Baseerat-e-Quran - Al-Ankaboot : 48
وَ مَا كُنْتَ تَتْلُوْا مِنْ قَبْلِهٖ مِنْ كِتٰبٍ وَّ لَا تَخُطُّهٗ بِیَمِیْنِكَ اِذًا لَّارْتَابَ الْمُبْطِلُوْنَ
وَمَا : اور نہ كُنْتَ تَتْلُوْا : آپ پڑھتے تھے مِنْ قَبْلِهٖ : اس سے قبل مِنْ كِتٰبٍ : کوئی کتاب وَّلَا تَخُطُّهٗ : اور نہ اسے لکھتے تھے بِيَمِيْنِكَ : اپنے دائیں ہاتھ سے اِذًا : اس (صورت) میں لَّارْتَابَ : البتہ شک کرتے الْمُبْطِلُوْنَ : حق ناشناس
(اے نبی ﷺ اس کتاب سے پہلے آپ ﷺ نہ تو کوئی کتاب پڑھتے تھے اور نہ اپنے چاہنے ہاتھ سے اسے لکھتے تھے۔ ایسا ہوتا تو یہ باطل پرست کسی شبہ میں پڑجاتے۔
لغات القرآن آیت نمبر (48 تا 55) ۔ لا تخط (نہیں لکھتا ہے) ۔ یمین (داہنا ہاتھ) ۔ ارتاب (شک کیا) ۔ المبطلون (ناحق چلنے والے) ۔ لم یکف (کافی نہیں ہے) ۔ یستعجلون (وہ جلدی کرتے ہیں) ۔ مسمی (مقرر۔ متعین) ۔ بغتتہ (اچانک) ۔ تشریح : آیت نمبر (48 تا 55) ۔ ” اللہ تعالیٰ کا نظام یہ ہے کہ اس نے انسانوں کو پیدا کر کے ان کی رہنمائی کے اسباب بھی مہیا کئے ہیں چناچہ ہر دور میں اللہ نے اپنے رسولوں کو بھیجا اور ان کو وہ کتاب ہدایت بھی دی جس میں دنیا میں زندگی گذار کر آخرت کی کامیابیاں حاصل کی جاسکتی ہیں۔ جب نبی کریم ﷺ نے اعلان نبوت فرمایا تو اس وقت تو ریت، زبور اور انجیل کتابیں موجود تھیں جس میں انسانی ہاتھوں نے اپنی دنیاوی مقاصد کے لئے بیشمار ان باتوں کو شامل کرلیا تھا جو اللہ نے نازل نہیں کی تھیں۔ پھر اللہ تعالیٰ نے اپنے آخری نبی اور رسول حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ پر اس کتاب (قرآن مجید) کو نازل فرمایا جو قیامت تک ساری انسانیت کی رہبری کرتی رہے گی۔ اہل کتاب میں سے جو بھی حق و انصاف پر قائم ہیں وہ ان آیات اور سچائیوں کی تصدیق کریں گے اور بغیر کسی رکاوٹ کے ایمان لے آئیں گے۔ لیکن وہ لوگ جو اپنی ضد اور ہٹ دھرمی پر اڑے ہوئے ہیں وہ صرف طرح طرح کے اعتراضات تو کریں گے مگر ہر سچائی سے آنکھیں بند کئے رہیں گے۔ اب اس سے بڑی سچائی کیا ہوگی کہ نبی کریم ﷺ جن کی زندگی کے چالیس سال ان اہل مکہ کے سامنے گذرے تھے جو اس بات کو اچھی طرح جانتے تھے کہ آپ نے نہ کسی سے پڑھا، سیکھا اور نہ کبھی قلم ہاتھ میں لیا جس سے کچھ تحریر کیا جاتا ہے بلکہ آپ ” امی “ تھے۔ آپ کا امی ہونا ہی آپ کی زندگی کی سب سے بڑی سچائی ہے کیونکہ ایک چھوٹے سے معاشرہ میں عام طور پر ہر شخص ایک دوسرے کے حالات سے اچھی طرح واقف ہوا کرتا ہے۔ بیخبر نہین ہوتا۔ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ چالیس سال جو زندگی کا ایک اچھا خاصا طویل وقت ہوتا ہے اس میں نہ تو آپ نے ان باتوں کا اظہار کیا جن سے گذشتہ انبیاء کرام کے حالات زندگی اور مختلف مذہبوں کے عقیدے اور ان کا اچھا یا برا انجام سامنے آتا ہے۔ نہ قوموں کی تاریخ ، ان کی تہذیب، تمدن، معاشرت، معیشت اور اخلاق کا بیان کیا ۔ اچانک یہ علوم کے دریا جاری ہوگئے جن کے حاصل ہونے کا ذریعہ محض وحی الہی ہے اور دوسرا کوئی ذریعہ نہیں تھا۔ اگر آپ پڑھے لکھے ہوتے، آپ کے پڑھانے والے استاد ہوتے تو وہ کہہ سکتے تھے کہ انہوں نے ہم سے پڑھا ہے اور آج یہ پیغمبر بن بیٹھے ہیں۔ اول تو سارے عرب میں چند لوگ ہی پڑھے لکھے تھے۔ پورے مکہ میں بڑی تعداد میں اہل کتاب بھی نہیں تھے جو ان کو سکھا دیتے۔ لہذا وحی الہی کے سوا کوئی دوسرا ویسا ذریعہ نہیں تھا جس سے یہ علوم حاصل ہوتے۔ ان ہی باتوں کو اللہ تعالیٰ نے آن آیات میں واضح فرمایا ہے۔ ارشاد ہے۔ اے نبی ﷺ ! اس کتاب سے پہلے نہ تو آپ پڑھنا لکھنا جانتے تھے اور نہ اپنے داہنے ہاتھ سے لکھ سکتے تھے۔ ایسا ہوتا تو یہ جھوٹے لوگ آپ پر طرح طرح کے شبے کرسکتے تھے۔ فرمایا کہ اللہ کا یہ کلام ان کے دلوں میں موجود ہے جنہیں علم و بصیرت دیا گیا ہے وہ ہماری آیتوں کا انکار نہیں کرسکتے کیونکہ ہماری آیتوں کا انکار صرف وہی لوگ کرسکتے ہیں جو ظالم اور بےانصاف لوگ ہیں۔ فرمایا کہ وہ کفار یہ کہتے ہیں اگر یہ نبی ہیں تو گذشتہ انبیاء کی طرح ان کو معجزات کیوں نہ دیئے گئے جن کو دیکھ کر ہم ایمان لے آتے ؟ فرمایا کہ اے نبی ﷺ ! آپ ان سے کہہ دیجئے کہ معجزات دکھانا یہ اللہ کے قبضہ قدرت اور اختیار میں ہے۔ معجزہ دکھانا میا کام نہیں ہے میں تو برے کاموں کے برے انجام سے ڈرانے اور باخبر کے لئے آیا ہوں۔ فرمایا کہ کیا ان لوگوں کے لئے یہ بات کافی نہیں ہے کہ ہم نے آپ پر ایک ایسی کتاب کو نازل کی ہے جس کی آیات ان کے سامنے پڑھی جاتی ہیں۔ یقینا اہل ایمان ہی اس رحمت اور نصیحت سے فائدہ حاصل کرسکتے ہیں۔ فرمایا کہ اگر یہ لوگ آپ کی بات کو نہیں مانتے تو ان سے کہہ دیجے کہ میرے اور تمہارے درمیان صرف اللہ کی گواہی کافی ہے۔ وہ اللہ جو زمین اور آسمانوں کی ہر بات کا پوری طرح علم رکھتا ہے۔ فرمایا کہ نضر ابن حارث جیسے لوگ یہ کہتے ہیں کہ اے محمد ﷺ ! اگر تم سچے ہو تو ہم پر آسمان سے پتھ برسا دو اور وہ دردناک عذاب لے آئو جس کی دھمکیاں سن سن کر ہمارے کان پک گئے ہیں۔ فرمایا کہ وہ لوگ جو عذاب کی جلدی مچائے ہوئے ہیں ان سے کہہ دیجئے کہ اگر اللہ کے ہاں اس کا ایک وقت مقرر نہ ہوتا تو کبھی کا عذاب آچکا ہوتا۔ اور یقینا وہ عذاب اس طرح اچانک آئے گا کہ ان کو اس کی خبر تک نہ ہوگی۔ فرمایا کہ وہ جس عذاب کی جلدی مچا رہے ہیں کبھی انہوں نے اس بات پر غور کیا ہے ان کے کرتوتوں کے سبب اللہ کا عذاب ان کو تیزی سے چاروں طرف سے گھیر تا چلا جا رہا ہے۔ جب ان کے اوپر سے اور پاؤں کے نیچے سے عذاب آئے گا تو اس وقت وہ اپنے آپ کو بچانہ سکیں گے۔ اور اللہ کے فرشتے اعلان کریں گے کہ تم جو کچھ کرتے تھے آج اس عذاب کا مزہ چکھو۔
Top