7 یعنی اللہ کی رضا جوئی میں جو سختیاں آپ ﷺ نے برداشت کیں اور رنج و تعب کھینچے۔ ان میں سے ہر ایک سختی کے ساتھ کئی کئی آسانیاں ہیں۔ مثلاً حوصلہ فراخ کردینا جس سے ان مشکلات کا اٹھانا سہل ہوگیا، اور ذکر کا بلند کرنا، جس کا تصور بڑی بڑی مصیبتوں کے تحمل کو آسان کردیتا ہے۔ یا یہ مطلب ہے کہ جب ہم نے آپ ﷺ کو روحانی راحت دی اور روحانی کلفت رفع کردی جیسا کہ " الم نشرح " الخ سے معلوم ہوا تو اس سے دنیاوی راحت و محنت میں بھی ہمارے فضل و کرم کا امیدوار رہنا چاہیے ہم وعدہ کرتے ہیں کہ بیشک موجودہ مشکلات کے بعد آسانی ہونے والی ہے اور تاکید مزید کے لئے پھر کہتے ہیں کہ ضرور موجودہ سختی کے بعد آسانی ہو کر رہے گی۔ چناچہ احادیث و سیر سے معلوم ہوچکا کہ وہ سب مشکلات ایک ایک کر کے دور کردی گئیں۔ اور ہر ایک سختی اپنے بعد کئی کئی آسانیاں لے کر آئی۔ اب بھی عادۃ اللہ یہی ہے کہ جو شخص سختی پر صبر کرے اور سچے دل سے اللہ پر اعتماد رکھے اور ہر طرف سے ٹوٹ کر اسی سے لو لگائے۔ اسی کے فضل و رحمت کا امیدوار رہے، امتداد زمانہ سے گھبرا کر آس نہ توڑ بیٹھے ضرور اللہ اس کے حق میں آسانی کرے گا۔ ایک طرح کی نہیں، کئی طرح کی، وفی الحدیث " لن یغلب عسر یسرین " وفیہ ایضا " لوجا العسر فدخل ھٰذا الحجر لجاء الیسر حتی ید خل علیہ فیخرجہ "