Baseerat-e-Quran - Aal-i-Imraan : 92
لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّ حَتّٰى تُنْفِقُوْا مِمَّا تُحِبُّوْنَ١ؕ۬ وَ مَا تُنْفِقُوْا مِنْ شَیْءٍ فَاِنَّ اللّٰهَ بِهٖ عَلِیْمٌ
لَنْ تَنَالُوا : تم ہرگز نہ پہنچو گے الْبِرَّ : نیکی حَتّٰى : جب تک تُنْفِقُوْا : تم خرچ کرو مِمَّا : اس سے جو تُحِبُّوْنَ : تم محبت رکھتے ہو وَمَا : اور جو تُنْفِقُوْا : تم خرچ کروگے مِنْ شَيْءٍ : سے (کوئی) چیز فَاِنَّ : تو بیشک اللّٰهَ : اللہ بِهٖ : اس کو عَلِيْمٌ : جاننے والا
جب تک تم اپنی پسندیدہ اور محبوب چیزوں کو اللہ کی راہ میں خرچ نہ کرو گے اس وقت تک تم سچی نیکی کو نہیں پہنچ سکتے۔ اور جو کچھ تم خرچ کرے ہو بلاشہ اللہ اس سے خو ب باخبر ہے۔
لغات القرآن آیت نمبر 92 لن تنالوا (تم ہرگز نہ پہنچو گے) حتی تنفقوا (جب تک تم خرچ نہ کروگے) البر (سچی نیکی) تحبون (تم محبت کرتے ہو) ۔ تشریح : آیت نمبر 92 اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو اور اہل کتاب کی طرف آمادہ کیا ہے کہ سچی اور حقیقی نیکی حاصل کرنے کے لئے جب تک اپنی پسندیدہ اور محبوب کو اللہ کی محبت کی خاطر نہ چھوڑ دیا جائے اس وقت تک وہ حاصل نہیں ہوسکتی۔ اہل کتاب کو خطاب تو اس معنی میں ہے کہ دنیاوی لالچ نے ان کو اس بات سے روک رکھا تھا کہ وہ نبی آخرالزماں ﷺ پر ایمان لائیں ورنہ تمام تر نشانیوں سے وہ اچھی طرح پہچان چکے تھے کہ حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ ہی وہ آخری نبی اور رسول ہیں جن کا اہل کتاب کو شدت سے انتظار تھا۔ فرمایا یہ جارہا ہے کہ مال و دولت اور جاہ ومنصب کے لالچ کو چھوڑ کر جب ایک شخص اللہ کا فرماں بردار نہ بن جائے اس وقت تک کسی کو سچی نیکی نصیب نہیں ہوسکتی ۔ اہل ایمان کو یہ کہہ کر خطاب کیا گیا ہے کہ تم جب تک اپنی پسندیدہ اور محبوب چیز کو اللہ کی راہ میں قربان نہیں کرو گے اس وقت تک تم نیکی کی حقیقت کو نہیں پہنچ سکتے۔ جب یہ آیت نازل ہوئی تو نبی اکرم ﷺ کے جاں نثار صحابہ ؓ نے اپنے دلوں کا جائزہ لینا شروع کیا اور ہر ایک نے ایک دوسرے سے اس آیت کی تعمیل میں آگے بڑھنے کی تمنا شروع کردی۔ حضرت ابوطلحہ ؓ آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے عرض کیا اے اللہ کے رسول ﷺ مجھے اپنے مال میں سب سے زیادہ وہ باغ پسند ہے جو مسجد نبی وی ﷺ کے سامنے ہے جس کے کنویں کا میٹھا پانی آپ کو بھی بہت پسند ہے۔ میں اس امید پر کہ اللہ نے مجھے اپنی رحمتوں کے لئے خاص فرمالے یہ باغ اللہ کی راہ میں صدقہ کرتا ہوں۔ یہ سن کر آنحضرت ﷺ بہت خوش ہوئے۔ آپ نے فرمایا میری رائے یہ ہے کہ تم اس باغ کو اپنے رشتہ داروں اور عزیزوں میں تقسیم کردو۔ حضرت ابوطلحہ ؓ نے آپ کے حکم کی تعمیل کی۔ حضرت عمر ؓ حاضر ہوئے عرض کیا مجھے اپنے مال میں سب سے زیادہ پسند خیبر کی زرخیز زمین ہے میں اس آیت کی تعمیل میں اس زمین کو اللہ کے لئے صدقہ کرنا چاہتا ہوں۔ آپ نے فرمایا اصل زمین کو اپنے پاس رکھو اس کی پیداوار کو اللہ کے لئے وقف کردو۔ یہ اور اسی طرح کے اور بہت سے واقعات ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ صحابہ کرام ؓ کے نزدیک محبوب چیز صرف اللہ ورسول کے حکم کی تعمیل تھی اور وہ اس تلاش میں رہتے تھے کی ہمیں نیکیوں اور پرہیزگاری کے کاموں میں آگے بڑھنے کا موقع ہاتھ لگ جائے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں بھی یہی جذبہ عطا فرمائے۔ آمین
Top