Baseerat-e-Quran - An-Naml : 54
وَ لُوْطًا اِذْ قَالَ لِقَوْمِهٖۤ اَتَاْتُوْنَ الْفَاحِشَةَ وَ اَنْتُمْ تُبْصِرُوْنَ
وَلُوْطًا : اور لوط اِذْ قَالَ : جب اس نے کہا لِقَوْمِهٖٓ : اپنی قوم اَتَاْتُوْنَ : کیا تم آگئے (اتر آئے) ہو الْفَاحِشَةَ : بےحیائی وَاَنْتُمْ : اور تم تُبْصِرُوْنَ : دیکھتے ہو
اور یاد کرو جب لوط (علیہ السلام) نے اپنی قوم سے کہا کہ تم دیکھتے بھالتے بےحیائی پر اتر آئے ہو۔
لغات القرآن : آیت نمبر 54 تا 59 : اناس (انس) (لوگ۔ انسان) یتطھرون (پاک باز بنتے ہیں) ‘ قدرنا (ہم نے ٹھہرادیا) ‘ الغبرین (پیچھے رہ جانے والے) ‘ امطرنا ( ہم نے برسایا) ‘ سلام (سلامتی) اصطفی (چن لیا۔ منتخب کرلیا) ۔ تشریح : آیت نمبر 54 تا 59 : اللہ تعالیٰ جو اپنے بندوں پر بہت مہربان ہے اس کا دستور یہ ہے کہ اگر کوئی شخص گناہ کرتا ہے اور اس سے توبہ نہیں کرتا تو اس کو اسی دنیا میں مختلف شکلوں میں سزادی جاتی ہے اور آخرت کا نقصان تو واضح ہے لیکن اگر ساری قوم ایک گناہ پر راضی ہوجائے اور گاہ کو گناہ نہ سمجھا جائے تو پھر اس قوم کی طرف اللہ کا عذاب متوجہ ہوجاتا ہے۔ اسی لئے شاعر نے بڑی اچھی بات کہی ہے کہ قدرت افراد سے اغماض تو کرلیتی ہے نہیں کرتی کبھی ملت کے گناہوں کو معاف یعنی جب تک خطاؤں کا دائرہ افراد تک محدود رہتا ہے تو قدرت بھی ان کے معافی مانگنے پر ان کو معاف کرسکتی ہے لیکن جب پوری قوم مل کر بڑی ڈھٹائی سے گناہوں میں اجتماعی طور پر مبتلا ہوجاتی ہے تو پھر اللہ کا عذاب آکررہتا ہے۔ دنیا بھرکے انسانوں کو اللہ کا شکر ادا کرنا چاہیے کہ نبی کریم ﷺ کی تشریف آوری کے بعد اب دنیا پر وہ عذاب تو نہ آئیں گے جو گذری ہوئی امتوں پر آئے تھے لیکن زلزلے ‘ طوفان ‘ قحط سالی ‘ خون خرابہ اور آپس کے شدید اختلافات وغیرہ آتے رہیں گے۔ حضرت لوط (علیہ السلام) حضرت ابراہیم خلیل اللہ (علیہ السلام) کے بھتیجے اور اللہ کے نبی تھے۔ وہ اس قوم کی اصلاح کے لئے بھیجے گئے تھے جو ایک گھنائو نے اور شرمناک فعل یعنی ہم جنس پرستی کے فعل میں مبتلا تھے۔ جب حضرت لوط (علیہ السلام) اپنی قوم کے لوگوں کو اس فعل بد سے روکنے اور دنیا وآخرت میں اس کے شدید ترین نقصانات سے آگاہ کرتے تو آپ ؐ کی قوم اس کی شدید مخالفت کرتی یہاں تک کہ پوری قوم آپ کی دشمن ہوگئی اور کہنے لگی کہ لوط کو اور اس کے گھر والوں کو اپنی بستی سے نکال باہر کرو کیونکہ یہ اپنے آپ کو بہت پاک باز اور نیک سمجھتے ہیں۔ ہم جیسے ناپاک لوگوں میں ان جیسے پاک باز لوگوں کا کیا کام ہے ؟ حضرت لوط (علیہ السلام) پھر بھی اپنی قوم کے لوگوں کو ہر طرح نصیحت کرتے رہے۔ جب وہ قوم ہم جنس پرستی سے باز نہیں آئی تو اللہ کا عذاب اس قوم کی طرف متوجہ ہوا ان کی بستیوں کو الٹ دیا گیا ‘ اوپر سے پتھروں کی بارش کی گئی اور ان کی بستیاں زمین کے اندر دھنسادی گئیں اور ان بستیوں پر سمندر کا پانی چڑھ گیا۔ آج وہ سمند جس کے نیچے قوم لوط کی بستیاں ڈبو دی گئیں اسی کو بحر میت (DeadSea) کہتے ہیں۔ اس پانی کی خصوصیت یہ ہے کہ اس میں کوئی کشتی بھی نہیں چل سکتی اور کسی جاندار کو وہ اپنے اندر برداشت نہیں کرتا۔ اللہ تعالیٰ نے پوری قوم کو ان کے برے اعمال کے سبب تابہ و برباد کردیا لیکن حضرت لوط ؐ اور ان کے گھر والوں (سوائے ان کی بیوی کے جو کافرہ تھی) اور ان کے اوپر ایمان لانے والوں کو نجات عطا فرمادی ۔ قرآن کریم کی ان آیات اور قوم لوط کے برے انجام کو سامنے رکھ کر میں یہ سوچتا ہوں کہ آج دنیا کے ترقی یافتہ ممالک نے نہ صرف اس ہم جنس پرستی کو قانونی تحفظ دے رکھا ہے بلکہ میڈیا کے ذریعہ اس کی بےانتہا ہمت افزائی کی جاتی ہے۔ ان کے اپنے کلب ہیں ‘ انجمنیں ہیں اور یہ بات بہت تیزی سے آگے جارہی ہے کہیں ایسا تو نہیں کہ دنیا پھر سے ہم جنس پرستی کے سمندر میں غرق ہونے کے قریب ہے۔ اللہ رحم فرمائے۔
Top