Madarik-ut-Tanzil - Ash-Sharh : 6
اِنَّ مَعَ الْعُسْرِ یُسْرًاؕ
اِنَّ : بیشک مَعَ : ساتھ الْعُسْرِ : دشواری يُسْرًا : آسانی
(اور) بیشک مشکل کے ساتھ آسانی ہے
6: اِنَّ مَعَ الْعُسْرِ یُسْرًا (بیشک موجودہ مشکلات کے ساتھ آسانی ہے) یعنی اس سختی کے باوجود جو مشرکین کی طرف سے آپ برداشت کر رہے ہیں۔ یُسْرًا آسانی ہے میری اس پشت پناہی کی وجہ سے جو آپ ہی کو میسر ہے یہاں تک کہ آپ ان پر غالب آجائیں گے۔ ایک قول یہ ہے : مشرکین رسول اللہ ﷺ اور مسلمانوں کو فقر کا طعنہ دیتے یہاں تک کہ آپ کے وہم میں یہ بات سبقت کرگئی کہ ان کو اہل اسلام کے فقر کی وجہ سے اسلام سے نفرت ہے۔ پس اللہ تعالیٰ نے آپ پر کیے جانے والے عظیم انعامات کو یاد دلایا۔ پھر فرمایا : ان مع العسر یسرًا گویا فرمایا ہم نے آپ پر جو انعامات کیے سو کیے پس فضل الٰہی سے آپ ہرگز مایوس نہ ہوں۔ اس لئے کہ وہ تنگی جس میں تم اس وقت ہو اسکے ساتھ آسانی ہے۔ اور معؔ کا لفظ استعمال فرمایا۔ تاکہ اسکے قریب ترہونے کو بتلایا دیا جائے اور مزید تسلی کا باعث ہو اور دلوں میں پختگی پیدا ہو۔ آپ ﷺ نے اس کے نزول کے موقعہ پر فرمایا : لن یغلب عسر یسرین [ رواہ الحاکم : 2/528] ( ایک تنگی دو آسانیوں پر ہرگز غالب نہیں آئے گی) کیونکہ آیت میں العسرؔ کو معرفہ لایا گیا پس یہ ایک ہی چیز ہوئی۔ قاعدہ یہ ہے کہ جب معرفہ کو دوبارہ لوٹا دیا جائے تو دوسرا معرفہ اول معرفہ کا عین ہوتا ہے یعنی دونوں ایک ہی چیز ہوتے ہیں۔ اور اسکے بر خلاف الیسرؔ کو نکرہ لا کر لوٹایا گیا۔ اور قانو ناً نکرہ کا اعادہ ہو تو دوسر انکرہ اول سے الگ اور غیر ہوتا ہے۔ حاصل معنی یہ ہوا بیشک ایک تنگی کے ساتھ دو آسانیاں ہیں۔ قول ابو معاذ : عرب کہتے ہیں نمبر 1۔ ان مع الامیر غلامًا ان مع الامیر غلامًا پس امیر تو ایک ہی ہوتا ہے اور غلام دو مراد ہوتے ہیں۔ اور جب یہ کہیں ان مع الا میر الغلام۔ ان مع الا میر الغلام تو امیر ایک اور غلام بھی ایک مراد ہوتا ہے۔ نمبر 3۔ اور جب کہتے ہیں : ان مع امیر غلامًا ان مع امیر غلامًا تو امیر بھی دو اور غلام بھی دو سمجھے جاتے ہیں۔ ( کذا فی شرح التاویلات)
Top