Tafseer-e-Baghwi - Ash-Sharh : 6
اِنَّ مَعَ الْعُسْرِ یُسْرًاؕ
اِنَّ : بیشک مَعَ : ساتھ الْعُسْرِ : دشواری يُسْرًا : آسانی
(اور) بیشک مشکل کے ساتھ آسانی ہے
6 ۔ ان مع العسر یسرا “ یعنی اس سختی کے ساتھ جس میں آپ (علیہ السلام) ہیں، مشرکین کے جہاد سے نرمی اور آسانی ہے بایں طور کہ آپ (علیہ السلام) کو ان پر غلبہ دیں گے حتیٰ کہ وہ اس حق کے آگے سر جھکالیں گے جو آپ (علیہ السلام) ان کے پاس لائے ہیں۔ ” ان مع العسر یسرا “ اس کا تکرار کیا ہے وعدہ کی تاکید کے لئے اور امید کی تعظیم کے لئے اور حسن (رح) فرماتے ہیں جب یہ آیت نازل ہوئی رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تم خوش ہوجائو تمہارے پاس آسانی آگئی، ایک تنگی ہرگز دو آسانیوں پر غالب نہ آسکے گی۔ ابن مسعود ؓ فرماتے ہیں اگر تنگی کسی سوراخ میں ہو تو اس کو آسانی تلاشی کرلے گی حتیٰ کہ اس میں داخل ہوجائے گی کیونکہ ایک تنگی دو آسانیوں پر ہرگز غالب نہیں آسکتی۔ مفسرین رحمہم اللہ فرماتے ہیں اور ان کے قول کا ” لن یغلب عسر یسرین “ (کہ ایک تنگی دوآسانیوں پر ہرگز غالب نہیں آسکتی) کا معنی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے لفظ العسر کا تکرار معرفہ کے ساتھ کیا ہے اور یسر کا تکرار نکرہ لفظ کے ساتھ اور عرب کی عادت ہے جس اسم معرفہ ذکر کرتے ہیں پھر اس کو دوبارہ ذکر کریں تو دوسرے سے وہی پہلا مراد ہوتا ہے۔ اور جب اسم کو نکرہ پر کریں پھر اس کا اعادہ کریں نکرہ تو وہ دوہوجاتے ہیں اور جب اس کا معرفہ لفظ کے ساتھ اعادہ کریں تو دوسرا وہی پہلا ہوتا ہے جیسے تیرا قول ” کسبت درھما انفقت الدرھم “ تو دوسرا درہم وہی پہلا ہے اور جب تو کہے ” اذا کسبت درھما فانفق درھما “ تو دوسرا پہلے کا غیر ہے۔ پس عسر آیت میں مکر رہے لفظ معرفہ کے ساتھ تو عسر ایک ہو اور یسر مکرر ہے لفظ نکرہ کے ساتھ تو دویسر ہوئے ۔ گویا کہ فرمایا ہے کہ ” ان مع العسریسران “ کہ ایک تنگی کے ساتھ دو آسانیاں ہیں اور ابو علی حسین بن یحییٰ بن نصر (رح) فرماتے ہیں لوگوں نے ان کے قول ” لن یغلب عسر یسرین “ میں کلام کیا ہے۔ پس اس سے ان کے اس قول کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوا کہ عسر معرفہ ہے اور یسر نکرہ ہے۔ پس ثابت ہوا کہ ایک عسر ہو اور دویسر۔ اور یہ قول قابل اعتراض ہے جب آدمی کہتا ہے ” ان مع الفارس سیفا ان مع الفارس سیفا “ تو یہ ثابت نہیں کرتا کہ ایک گھڑ سوار کے پاس دو تلواریں ہیں۔ پس آپ ؓ کے قول ” لن یغلب عسر یسرین “ کا مجازیہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کریم ﷺ کو بھیجا اس حال میں کہ آپ (علیہ السلام) کے پاس مال و اسباب کم تھا تو قریش آپ (علیہ السلام) کو اس کی وجہ سے عار دلاتے تھے حتیٰ کہ انہوں نے کہا اگر آپ کو مال داری کی طب ہے تو ہم آپ (علیہ السلام) کے لئے مال جمع کردیتے ہیں حتیٰ کہ آپ (علیہ السلام) اہل مکہ میں سب سے مال دار شخص کی طرح ہوجائیں گے تو اس کی وجہ سے نبی کریم ﷺ غمزہ ہوئے تو آپ (علیہ السلام) نے گمان کیا کہ آپ ﷺ کی قوم آپ کی تکذیب آپ کے فقر کی وجہ سے کررہی ہے تو اس سورة میں اللہ تعالیٰ آپ (علیہ السلام) پر اپنی نعمتیں شمار کرائیں اور آپ (علیہ السلام) سے غنا کا وعدہ کیا اس کے ذریعے آپ ﷺ کو تسلی دی اس غم پر جو آپ (علیہ السلام) پر چھایا ہوا تھا تو فرمایا ” فان مع العسر یسرا “ اس کا مجاز جو وہ کہتے ہیں یہ آپ (علیہ السلام) کو غمزدہ نہ کردے۔ ” فان مع العسر یسرا “ دنیا میں جلدی۔ پھر اپناوعدہ پورا کیا اور آپ (علیہ السلام) کو عرب کے شہروں پر فتح دی اور آپ (علیہ السلام) کے ہاتھ میں وسعت دی۔ یہاں تک کہ آپ (علیہ السلام) سینکڑوں اونٹ دے دیتے اور سال کا غلبہ ہبہ کردیتے۔ پھر دوسرے فضل کی ابتداء کی جو آخرت کے امر میں سے ہے۔ تو فرمایا ” ان مع العسر یسرا “ اور اس نیا جملہ ہونے کی دلیل اس کا وائو اور فاء سے خالی ہونا ہے اور یہ تمام مومنوں کے لئے وعدہ ہے اور اس کا مجاز ” ان مع العسر یسرا “ یعنی دنیا میں تنگی کے ساتھ مومن کے لئے آخرت میں آسانی ہے۔ پس بسا اوقات اس کے لئے دوآسانیاں جمع ہوجاتی ہیں۔ دنیا کی آسانی بھی جو دوسری آیت میں ذکر کی ہے تو آپ (علیہ السلام) کا قول ” لن یغلب عسر یسرین “ یعنی دنیا کی تنگی ہرگز اس آسانی پر غالب نہیں ہوسکتی جس کا اللہ تعالیٰ نے مومنین سے دنیا میں وعدہ گیا ہے اور اس آسانی پر جس کا ان سے آخرت میں وعدہ کیا اور عسر تو صرف ان دونوں یسر میں سے ایک پر غالب ہوتا ہے اور وہ دنیا کا یسر ہے اور بہرحال آخرت کا یسر تو وہ دائمی کبھی زائل نہ ہونے والا ہے یعنی ان دونوں کو غلبہ میں جمع نہیں کرسکتا جیسے نبی کریم ﷺ کا قول عید کے دو مہینے کم نہیں ہوتے یعنی کمی میں جمع نہیں ہوسکتے۔
Top