنوں کی شکست اور ان کے قتل و خونریزی کا یہ کام تمہارے بس کی چیز نہیں تھا بلکہ یہ سب کچھ اللہ ہی کی طرف سے تھا۔ سو ان دشمنوں کو تم نے نہیں اللہ ہی نے قتل کیا تھا۔ اور اس کا یہ قتل تمہارے ذریعے ظاہر ہوا جو درحقیقت تمہارے لئے اس وحدہ لاشریک قادرمطلق کی طرف سے ایک بڑا اعزاز ہے، جس پر تمہیں دل و جان سے اس کا شکر گزار ہونا چاہیئے، نہ کہ مال غنیمت وغیرہ کا دعویدار بننا۔ سو فتح و شکست کا اصل دارومدار اللہ تعالیٰ کی نصرت و امداد پر ہے جس کو اس کی نصرت و امداد حاصل ہوگی وہی کامیاب و کامران ہوگا اور اس کی نصرت و امداد جس کیخلاف جائے گی وہی ناکام و نامراد ہوگا ۔ والعیاذ باللہ ۔ پس مومن صادق کا اصل کام یہ ہے کہ وہ اپنے اس خالق ومالک کے ساتھ اپنا تعلق صحیح رکھے تاکہ اس کی نصرت و امداد اس کو حاصل رہے کہ اس کے بعد اس کو کسی کی کوئی پرواہ نہیں ہوسکتی ۔ وبِاللّٰہِ التوفیق لِمَا یُحِبُّ وَیُرِیْد وعلی ما یحب ویرید ۔ سو بندئہ مومن جب اپنے ایمان و یقین اور صدق و اخلاص میں سچا ہوتا ہے تو وہ اللہ پاک کی خاص عنایات اور اس کی نوازشوں کا مظہر بن جاتا ہے۔ جیسا کہ شاعر مشرق نے کہا اور خوب کہا کہ ۔ ہاتھ ہے اللہ کا بندئہ مومن کا ہاتھ ۔ اللہ نصیب فرمائے اور بدرجہ تمام و کمال نصیب فرمائے ۔ آمین ثم آمین۔ انہ ۔ سبحانہ وتعالی ۔ سمیع قریب مجیب وعلی ما یشاء قدیر وہو عند ظن عبدہ بہ جل جلالہ وعم نوالہ - 24 معرکہ بدر میں ایک مشت خاک کی تاثیر کا ذکر وبیان : سو اس سے واضح فرما دیا کہ معرکہ بدر میں رسول اللہ کے ہاتھ سے پھینکی جانے والی مٹی کی تاثیر دراصل قدرت ہی کی عنایت کا نتیجہ تھا۔ سو ارشاد فرمایا گیا کہ وہ مٹی حقیقت میں آپ نے نہیں پھینکی تھی اے پیغمبر بلکہ وہ درحقیقت اللہ تعالیٰ ہی نے پھینکی تھی اپنی قدرت و عنایت سے۔ یعنی اس کی یہ تاثیر دراصل اللہ تعالیٰ ہی کی قدرت و عنیات کا نتیجہ وثمرہ تھا۔ غزوئہ بدر کے موقع پر۔ کہ وہ ظاہراً اگرچہ آپ ہی کے دست مبارک سے پھینکی گئی تھی، مگر اس کی یہ تاثیر کہ وہ سب دشمنوں کی آنکھوں میں پڑجائے محض قدرت خدا وندی کا ایک نمونہ و مظہر تھا، ورنہ یہ چیز آپ کے حیطہ بس و اختیار میں نہیں تھی۔ سو اس سے اہل بدعت کے مختار کل کے شرکیہ عقیدے کی قطعی نفی ہوجاتی ہے کہ اختیار کلی اللہ پاک ہی کی شان اور اسی کا اختصاص ہے۔ وہی جب اور جیسے چاہے کرتا ہے۔ سب اسی کے محتاج ہیں۔ سب کا خالق ومالک وہی وحدہ لا شریک ہے۔ روایات کے مطابق میدان بدر میں جب طرفین کی فوجیں آمنے سامنے ہوئیں تو آنحضرت ﷺ نے مٹھی بھر خاک زمین سے اٹھائی اور " شَاھَتِ الْوُجُوْہُ " " بگڑجائیں یہ چہرے " کہہ کر اس کو کفار کی طرف پھینک دیا۔ اور اللہ پاک کی قدرت و عنایت سے وہ مٹی سب کفار کی آنکھوں میں پڑگئی۔ اور عربی زبان کا یہ جملہ لعنت اور پھٹکار کے معنیٰ میں آتا ہے۔ سو ارشاد فرمایا گیا کہ آپ ﷺ کے ہاتھ سے اے پیغمبر مٹھی بھر پھینکی جانے والی اس مٹی کی یہ تاثیر کہ وہ طوفان بن جائے اور تمام کفار کی آنکھوں میں پڑجائے یہ آپ ﷺ کے ہاتھ کا کارنامہ نہیں تھا، بلکہ یہ در اصل دست غیب کی قدرت کا کرشمہ تھا جو اس طرح ظاہر ہوا۔ کہ سب کچھ اسی وحدہ لا شریک کے قبضہ قدرت واختیار میں ہے ۔ سبحانہ وتعالیٰ - 25 ایمان والوں کیلئے بڑا ہی عمدہ اجر وثواب : سو ارشاد فرمایا گیا کہ تاکہ اللہ نوازے ایمان والوں کو ایک بڑے ہی عمدہ اجر سے بیشک اللہ بڑا ہی سننے والا سب کچھ جانتا ہے ۔ سبحانہ وتعالی ۔ اور اس نے یہ سب کچھ اس لیے کیا کہ تاکہ وہ نوازے ایمان والوں کو ایک بڑے ہی عمدہ اجر سے کہ فتح و نصرت کا تاج انہیں نصیب ہو، جہاد کے اجر وثواب سے وہ بہرہ ور و ہمکنار ہوں، سچی عزت و ناموری کے ساتھ ساتھ مال غنیمت بھی ان کے ہاتھ آئے اور ان کے دشمن ان کے سامنے ذلیل و خوار ہوں وغیرہ وغیرہ۔ اور سب سے بڑا اور عمدہ اجر ان کو آخرت کے اس جہاں میں ملے گا جو کہ ابدی اور حقیقی جہاں ہے۔ سو اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کو اپنی ایسی خاص عنایات سے نوازا تاکہ وہ اپنی نصرت کی شانیں دکھائے اور تاکہ مسلمانوں کے جوہر اچھی طرح نمایاں کرے ۔ فالحمد للہ جل وعلا ۔ سو ایمان و یقین اور صدق و اخلاص دارین کی سعادت و سرخروئی سے سرفرازی کا ذریعہ و وسیلہ ہے ۔ اللہ نصیب فرمائے اور بدرجہ تمام و کمال نصیب فرمائے ۔ اور ہمیشہ اس سے بہرہ ور اور سرشار رکھے ۔ آمین وانہ ۔ سبحانہ وتعالی ۔ سمیع قریب مجیب وعلی ما یشاء قدیر۔ سبحانہ وتعالی -
Top